درگاہ جہانگیر پیراں ؒ میں گاڑیوں کی پوجا کا بھی اہتمام!
وقف بورڈ ایک نیم سرکاری ادارہ ہی نہیں ہے بلکہ اس ادارہ کا تعلق مذہبی امور سے ہی ہے اگر یہی ایسے امور انجام دے جو اسلام کی روح کے منافی ہو تو پھر کس سے امید رکھی جائے۔

حیدرآباد۔: اسلام نے شرک کے شائبہ کی گنجائش نہیں رکھتا، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک اور صبح ہونے کے بعد سورج طلوع ہونے تک نماز سے منع فرمایا ہے تاکہ کسی کو ان اوقات میں نماز ادا کرتے ہوئے یہ گمان تک نہ ہو کہ وہ سورج کی عبادت کررہا ہو۔
وقف بورڈ ایک نیم سرکاری ادارہ ہی نہیں ہے بلکہ اس ادارہ کا تعلق مذہبی امور سے ہی ہے اگر یہی ایسے امور انجام دے جو اسلام کی روح کے منافی ہو تو پھر کس سے امید رکھی جائے۔
اوقافی اداروں سے زیادہ سے زیادہ آمدنی کی لالچ میں وقف بورڈ ایسے امور بھی انجام دینے لگا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب حد تو یہ ہوگئی ہے کہ درگاہوں میں پوجا تک انجام دی جانے لگی ہے۔ جی ہاں ہم غلط نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کی جانب سے حال ہی میں ایک درگاہ کی ہنڈی کے ہراج کے سلسلہ میں دئیے گئے اشتہار میں مختلف اموربشمول ’واہنم پوجا‘ کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔
درگاہ حضرت جہانگیر پیراں ؒ کی اشیاء کی ہراج کے سلسلہ میں ایک اشتہار 22 /اگست کو شائع کیا گیا جس میں ایک سال کی مدت کے لئے ایٹمس کی وصولی کے حق کی بابت سربمہر ٹنڈرس طلب کئے گئے۔ یہ ٹنڈر غولک اندرون درگاہ و بیرون درگاہ، بکری کے چمڑے، سرے اور پائے، بال کٹوائی (منڈھے ہوئے بال)، طے بازاری، پانی کا بل، صندل کے پیاکٹس، لڈو کا کاؤنٹر، نذر ونیاز، غلاف چاردر، پوسٹ آفس سے وصول ہونے والی آمدنی، سونے اور چاندی کی اشیاء، بکریاں، ناریل، چراغ غلہ، بندش، وہیکل نظر (واہنم پوجا) کے حقوق کے لئے جاری کیا گیا تھا۔
ریاست کی چند مشہور درگاہوں پر زائرین سے مختلف بہانوں سے رقومات کی وصولی کے حقوق فروخت کئے جاتے ہیں جس سے وقف بورڈ کو سالانہ کروڑوں روپے آمدنی وصول ہوتی ہے۔ ٹنڈر گزاران، زائرین سے زیادہ سے زیادہ رقومات بٹورنے کے لئے بہت سے ایسے امور کو درگاہوں میں شامل کردیا ہے جو ہمیں ہندو منادر میں نظر آتے ہیں جیسے لڈو کا کاؤنٹر، بندش، وہیکل نظر یعنی واہنم پوجا۔
ہندؤں میں جب بھی کوئی نئی گاڑی خریدتا ہے تو وہ اس گاڑی کو مندر لے آتا ہے جہاں مندر کے پجاری اس گاڑی کی پوجا ہندو طور طریقوں کے مطابق انجام دیتا ہے اور اس گاڑی کو نظر بد سے بچانے کیلئے مرچی، لیموں اوربھلاواں باندھتا ہے، درگاہ جہانگیر پیراں میں شائد ایسا ہی کچھ کیا جاتا ہے تبھی تو اس کے لئے واہنم پوجا کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ وقف بورڈ کے حکام تو مسلمان ہیں مگر انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ چند پیسوں کی خاطر وہ مسلمانوں کو کن عقائد کا شکار بنارہے ہیں۔
یہ سب کچھ اس لئے ہوتا آرہا ہے کہ ہمارے علمائے کرام نے وقف بورڈ کی راست نگرانی والی درگاہوں کا بہت کم ہی رخ کرتے ہیں اور اگر کرتے ہیں اور وہاں ہونے والی خرافات پر شائد اس لئے خاموش ہوجاتے ہیں کہ کہیں انہیں کوئی بدعقیدہ قرار نہ دے دے۔ہمارے علمائے کرام کو اب اپنی خاموشی توڑنی ہوگی وگرنہ ارباب وقف بورڈ اور ان درگاہوں کے کنٹراکٹرس جلد ہی ان درگاہوں میں ہندو عقیدت مندوں کے لئے مختلف دیوی، دیوتاؤں کی مورتیاں رکھ کر ایک مندر بھی قائم کردیں تاکہ ہندو زائرین کو ان کے عقیدہ کے مطابق سہولتیں فراہم کی جائیں اور ان کے ذریعہ وقف بورڈاور کنٹراکٹرس کے لئے آمدنی کے نئے وسائل پیدا ہوجائیں۔