ڈاکٹر شجاعت علی صوفی
بھارتیہ جنتا پارٹی کے 44 ویں یوم تاسیس کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے جب یہ کہا کہ پچھلے 800 سال یونہی غلامی میں گزر گئے صرف 2014 کے بعد ہی سے ہندوستان کی ایک نئی تاریخ رقم ہونے لگی ہے۔ ان کے اس انکشاف سے دنیا حیرت اور استعجاب میں پڑ گئی۔ اگر وہ مغلوں اور انگریزوں کے رول کو نظر انداز کرتے ہیں تو یقینا کرلیں لیکن کیا وہ اپنے دو مہا پتاؤں یعنی اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ اٹل بہاری واجپائی تو ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن اڈوانی جی آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اڈوانی کو مودی کے اس بیان نے ضرور ٹھیس پہنچائی ہوگی۔ اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہوں گے کہ
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی‘ کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا‘ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ اڈوانی کی رتھ یاترا ہی تھی جس کے چلتے ملک میں فرقہ پرستی کا ننگا اور گھناؤنا ماحول پیدا ہوا ‘کئی فسادات ہوئے ‘ بے شماروں لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں‘ خوف و دہشت کی فضا ہر طرف دکھائی دینے لگی‘ دستورکی دھجیاں اڑنے لگیں‘ انسانیت کو شرمسار کیا گیا۔ جب کہیں جاکر بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار حاصل ہوا۔ اگر سیاسی اعتبار سے مودی ‘ اڈوانی کے مشکور و ممنون نہیں ہوتے ہیں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ان کی سیاست مکاری ‘ بے وفائی اور فریب پر منحصر ہے۔ اس موقع پر اپنی تقریر میں مودی نے کارکنوں سے یہ بھی کہا تھا کہ آپ اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ’’ ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا‘‘ ۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ مودی مسلسل ہار رہے ہیں۔ ہماچل پردیش میں انہیں شکست فاش ہوئی۔ دلی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ میں وہ ہار گئے۔ ملک کی مختلف ریاستو ںمیں حال ہی میں ہوئے اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں انہیں ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ ابھی ابھی بہار میں ٹیچرس اور گریجویٹس کے پانچ ایم ایل سی حلقوں میں ہوئے چناؤ میں بھی ان کی پارٹی کو غیرمعمولی شکست ہوئی۔پانچ نشستوں میں سے بی جے پی کو صرف ایک سیٹ پر اکتفا کرنا پڑا یعنی جے ڈی یو، آر جے ڈی کا مہا گٹھ بندھن ان چناؤوں میں غالب رہا۔ پرشانت کشور کے ایک حمایتی امیدوار آفاق احمد نے بھی زبردست فتح حاصل کی۔ کوشی کی نشست پر بی جے پی کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں جے ڈی یو کے امیدوار کو 8692 ووٹ ملے وہیں بی جے پی نے صرف 599 ووٹ حاصل کئے۔ ان پانچ نشستوں کے نتائج سامنے آنے میں تاخیر ضرور ہوئی لیکن یہ ’’عظیم اتحاد‘‘ کے لئے ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا لگ رہا ہے۔پانچ میں سے تین نشستو ںپر مہا گٹھ بندھن کی کامیابی آنے والے انقلاب کی نقیب دکھائی دیتی ہے۔
اپوزیشن کے یہ الزامات کے مودی نروس ہیں ‘وہ تھکے تھکے دکھائی دے رہے ہیں‘ اڈانی کے معاملہ میں وہ بے حد پریشان ہیں‘ان کی گھن گرج ماند پڑ رہی ہے اور ان کا چہرہ تھکا تھکا دکھائی دے رہا ہے‘ تو یہ غلط نہیں لگ رہے ہیں۔ اڈانی کے مسئلہ پر جے پی سی کی مانگ نے مودی کو کافی پریشان کر رکھا ہے۔ وہ صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں جیسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ راہول گاندھی کے امیج کو کروڑوں روپئے خرچ کرکے خراب کرنے والی بی جے پی آج آخر ان سے خائف کیوں ہے؟ ان کے سوالات حکمران جماعت کی نیند کو حرام کیوں کررہے ہیں۔ پچھلے نو سال کی حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو بی جے پی کے پاس ایک بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جس میں کوئی خاص کامیابی حاصل ہوئی ہو۔ ہزاروں کارخانے بند ہوگئے‘ لاکھوں نوکریاں ختم ہوگئیں‘ بے شمار بینکس اسکینڈل کا شکار ہوگئے‘ بے روزگاری آسمان کو چھونے لگی‘ خودکشیوں میں اضافہ ہونے لگا‘ ملک کو اناج دینے والے کسان روٹی کو ترسنے لگے۔ ان کی آمدنی دوگنی ہونے کے بجائے اتنی گھٹ گئی ہے کہ وہ موت کو گلے لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ملک میں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگی جس کو Nenja کہا جارہا ہے یعنی No Employment, No Job, No Assets ۔ یہ صورتحال ہمارے نوجوانوں پر غالب ہوگی۔ سونچئے اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمارے ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟؟؟
اگر یہ نوجوان مشتعل ہوجائیں اور خدانخواستہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے لگ جائیں تو ہم ان سے کیسے نمٹیں گے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کو اگر ملک سے محبت ہے تو اسے فی الفور حرکت میں آنا چاہئے اور نوجوانوں کو اپنے اعتماد میں لینا چاہئے۔ ایک طرف فرقہ پرستی اور نفرت دوسری طرف غربت اور بے روزگاری عام ہوگی تو ہم کیسے جی پائیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا سب سے بڑا نظریہ ہندو۔ مسلم ‘ شمشان ۔ قبرستان ‘ دیوالی۔ رمضان‘ ہندوستان۔ پاکستان جیسے موضوعات کے ارد گرد ہی گھومتا رہتا ہے۔ ہندو راشٹر کی بات سامنے آتی ہے تو پنجاب کی سرزمین سے خالصتان کا مطالبہ بھی نمودار ہوتا ہے۔ دونوں ہی نظریئے ہمارے ملک کو تہس نہس کرسکتے ہیں۔ بی جے پی جب وکاس کی بات کرتی ہیں تو ایسا لگتا ہے وکاس لفظ ہی کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ 80 کروڑ لوگوں کو مفت میں اناج دینا کیا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وکاس نام کی کوئی شئے یہاں نہیں دکھائی دیتی ۔ ہاں گلی گلی کوچے کوچے میں تعصب ضرور دکھائی دیتا ہے۔ شاید ایسی ہی صورتحال کو ذہن میں رکھ کر اردو کے عظیم شاعر آغا حشر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔
جگہ جگہ پر کھڑی ہے سولی ‘قدم قدم پر بچھے ہیں پھندے
دکان کھولی مصیبتوں کی گناہوں کے ہورہے ہیں دھندے
نگاہ ناپاک ‘روح میلی ‘زبان جھوٹی ‘ خیال گندھے
کچھ ایسا بدلہ ہے یہ زمانہ ‘ نہ وہ خدا ہے‘ نہ وہ ہے بندے
یہی ہے حالت تو دین ومذہب کو دور ہی سے سلام ہوگا
نہ ہوں گے ہندو ‘ نہ ہوں گے مسلم ‘ رحیم ہوگا نہ رام ہوگا
آغا حشر کے اشعار موجودہ حالات میں غلط نہیں ہیں لیکن ہمیں مثبت سوچ کا دامن کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑنا چاہئے۔ سبھی کو اور خاص طورپر سیاستدانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا ضمیر ہمارے اندر اس آواز کا نام ہے جو ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے‘ لوگ اسے چاہے اللہ کہہ لیں، بھگوان یا پرماتما کہہ لیں کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا وہ جس نے ہمیں پیدا کیا ہمارے ایک ایک قدم پر نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔ اس کی نیکی ہو یا اس کا کوئی ظلم ‘ وہ کسی کی جان لیتا ہو یا کسی کی زندگی بچاتا ہو اسے اسی جنم ہی میں اس کے کئے گئے کام کے مطابق Reward یا پھر دردناک سزائیں ملتی ہیں کہ جس کے تصور سے ہی ہم سب کانپ اٹھیں گے۔
دریں اثنا کچھ ریاستوں سے 80 کروڑ غریبوں میں بانٹے جانے والے اناج کے نظام میں کچھ گھپلوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ یہ اناج غریبوں کی جھولی میں گرنے کے بجائے افسروں کے گھر پہنچ رہا ہے۔ ان ہی سچائیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
خوددار میرے شہر کا فاقوں سے مر گیا
راشن جو آرہا تھا وہ افسر کے گھر گیا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰