درگاہ جہانگیر پیراں ؒ میں گاڑیوں کی پوجا کے ساتھ بندش بھی ہوگی
توہم پرستی پر مشتمل کفریات و شرکیات نواقض اسلام ہی میں شامل ہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ غیر مسلموں کے شرکیہ و کفریہ اعمال کو غیر محسوس طریقہ سے درگاہوں میں رائج کرتا جارہا ہے۔
حیدرآباد: توہم پرستی پر مشتمل کفریات و شرکیات نواقض اسلام ہی میں شامل ہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ غیر مسلموں کے شرکیہ و کفریہ اعمال کو غیر محسوس طریقہ سے درگاہوں میں رائج کرتا جارہا ہے۔
درگاہ حضرت جہانگیر پیراں ؒ واقع موضع ینمن نروا، کتور منڈل ضلع رنگا ریڈی میں مختلف اشیاء کے ہراج کے لئے ایک بار پھر ٹنڈرس طلب کئے گئے ہیں۔ اس سے قبل بھی ٹنڈر جاری کیا گیا تھا جس پر منصف نے گاڑیوں کی نذر (واہن پوجا) سے حاصل آمدنی کو بھی ہراج کی جانے والی اشیاء میں شامل کئے جانے کی نشان دہی کی تھی جس پر اس مرتبہ بھی اس مد کو برقرار رکھا گیا ہے مگر اب واہن پوجا کو حذف کردیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دیگر ایٹمس میں ایک اور مد ’بندش‘ بھی شامل ہے اور یہ اصطلاح جادو ٹونا کرنے والے بطور خاص استعمال کرتے ہیں اور اس کے ناموں پر سادہ لوح لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ وقف بورڈ کے حکام کی خوش قسمتی ہے کہ تلنگانہ میں جادو ٹونا کے خلاف کوئی قانون مروج نہیں ہے ورنہ ضعیف الاعتقادی کو فروغ دینے کے جرم میں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے۔
وقف بورڈ کے ذرائع آمدنی کا ایک مخصوص حصہ مختلف درگاہوں میں غولک اور نذر و نیاز وغیرہ کے ٹھیکوں کے ہراج سے حاصل ہوتا ہے۔ اس مرتبہ درگاہ جہانگیر پیراں ؒ کے ایک سالہ مدت کے لئے 15 مدات سے حاصل آمدنی کا ٹھیکہ کے لئے بنیادی گتہ کی قدر 2.80 کروڑ روپے اور رقم دھڑوت 25 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ زبردست مسابقت نہ ہونے کی صورت میں بھی اس مرتبہ ٹنڈر 3 کروڑ روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
جب کوئی 3 کروڑ روپے وقف بورڈ کو عطا کرے گا تو وہ درگاہ کو آنے والے زائرین خاص کر نذر و نیاز کرنے والوں سے من مانی رقومات وصول کرے گا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف امور کے لئے وقف بورڈ کی جانب سے اگرچہ وصول کی جانے والی رقومات کی قدر مقرر کی گئی ہے مگر یہ گتہ دار زائرین کو مقررہ رقم سے زائد رقم ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور اگر کوئی زائر اس پر اعتراض کرتا ہے تو اس کے ساتھ بدتمیزی پر اتر آتے ہیں اور اسے دھمکانے لگتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک سال کے لئے ٹنڈر کی اقل ترین رقم وقف بورڈ نے اس مرتبہ 2.8 کروڑ روپے مقرر کی ہے مگر جب یہی درگاہ وقف بورڈ کے راست کنٹرول میں آگئی اور جتنی مدت کے لئے یہ درگاہ وقف بورڈ کے کنٹرول میں تھی اس کی آمدنی کا تناسب نکالا جائے تو بمشکل یہ رقم سالانہ 50 لاکھ تک بھی نہیں پہنچ پاتی ہے جس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ٹنڈر گزار زائرین سے جبری رقومات وصول کرتے ہیں تبھی وہ اتنی خطیر رقم دے کر گتہ حاصل کرتے ہیں یا پھر وقف بورڈ کے حکام آمدنی میں تغلب کرتے ہیں۔