سیاستمضامین

جب تک دستورِ ہند کی تمہید میں لفظ’سیکولر‘ سلامت ہے‘ ہندوستان ہندوراشٹرنہیں بن سکتاموجودہ زعفرانی حکومت کو یہ بات نہ بھولنی چاہیے کہ سپریم کورٹ دستورِ ہند کی محافظ ہے

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ وزیر قانون کا ججوں کے خلاف نازیبا کلمات کا استعمال قابلِ مذمت ہے۔
٭ حکومت کی غیر جمہوری اور خلافِ دستور کارروائیوں کو سپریم کورٹ درست کردے گی۔
٭ حکومت کو موجودہ چیف جسٹس سے خطرہ ہے۔
٭ آرٹیکل 370 اور 35-A کی منسوخی کی رٹ درخواستیں بہت جلد سماعت کیلئے آئیں گی۔

گزشتہ چند ماہ سے حکومتِ ہند سپریم کورٹ سے بہت خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے ۔ وزیرِ قانون نے سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف جو ہرزہ سرائی کی ہے‘ اس پر سپریم کورٹ نے بہت ہی سنجیدگی سے غور کیا ہے۔ اڈانی کیس میں حکومت کی مہربند لفافہ میں جوابدہی اور اس بند لفافہ کی واپسی پر حکومت سیخ پا ہوگئی ہے اور اسی تلملاہٹ کی وجہ سے وزیر قانون نے ججوں کو عوام کی نظروں میں گرانے کی کوشش کی ہے۔ کیرالا کے ایک ٹیلی ویژن چیانل کے لائسنس کی عدم تجدید پر پیش کردہ ایک اپیل پر سپریم کورٹ نے حکومت کو ایک زبردست پھٹکار لگائی اور حکم جاری کیا کہ درخواست گزار چیانل میڈیا ون کے لائسنس کی فی الفور تجدید کی جائے۔ اس کیس میں بھی مرکزی حکومت نے کیرالا ہائیکورٹ میں ایک مہر بند لفافہ میں اپنا حلف نامہ داخل کیا تھا جس کی بنیاد پر کیرالا ہائیکورٹ نے چیانل کی رٹ درخواست کو مسترد کردیا تھا۔ چیانل چلانے والوں کا تعلق ایک اسلامی تنظیم سے ہے۔ جوابی حلف نامہ کو بند لفافہ میں پیش نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ انصاف رسانی کے عمل میں شفافیت ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے کیرالا ہائیکورٹ کے فیصلہ کو الٹ دیا اور درخواست گزار چیانل کو راحت بہم پہنچائی۔ ملک کے نائب صدر صاحب بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں ہیں اور آئے دن کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں۔
ہر کوئی واقف ہے کہ ہندوستان میں بعض فرقہ پرست‘ دائیں بازو کی ہندوتنظیموں کی جانب سے ہندوراشٹر کا راگ الاپاجارہا ہے اور اس کی سرپرستی سرکردہ زعفرانی پارٹی کے لیڈرس کررہے ہیں اور زعفرانی حکومت نے اس ضمن میں بالکل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ لیکن یہ خواب ایک بھیانک خواب ثابت ہوکر رہے گا۔ کیوں کہ دستورِ ہند کی تمہید ہی میں اس بات کی صراحت ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوریت رہے گا۔
لہٰذا جب تک دستور ہند سلامت ہے‘ یہ ہندوراشٹر کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔
زعفرانی حکومت کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے وہ چیف جسٹس آف انڈیا سے ہے ۔ وہ دستور و آزادی کے تحفظ کیلئے کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ بہت جلد آرٹیکل 370اور 35-A کی منسوخی کے خلاف رٹ درخواستیں سماعت کے لئے پیش کی جائیں گی۔ حکومت کو خطرہ لاحق ہے کہ اگر آرٹیکل370 کی منسوخی کا قانون اگر کالعدم قراردیا جائے تو کیا ہوگا؟ دستور کے مطابق آرٹیکل370اور 35-A اس وقت تک دستور کا حصہ رہیں گے جب تک کہ جموں کشمیر اسمبلی یہ قرارداد پاس نہ کرلے کہ اب ان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
جموں کشمیر اسمبلی تو کوئی قرارداد پاس نہ کرسکی کیوں کہ اس وقت ریاست میں صدر راج تھا۔ تو کیا گورنر کی سفارش کو اسمبلی کی قرارداد سمجھا جائے گا۔ یہ بہت اہم قانونی سوال ہے اور اسی نکتہ کے اطراف ہی بحث ہوگی۔ اگر سپریم کورٹ کی نظر میں گورنر کی سفارش غیر دستوری تھی تو نتیجہ کیا ہوگا ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ یہی فکر حکومتِ ہند کو لاحق ہے۔
ہم نے اس اہم قانونی نکتہ کو مختصراً الفاظ میں سجھانے کی کوشش کی ہے تاکہ ہر کسی کو سمجھنے میں آسنی ہوسکے ۔
قانونی مشورہ کئے بغیر قیمتی اراضی کی فروخت کس قدر نقصان دہ ہوسکتی ہے
سوال: میری ایک اراضی معین آباد کے قریب واقع ہے اور اس کا رقبہ دیڑھ ایکر کے قریب ہے۔ میری اراضی کاکھاتہ نمبر ہے اور دھرنی پورٹل میں بھی میرے نام کا اندراج ہے۔ چند روز قبل کچھ افراد مجھ سے میرے گھر پر آکر ملاقات کئے اور کہا کہ میری اراضی پر کچھ بی جیپی غنڈہ عناصر نے قبضہ کرلیا ہے اور آپ ان افراد سے نہ تو قانونی جنگ لڑسکتے ہیں اور نہ کوئی کارروائی کرسکتے ہیں کیوں کہ وہ لوگ بہت رسوخ رکھتے ہیں اور تحصیلدار سے لے کر کلکٹر تک ان کے تعلقات ہیں۔ ان لوگوں نے تمام کاغذات بھی میرے سامنے پیش کئے۔ ان لوگوں نے کہا کہ اگر آپ ہم کو یہ اراضی فروخت کردیں تو ہم کارروائی کرکے اور اگر ضرورت پڑے تو طاقت کا استعمال کرکے ان لوگوں کو اراضی سے بے دخل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مجھے مجبور کردیا۔ ایک معاہدۂ بیع اور GPA کے کاغذات ٹائپ کرکے لائے۔ قیمت مقرر ہوئی جو بازاری قیمت کا پندرہ فیصد بھی نہیں۔ مجھے صرف پانچ لاکھ روپیہ دے کر میری دستخط حاصل کرکے چلے گئے اور وعدہ کیا کہ رجسٹری کے وقت مابقی رقم ادا کردیں گے۔
بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میری اراضی کی قیمت معاہدہ کی رقم کا پندرہ فیصد بھی نہیں۔ ان لوگوں کے لب و لہجہ سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ غنڈہ عناصر ہیں۔ اب مجھے فکر لاحق ہے کہ یہ افراد میرے معاہدہ کی اساس پر کسی غیر شخص سے معاہدہ کریں گے۔
مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ آپ کے کالم کا قاری ہونے کے باوجود بھی میں آپ سے قانونی رائے حاصل نہیں کرسکا۔
مجھے اس ضمن میں آپ کی رائے درکار ہے۔ بروقت مشورہ نہ کرنے کا مجھے شدید افسوس ہے۔
X-Y-Z حسینی علم۔ حیدرآباد
جواب:- آپ نے اپنی قیمتی اراضی فروخت کرنے کا معاہدہ کیا اور اس ضمن میں کوئی قانونی رائے حاصل نہیں کی۔ یہ سچ بات ہے کہ قانون غافلوں کی مدد نہیں کرتا۔
آپ فوری طور پر اس معاہدہ کی برخواستگی یا منسوخی کی نوٹس جاری کرسکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنی اڈوانس میں دی گئی رقم واپس لے سکتے ہیں۔ اس معاہدہ کی منسوخی کا اخباری اعلان بھی کروائیے۔
تقسیمِ ترکہ کا مسئلہ
سوال:- میں ایک غیر شادی شدہ لڑکی ہوں اور اپنے بھائی کے گھر کے ایک حصہ میں رہائش پذیر ہوں اور پیشہ سے ٹیچر ہوں۔ یہ وسیع مکان میرے والد صاحب مرحوم کے نام پر ہے۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں اس جائیداد کو کسی کے بھی نام منتقل نہیں کیا تھا۔ ایک بھائی صاحب ہیں جو مجھ سے عمر میں پندرہ سال بڑے تھے۔ ان کی شادی ہوئی اور میری شادی نہیں ہوسکی میں نے کبھی بھی اس بڑی جائیداد کے بارے میں نہیں سوچا ۔ بڑے بھائی ہیں‘ بھابھی ہیں اور ان کے بچے ہیں۔ میں گھر کے ایک ہی حصہ میں رہتی ہوں۔
اب بھائی صاحب مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے ہیں اورانہوں نے کچھ کاغذات پیش کئے اور کہا کہ میں ان پر دستخط کردوں۔ میرے پوچھنے پر کہ آپ والدصاحب کی امانت کو کیوں فروخت کرنا چاہتے ہیں تو کہنے لگے کہ میں نے ایک بہت اچھا گھر دیکھ لیا ہے۔ فروخت کے بعد ہم وہاں منتقل ہوجائیں گے۔ اتفاق سے میری ایک سہیلی کی بات یاد آگئی کہ کبھی بھی کسی کاغذ پر پڑھے بغیر دستخط نہ کروں۔
میں نے پڑھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ جو کاغذات پیش کئے گئے اس میں میرا اقرار نامہ تھا کہ میں نے اس مکان میں اپنا حصہ اپنے بڑے بھائی کے نام کردیا ہے۔ میں نے بھائی سے دریافت کیا کہ یہ تو بیع نامہ نہیں بلکہ ایک ہبہ نامہ ہے۔
بھائی صاحب ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ کیا مجھ پر بھروسہ نہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ میں خود کفیل ہوں۔ اچھی خاصی تنخواہ ہے۔ سرکاری ہائی اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ میں بھائی کی زیر پرورش نہیں ہوں۔
اب بھائی صاحب کے تیور بدلے ہوئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ بھابھی کی باتوں میں آکر مجھے میرے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔
آپ سے اس ضمن میں رائے طلب کی جارہی ہے۔
فقط ۔ ایک ٹیچر ۔ حیدرآباد
جواب:-آپ نے اچھا اقدام کیا۔ اس جائیداد میں آپ کا حصہ ایک تہائی ہے۔ اگر بھائی اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے ہیں تو آپ بھائی بہن مل کر یہ کام کرسکتے ہیں۔ ورنہ آپ کو تقسیمِ ترکہ کا دعویٰ کرنا ہوگا۔
ڈیولپمنٹ معاہدہ
غیر اجازت یافتہ ہمہ منزلہ کامپلکس میں فلیٹس کی رجسٹری نہیں ہورہی ہے اور غیر اجازت یافتہ تعمیری اجازت نامہ کی خلاف ورزی میں تعمیر ہوئی عمارتیں ہائیکورٹ کے احکامات کی زد میں آرہی ہیں۔ مالکینِ اراضی کو رائے دی جاتی ہے کہ ڈیولپمنٹ معاہدہ کرنے سے پہلے قانونی رائے حاصل کرلیں ورنہ بعد میں بہت نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔
آج کل کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی غیر مجاز تعمیر یا تعمیری اجازت کی خلاف ورزی میں تعمیر ہوئی عمارتوں کی کمشنر میونسپل کارپوریشن سے شکایت کی اور غیر مجاز تعمیر کے خلاف کارروائی کی درخواست پیش کی اور اس پر عمل درآمد نہ ہونے پر ہائیکورٹ سے بذریعہ رٹ رجوع ہوتو ہائیکورٹ ہر درخواست پر احکامات جاری کرتا ہے کہ درخواست گزار کی شکایتی درخواست پر عمل درآمد کیا جائے تو ایسی صورت میں وہ عہدیدار بھی مجبور ہوجائیں گے کہ انہدامی کارروائی کریں چاہے انہوں نے آپ سے بھاری رشوت ہی قبول کیوں نہ کی ہو۔
لہٰذا بلڈر اگر یہ کہے کہ میں G+1 کی اجازت لے لوں گا اور بعد میں چار منزلیں اور تعمیر کروں گا تو ہرگز یقین نہ کیجئے کیوں کہ ساری عمارت انہدامی کارروائی کی زد میں اْائے گی۔ لہٰذا خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔