مذہب

دخترانِ ملت کے ڈگمگاتے قدم اور سوشل میڈیا

اس حقیقت سے کسی فردِ بشر اور مردِ دیدہ ور کو مجالِ انکار نہیں کہ دخترانِ ملت اپنے یارانِ بے وفا اور عاشقانِ نفاق پرور کی جھوٹی محبت کی خاطر دین و ایمان جیسے بیش قیمت سرمایہ کا سودا کررہی ہیں، ریسٹورنٹس ، ہوٹلز، تفریح گاہوں اور چوراہوں پر غیر مسلم نوجوانوں کے ساتھ گپ شپ کرتے اور گل چھرّے اڑاتے نظر آرہی ہے۔

محمد عمر کاماریڈی

اس حقیقت سے کسی فردِ بشر اور مردِ دیدہ ور کو مجالِ انکار نہیں کہ دخترانِ ملت اپنے یارانِ بے وفا اور عاشقانِ نفاق پرور کی جھوٹی محبت کی خاطر دین و ایمان جیسے بیش قیمت سرمایہ کا سودا کررہی ہیں، ریسٹورنٹس ، ہوٹلز، تفریح گاہوں اور چوراہوں پر غیر مسلم نوجوانوں کے ساتھ گپ شپ کرتے اور گل چھرّے اڑاتے نظر آرہی ہے، ملت کی بیٹیاں بے غیرتی پر کمر باندھ کر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ موٹر سائیکل پر بے محابا گھومتی پھر رہی ہیں، ستم تو یہ ہے کہ اس فعلِ قبیح اور حرکتِ ناروا پر بالکل بھی نادم و شرمندہ نہیں، ایسا لگتا ہے کہ نہ انہیں اپنے دین و ایمان کی فکر ہے، نہ ماں باپ کی عزت و آبرو کا احترام، انہیں کچھ احساس ہی نہیں کہ وہ دین و ایمان اور شرم و حیا کو داؤ پر لگا کر ارتداد و انحراف کی راہ پر چل پڑی ہیں، جس کی بےشمار تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر (بالخصوص واٹس ایپ کے گروپوں میں)کثرت سے کردش کررہی ہیں جو کہ امت مسلمہ کے لئے انتہائی دکھ کی بات اور بےحد اصلاح طلب پہلو ہے، اس کے اسباب و وجوہات کیا ہیں اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ؛ لیکن اب اصلاح کی ضرورت ہے، اس ارتداد کی ہوا کو کس طرح روکا جائے ؟ کیا تدابیر اپنائی جائیں؟

ہوتا یہ ہے کہ ہمارے بعض نوجوان جہاں کہیں کسی مسلمان بیٹی کو غیر مسلم لڑکے کے ساتھ دیکھتے ہیں تو فوراً ویڈیو بناکر شئیر کردیتے ہیں؛ حالانکہ تصویر کشی اور ویڈیو گرافی کرکے شئیر کردینا تو اصلاح کا طریقہ نہیں ہے، جذباتی اقدامات کے بہ جائے مؤثر اور منصوبہ بند تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے؛ ورنہ بعض دفعہ ہمارے اس طرزِ عمل سے خود وہ لڑکی بات ماننے کے بہ جائے نڈر اور ہٹ دھرمی پر اتر آتی ہے، اس لئے ویڈیو بنانے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے بہتر عیب پر پردہ ڈالتے ہوئے کسی مناسب موقع سے اچھی جگہ گھر والوں کے سامنے اطمینان سے بٹھاکر ذہن سازی کریں ، ناجائز محبت اور جھوٹے عشق کے گندے جراثیم ان کے دل و دماغ سے ختم کریں‌، ایسے ہی ملت کا درد رکھنے والے افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچی کے گھر پہنچ کر والدین سے ملاقات کرکے انہیں فکر دلائیں، اور جس چیز کی کمی اور ضرورت محسوس ہو اس کی فراہمی کی کوشش کریں (فقر و فاقہ ہو تو مالی امداد کریں، اگر کوئی ذمہ دار نہ ہو تو مناسب رشتہ تلاش کرکے گھر بسانے کی فکر کریں وغیرہ)۔

دوسری بات بہت سی دفعہ ہمارے بعض نوجوان انجانے میں ہندو فرقہ پرستوں کی کئی سال پرانی اشتعال انگیز تقاریر واٹس ایپ پر پھیلاتے رہتے ہیں کہ دیکھو وہ ہمارے خلاف کیا کیا سازشیں رچ رہے ہیں ؛ حالانکہ ان کی ویڈیوز شئیر کرنے سے تو الٹا ان کی اعانت ہوتی ہے، یہ اصلاح کا انداز نہیں ہے کیوں کہ دورِ نبوت میں جب کبھی ملعون کافروں کی جانب سے نبی ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی جاتی تو صحابہ اپنی اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے اس کا جواب دیتے لیکن کوئی ان اہانت آمیز جملوں کا تذکرہ نہیں کرتا، کتب احادیث میں کہیں اس کا ثبوت نہیں ملتا، خدارا اس کو شئیر کرکے ان کا آلۂ کار نہ بنیں، سوشل میڈیا کا محتاط استعمال کرنا بھی سیکھیں!

تیسری بات: خدامِ رفاہ اور صاحبِ ثروت و ذی اثر لوگوں کو چاہیے کہ وہ روایتی کاموں پر انحصار کرنے کے بجائے ترجیحی تقاضوں کی تکمیل کے لئے آگے آئیں، اب اشتہارات اور پوسٹرز پر نام چھپوانے اور جلسے جلوس کی زینت و رونق بننے سے کہیں زیادہ کسی بے سہارا حاجت مند بیٹی کا آسرا بننے کی ضرورت ہے، اجڑے ہوئے ارتداد زدہ گھر کو پھر سے مالی امداد فراہم کرتے ہوئے اسلامی اور دین دار گھر میں بدلنا یہ موجودہ وقت کا اہم تقاضہ ہے، دین بیزار بہنوں کو دین سے وابستہ کرکے گھر بسانے کی فکر ہونی چاہیے، اور اپنے ان رفاہی کاموں کو دعوتِ دین سے جوڑنا چاہیے، توحید و رسالت اور آخرت کا سبق پڑھانا چاہیے۔ ارتداد زدہ بچیوں سے توبہ کرا کر کسی مسلمان لڑکے سے شادی کرا دی جائے؛ تاکہ وہ آئندہ اس طرح کے گناہوں سے بچ سکے۔

ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ ”اپنے بچوں کو ایمانیات کے بارے میں بتائیں، عقیدۂ توحید سے کیا مراد ہے ؟ اسلام اور کفر میں کیا فرق ہے ؟ اللہ کی کتاب اور اس کے رسولوں کی انسانیت کو کیا ضرورت ہے ؟ ایک غیر مسلم سے ہمارا کیا تعلق ہونا چاہیے ؟ اس میں یہ بھی واضح کیا جائے کہ انسانی مسائل میں وہ ہمارے بھائی ہیں؛ لیکن ان کے ساتھ کسی مسلمان مرد یا عورت کا رشتۂ ازدواج نہیں ہوسکتا۔نیز یہ بھی بتائیں کہ ہندو سماج اپنی قوم ہی کے دوسرے خاندانوں سے نکاح کو گوارا نہیں کرتا؛ چہ جائیکہ وہ اپنے گھر میں کسی مسلمان لڑکی کی آمد کو قبول کرلے،“۔( مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے مضمون سے اقتباس)

اپنی بیٹیوں کے بچاؤ کی تدابیر : موجودہ دور میں تمام تر دینی و دعوتی سرگرمیوں کے باوجود آئے دن ارتدادی سرگرمیوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، ارتداد کے اس سیلاب پر کیسے قدغن لگایا جائے یہ ایک چبھتا ہوا سوال ہے؛ چنانچہ سطورِ ذیل میں چند تدابیر ذکر کی جاتی ہیں:

(۱) اولاً یومیہ پوری پابندی سے گھریلو تعلیم کا نظام بنائیں، اور دخترانِ ملت کو حیا داری، عفت و عصمت کی حفاظت کاجذبہ، اور عقیدۂ توحید و رسالت کی عظمت سے آشنا کرائیں، اسلامی تعلیمات اور مبادیاتِ دین کی تعلیم دیتے ہوئے صحابہ کرامؓ و تابعین عظامؒ کی پُرمشقت زندگی سے واقف کرانا از بس ضروری ہے۔

(۲) مخلوط نظامِ تعلیم سے اپنے نونہالوں کو بچایا جائے، اور علاقہ کے چند بااثر لوگ اس پر سنجیدگی سے سوچیں کہ ہم کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے؛ مگر دین و ایمان کی سلامتی اور عزت و عصمت کی حفاظت کے ساتھ ، اس کے لئے ایسا نظام تعلیم تیار کریں، جو دونوں اعتبار سے مفید اور کارآمد ہو۔

(۳) جو لڑکیاں عصری تعلیمی اداروں میں پڑھ رہی ہے، ان کی دینی تعلیم وتربیت اور اسلامی ذہن سازی کی بھرپور کوشش کی جائے، کسی عالمہ سے تعلق قائم کیا جائے۔

(۴) ٹیوشن کلاس کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقع نہ دیا جائے،کسی ٹیچر یا ساتھی کے گھر پر کسی تعلیمی ضرورت سے بھی جانے کی اجازت نہ دی جائے، کالج لانے لے جانے کی خود ذمہ داری لیں۔

(۵) اسمارٹ فون اور بائک خرید کر نہ دی جائے، یہ دونوں چیزیں بے حیائی کے دروازے کھولنے والی ہیں۔

(۶) موبائیل ریچارج یا زیراکس کے لیے غیرمسلموں کی دوکان پر جانے میں احتیاط کی جائے، اسی طرح کالج کے اندر یا اس سے قریب غیرمسلموں کے کینٹین سے بچنے کی ہدایت دی جائے۔

(۷) نیز غیر مسلم لڑکیوں کی دوستی سے بھی روکا جائے کہ آئندہ یہ دوستی بھی کسی خسران کا باعث نہ بن جائے۔

(۸) بچیوں کے مسائل اور ان کو پیش آنے والی پریشانیوں پر توجہ دی جائے، یاد رکھیں! گھر میں توجہ کی کمی باہر کا راستہ دکھاتی ہے۔ مختصر یہ کہ

رحمت کا ابر بن کر جہاں بھر پہ چھائیے
عالم یہ جل رہا ہے برس کر بجھائیے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پروردگارِ عالم ابناءِ آدم کو حضرت یوسفؑ کی حیا اور حضرت عثمانؓ کی عفت عطا فرمائے اور بناتِ حوا کو حضرت مریمؓ کی پاکیزگی اور حضرت فاطمہؓ کی عفت مآبی عطا فرمائے آمین۔
٭٭٭