سیاستمضامین

رمضان اور مسلم نوجوان

محمد مصطفی علی سروری

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اب جبکہ ہم سب پر سایہ فگن ہے یعنی سال کا وہ مہینہ جب مسلمان روزہ رکھتے ہیں لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ روزوں کے مہینے کی پہچان کھانوں کی ڈشوں، فوڈ فیسٹول، کپڑوں کے سیل اور حلیم سے ہونے لگی ہے۔ مہنگائی کے دور میں جب بڑے بڑے برانڈس کی حلیم ڈھائی سو تا تین سو روپئے پلیٹ کے حساب سے فروخت کے لیے بازار میں پیش کی جارہی ہے تو شہر حیدرآباد میں کہیں سے بھی حلیم کی فروخت نہ ہونے کی کوئی شکایت سننے کو نہیں ملی۔
صرف بڑی بڑی ہوٹلوں کی حلیم ہی نہیں سڑک کنارے فروخت ہونے والی حلیم ہر جگہ دیگوں کی دیگ روزہ داروں کے نام پر خالی ہو رہے ہیں۔
جی ہاں یہ اکیسویں صدی کے رمضان کا سچ ہے جس کے دوران ہم حلیم ہی نہیں بلکہ انواع اقسام کے کھانوں کی ڈشوں کے بغیر روزوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ دوسرا سچ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت خانگی شعبہ میں برسرروزگار ہے یا یومیہ محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتی ہے۔ ان لوگوں کے لیے رمضان کا بونس سوچنا یا رمضان کا اہتمام کرنے کے لیے علیحدہ الائونس کی بات کرنا بے کار ہے۔ لیکن الحمد للہ سے تقریباً مسلمان گھرانوں میں حلیم کھانے کا رواج ہے اور دسترخوان کو وسیع کردیا جاتاہے۔
ہمارے محتاط اندازے کے مطابق شہر حیدرآباد میں رمضان المبارک کے دوران روزانہ کروڑوں کی حلیم کا کاروبار ہوتا ہے۔ سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق شہر حیدرآباد کی کل آبادی 40لاکھ ہے جس میں مسلمانوں کا تناسب تقریباً 44 فیصد ہے اور حلیم صرف مسلمان ہی نہیں دیگر برادران وطن بھی بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ شہر حیدرآباد میں ایک دن میں تقریباً 8 تا 10 کروڑ روپیوں کی حلیم فروخت ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
خیر سے کرونا لاک ڈائون کے بعد جاریہ برس تو حلیم کے علاوہ سحری کے لیے کھانے پینے کی اشیاء اور پکوان کے خوب کاروبار ہونے کی اطلاعات ہیں۔
رمضان المبارک کے دوران دسترخوان کو وسیع کردیا جاتا ہے۔ کیا امیر، کیا غریب ہر کوئی اس بات کے لیے کوشاں رہتا ہے کہ اپنے گھر میں رمضان کا خاص اہتمام ہو۔ بچت نہیں بھی ہے تو بجٹ کا کہیں نہ کہیں سے انتظام کرلیا جاتا ہے۔ پھر چاہے وہ کہیں سے یا کسی سے قرضہ لینے کی بات ہی کیوں نہ ہو۔
یقینا رمضان المبارک کا مہینہ عبادتوں کا مہینہ ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ مہینہ مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس مہینے کے دوران پیدا ہونے والی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیں۔ کیوں کہ بیرون ریاست سے ہزاروں کیلومیٹر دور سے آنے والے نوجوان بغیر کسی بھاری سرمایہ، دوکان اور جگہ کے پیسے دیئے بغیر چارمینار کے دامن میں کھڑے ہوکر بھی اتنا کما لیتے ہیں کہ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرسکیں تو وہ نوجوان جن کا تعلق تلنگانہ اور آندھرا پردیش سے ہے وہ کب تک بے روزگاری اور کاروبار کے لیے سرمایہ نہ ہونے کا رونا روتے رہیں گے۔
ظہور احمد وار کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے۔ اس نوجوان نے سال 2010 میں گورنمنٹ ڈگری کالج، ہنڈواراہ سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ سال 2013ء میں بی ایڈ کا کورس مکمل کیا۔ اس کے بعد ظہور نے مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں واقع اسلامیہ کریمہ کالج سے ایم اے اردو کی تکمیل کی۔ گریٹر کشمیر اخبار کی رپورٹ کے مطابق ظہور اپنے گھر کا بڑا لڑکا تھا۔ ایم اے اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے گھر والوں کی مدد کرنے کا ارادہ کیا۔ ظہور کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود کسی بھی تعلیمی ادارے میں مدرس کی ملازمت نہیں مل رہی تھی۔ لیکن ظہور اس بہانے خالی بیٹھنے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ اس نے اپنے ایک رشتہ دار سے بڑھائی کا کام سیکھنا شروع کردیا۔
دوسری طرف آج کی نوجوان نسل کی طرح ظہور کو اس کے دوست کہتے تھے کہ تم آگے اور پڑھائی کرو۔ ان لوگوں نے ظہور کا ایم فل کے لیے داخلہ فارم بھردیا جب ظہور کو ایم فل میں داخلہ ملا تو اس نے بالآخر اپنی ایم فل کی پڑھائی بھی مکمل کی۔ اس کی بھی اب خواہش مضبوط ہوگئی تھی کہ کسی طرح پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کرلوں۔ دوسری طرف گھر کے حالات اس کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے، اس لیے ایم فل کی سند کے ساتھ ظہور نے دوبارہ بڑھائی کا کام شروع کردیا۔ اخبار گریٹر کشمیر کی رپورٹ کے مطابق ظہور آج کل سری نگر میں کارپنٹری کا کام کر رہا ہے اور روزآنہ ایک ہزار روپئے کما رہا ہے۔
ظہور نے کہا کہ اگر میں کارپنٹری کا کام نہیں سیکھا ہوتا تو میں بھی بہت سارے نوجوان اسکالرس کی طرح گھر پر بیٹھ کر ملازمت کا انتظار کر رہا ہوتا۔ ظہور کے مطابق تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ سرکاری ملازمتوں کا انتظار کرنے کے بجائے اپنے طور پر اپنی مدد آپ کرنا سیکھیں۔ بجائے انتظار کرنے کے محنت کر کے اپنے مستقبل کو روشن بنائیں۔ (29؍ مارچ 2023ء گریٹر کشمیر۔ طارق رحیم کی رپورٹ)
قارئین یہ تو ظہور احمد کی مثال تھی جس نے بی ایڈ اور ایم فل کی تعلیم حاصل کی اور پھراپنی مدد آپ کرنے کے لیے بڑھائی کا کام سیکھ کر کمانا شروع کردیا۔ اب ذرا اس بات پر غور کریں کہ رمضان کے مہینے میں کھانے پینے کی چیزوں اور پکوان کا عارضی کاروبار کروڑوں کی مالیت کا ہوگیا ہے۔ کرتے پائجامے کا کاروبار کروڑوں کی مارکٹ بن گیا ہے۔ ایسے ہی اور بھی کاروباری مواقع ہیں۔
لیکن یہاں پر میں ایک لمحہ کے لیے قارئین کی توجہ کھانے پینے کی مارکٹ اور پکوان پر مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ صرف رمضان ہی نہیں غیرے رمضان بھی پکوان اور ہوٹلوں کا کھانے، پینے کا کاروبار بہت بڑی مارکٹ بن گیا ہے۔ فی الحال اس مارکٹ میں غیر پیشہ ور لوگ کارگذار ہیں لیکن آگے چل کر اس مارکٹ میں بھی پیشہ وارانہ افرادی قوت کی مانگ ہوگی۔
ابھی حال ہی میں فوربس میگزین نے یوروپ کے 30 ایسے بااثر افراد کی فہرست جاری کی ہے جن کی عمریں 30 برس سے کم ہے۔
لیکن ان لوگوں نے اپنے شعبوں میں زبردست نام کمایا ہے۔ اور اس فہرست میں Mathew Leeng کا نام بھی شامل ہے۔ میاتھیو کا تعلق اصلاً تو سنگاپور سے ہے لیکن وہ یوروپ کے ملک ناروے میں بطور شیف کارگزار ہیں۔
سنگاپور ایشیاء کا ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور اس ملک سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان بطور شیف کیریئر کا انتخاب کرتا ہے اور گذشتہ چھ مہینے سے وہ ناروے کے ایک ٹو اسٹار ہوٹل میں ہیڈ شیف کے طور پر کام کرتے ہوئے اپنے ریسٹورنٹ کی آمدنی میں 15 فیصدی اضافہ ریکارڈ کرواتا ہے اور ناروے کے سب سے بڑے اخبار نے میاتھیو کے ریسٹورنٹ کو ناروے کا بہترین ریسٹورنٹ قرار دیا۔
28 سال کے میاتھیو بطور شیف نمایاں کارکردگی کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد CNA.com کو بتلایا کہ پکوان میں میری دلچسپی مجھے وراثت میں ملی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں میاتھیو کے والد بھی شیف تھے۔ میاتھیو کا کہنا ہے کیہ میری ماں کے لذیذ کھانوں نے مجھے پکوان میں دلچسپی پیدا کی اور میں نے تیرا برس کی عمر میں ہی پکوان کے مقابلے میں حصہ لے کر گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔
26 سال کی عمر میں سنگاپور کے میاتھیو نے فرانس کے بین الاقوامی پکوان کے مقابلوں میں شرکت کی اور دنیا بھر کے پکوان ماہرین میں 12 واں رینک حاصل کیا۔
سنگاپور کا یہ نوجوان کہتا ہے کہ ایشیائی پکوان اور ایشیائی ڈشیں پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ یوروپ میں بہت سارے پکوان گھر ایشیائی ڈش اور پکوان کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اپنی ماںسے پکوان سیکھنے کی ترغیب حاصل کرنے والا نوجوان جس نے کئی بین الاقوامی مقابلے جیت لیے ہیں ایک دلچسپ بات بتلاتا ہے کہ آج بھی جب میں اپنے گھر پر ہوتا ہوں تو صرف برتن دھونے کا کام کرتا ہوں کیوں کہ میری ماں سب سے بہترین کھانا بنانے والی ہیں۔
ناروے میں برسرکار سنگاپور کا یہ نوجوان آگے چل کر اپنے وطن واپس ہونا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے ملک میں اپنا خود کا ایک Michelin Starred ریسٹورنٹ کھول سکے۔
کیا شیف بننا اتنا ہی آسان ہے جتنا ماسٹر شیف اور دیگر ٹیلی ویژن شوز میں بتلایا جاتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں میاتھیوز نے بتلایا کہ یہ بہت محنت کا کام ہے اور بہت طویل راستہ ہے۔ نوجوانوں کو بہت سارے چھوٹے چھوٹے کام کرنے ہوں گے۔ تب ہی جاکر وہ پکوان کے ماہر بن سکتے ہیں۔
(بحوالہ CNA ڈاٹ کام 3؍ اپریل 2023ء کی رپورٹ)
لوگوں کو ان کے گھروں تک کھانا پہنچانے والی کمپنی Swiggy نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے اطلاع دی کہ شہر حیدرآباد میں ایک صارف نے پچھلے ایک سال میں 6 لاکھ روپیوں کے مالیتی اڈلی آڈر کیے تھے۔ یعنی اس صارف نے اپنے لیے، اپنے خاندان کے لیے اور دوست احباب کے لیے مجموعی طور پر 8428 پلیٹ اڈلی منگواکر اپنی نوعیت کا منفرد ریکارڈ قائم کیا۔
ہر سال 30؍ مارچ کو عالمی یومِ اٹلی منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر Swiggy نے اپنے پریس ریلیز میں مزید بتلایا کہ شہر حیدرآباد جس کو عام طور پر بریانی کا شہر کہا جاتا تھا با ملک گیر سطح پر اپنی دوسری پہچان بنارہا ہے۔ Swiggy کے مطابق پورے ملک میں بنگلور کے بعد اڈلی منگوانے والوں کی دوسری بڑی تعداد شہر حیدرآباد سے تعلق رکھتی ہے اور چینائی تیسرے نمبر پر ہے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران اس کمپنی نے 33 ملین اڈلی کے پلیٹ صارفین تک پہنچانے کا کام کیا ہے۔
(بحوالہ اخبار ہندوستان ٹائمز۔ 31؍ مارچ 2023ء کی رپورٹ)
ایسا نہیں ہے کہ شہر حیدرآباد اور تلنگانہ میں نوجوان کاروبار نہیں کرتے یا انہیں کاروباری مواقع کے متعلق معلومات نہیں ہیں۔
دوکاندار اگر مسلمان ہو تو اس کا تو ایمان ہونا چاہیے۔ مجھے رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے۔ لیکن وہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ میری دوکان کے سامنے جب تک فٹ پاتھ پر اپنا ڈسپلے نہ کروں میرا کاروبار چلنے والا نہیں۔ مسلمان نوجوان رمضان میں کاروبار کے نام پر قیمتوں کو بڑھاکر شکایت کرتا ہے، اپنے لوگ ہمارے پاس خریداری کرنے کے بجائے اوروں سے کاروبار کرتے ہیں۔
جس مذہب نے راستہ کے کانٹے کو ہٹانے کی ترغیب دی ہے کیا اس کے ماننے والوں کو زیب دیتا ہے کہ وہ سڑکوں پر قبضہ کرکے وہ بھی رمضان اپنے لیے منافع کمانے کی سونچیں۔
سڑک پر کاروبار کر کے آنے جانے والوں کو تکلیف دینے پر شکایت کی جائے تو مسلمان کہتا ہے کہ اپنے ہی لوگ ہمارے دشمن ہیں۔ غیر بھی اپنے علاقوں میں سڑکوں پر قبضہ کیے رہتے ہیں۔ وہاں پر تو کوئی شکایت نہیں کرتا بس مسلمان ہی مسلمان کی ٹانگ کھینچتا ہے۔
کاروبار کا مطلب قیمتوں میں اضافہ کر کے بیچنا نہیں بلکہ یہ تو استحصال میں شمار ہوگا۔ مسلمان تو ایسی تجارت کرے گا جو ایک بار جان جائے کہ بغیر جھوٹ، بغیر دھوکہ کے اور کم منافع کے ساتھ کاروبار کرنے والے مسلمان ہیں تو پھر مسلمانوں کے کاروبار میں یقینااللہ رب العزت کی برکت بھی شامل ہوگی۔ سونچئے گا، غور کیجئے گا۔ دعا کیجئے گا اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔sarwari829@yahoo.com
۰۰۰٭٭٭۰۰۰