مذہب

ذکر شریف قدوۃ المحققین، زبدۃ الواصلین والعارفین، مہبط انوار حیدری حضرت سید شاہ درویش محی الدین ثانی قادریؒ

دین حق کی دعوت و تبلیغ، قرآن کی تلاوت، کلمہ کا راز اور مقصد حیات بتانے کے لئے اللہ والوں کی جماعتیں ہندوستان میں بے شمار آئیں ان میں صوفیائے سلسلہ عالیہ قادریہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ حضرت سید شاہ درویش محی الدین قادری قدس سرہ العزیز کا شمار دکن کے ایسے ہی عظیم المرتبت صوفیائے کرام میں ہوتا ہے۔

از پیر زادہ ڈاکٹر سید شاہ تنویر عالم قادری الموسوی، نامزد جانشین بارگاہ درویشیہ، کاروان ساہو

ولی کی تعریف میں بزرگوں نے تحریر فرمایا ہے کہ ولی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنی بشری قوت و طاقت کی حیثیت سے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا جاننے والا ہو اور ظاہری و باطنی اعتبار سے عبادت واطاعت کا پابند ہو اور شریعت محمدی ﷺ کے خلاف عمل سے بچنے والا ہو۔

خاصان خدا ہر دور ہر عہد ہر ملک اور ہر قوم میں پیدا ہوتے ہوں گے یہ نظام خداوندی ہے کہ نبوت و رسالت کا دروازہ تو ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا لیکن باب ولایت تاقیامت کھلا رہے گا۔ نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے والے آتے رہیں گے۔

دین حق کی دعوت و تبلیغ، قرآن کی تلاوت، کلمہ کا راز اور مقصد حیات بتانے کے لئے اللہ والوں کی جماعتیں ہندوستان میں بے شمار آئیں ان میں صوفیائے سلسلہ عالیہ قادریہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ حضرت سید شاہ درویش محی الدین قادری قدس سرہ العزیز کا شمار دکن کے ایسے ہی عظیم المرتبت صوفیائے کرام میں ہوتا ہے۔

آپ کا سلسلہ نسب باب العلم فاتح خیبر حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ تک پہنچتا ہے اور (۱۹) واسطوں سے حضور سیدنا غوث الاعظم دستگیرؓ سے جاملتا ہے۔ آپ کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حضرت سید شاہ عبدالمحی الدین قادریؒ اور جد محترم کا نام نامی حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین ثانی قادریؒ ابن حضرت سید شاہ عبداللطیف لاابالیؒ جو قطب الآفاق حضرت سیدنا تاج الدین عبدالرزاق قادریؒ ابن حضور سیدنا غوث الاعظم دستگیرؓ کی اولاد سے ہیں۔

آپ کا اسم گرامی حضرت سید شاہ درویش محی الدین قادریؒ آپ کا لقب شریف صاحب دستگیر مشہور آفاق تھا۔ جب آپ چار سال کے تھے۔ آپ کے والد بزرگوار ۱۲/جمادی الاول ۱۰۸۵؁ھ کو رحلت کرگئے اور لنگر حوض میں اپنے دادا خسر حضرت سید شاہ محمد قادری البغدادی عرف راجے صاحبؒ ابن حضرت سیدنا میرا حسین قادری الحمویؒ کے قریب آپ کی آرام گاہ ہے۔

آپ سن شعور کو پہونچنے تک حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین ثانی قادریؒ جو آپ کے جد امجد ہیں، فرزندی میں رہے اور تھوڑے عرصہ میں فیض باطنی اور ظاہری میں درجہ کمال پر پہنچا کر شرف بیعت سے سرفراز فرمایا۔ ۲۲/سال کے ہوئے تو جد بزرگوار کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا۔

خرقہ خلافت:  جب آپ اجازت خرقہ خلافت اجدادیہ کے لیے دادا حضرت قبلہ کی خدمت میں عرض پرواز ہوئے تو دادا حضرتؒ نے فرمایا بابا غلام درویش میں تمہیں غیر کا محتاج نہ رکھوں گا۔ تمہاری تکمیل میرے ہی ہاتھوں ہوگی جو کچھ تمہارے مقدر میں ہے تمہیں پہونچ چکا ہے اور آئندہ بھی پہونچے گا۔ خاطر جمع رہو لیکن تمہارا خرقہ تمہارے چچا حضرت کے ہاتھ سے ملے گا انشاء اللہ اور ان کے ذریعہ یہ دولت تمہیں حاصل ہوجائے گی۔

جب آپ نے اپنے جد بزرگوار کی رحلت کے بعد اپنے حقیقی چچا حضرت سید شاہ عبداللطیف ثانی قادریؒ ابن حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین ثانی قادریؒ کے دست مبارک سے جو آپ کے جد امجد کے قائم مقام تھے خرقہ خلافت اور اجازت مطلقہ حاصل کیا اور عم محترم کی وفات کے

بعد مسند سجادگی پر رونق افروز ہوئے تو ایک عالم آپ کے فیض سے مرتبہ ولایت پر فائز ہوا۔ (۳۴ سال) کی مدت تک آپ مریدوں کی تعلیم میں مشغول رہے۔

صاحب لطائف قادریہ فرماتے ہیں کہ آپ کثیر اخراجات کے باوجود کسی سے نذر قبول نہ فرماتے تھے آپ کی گزر بسر محض توکل پر تھی۔  چنانچہ ایک روز قاضی میر خلیل اللہ خان ابن قاضی باباؒ جو آپ کے معتقد تھے آثار پور کی جاگیر کا پروانہ جو دوہزار روپیہ محاصل کا تھا آصف جاہ مغفور کی خاص مہر سے آپ کے نام تیار کیا اور نواب صاحب موصوف کی جانب سے بہ طریق تواضع آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس وقت حضرت قصبہ سنت نگر میں تشریف فرما تھے۔

جب پروانہ اور عرض آپ کی خدمت میں پہونچی تو کہتے ہیں کہ رات کا وقت تھا بڑے صاحبزادے کو یاد فرمایا اور ارشاد ہوا کہ بابا غلام محی الدینؒ میر خلیل خاں کے جواب میں تحریر کرو کہ فقیر تم کو اپنے مخلصین سے تصور کرتا تھا اب سمجھتا ہے کہ تم مفسدین سے ہو اگر فقیر تمہاری اس پیشکش کو قبول کرلے تو تاحیات مجھے فکر معاش سے فراغت حاصل رہے گی اور میرے بعد میری اولاد دنیا کی طمع میں ترکہ کے لئے ایک دوسرے میں مخاصمت پیدا کرلے گی اور جب جاگیر مسطور ضبط ہوجائے گی تو اس کی دوبارہ اجرائی کے لئے میری اولاد در بدر پھرے گی اس سے بڑا فساد اور کیا ہوسکتا ہے۔ فقیر کو روساء کی نذر نہیں چاہئے اگر تمہیں اس فقیر سے محبت ہے تو دوبارہ ایسی حرکت نہ کروگے۔

اس کے بعد آپ نے پروانہ کے دوٹکڑے کردئے اور لفافہ میں بند کرکے واپس بھیج دیا۔ یہ روایت بھی تحقیق سے ثابت ہے کہ ایک روز حضرت سید شاہ درویش محی الدین قادریؒ مستعد پورہ میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھے تھے جہاں سے شارع عام کا نظارہ ہوتا تھا۔ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ گلے میں پھولوں کے ہار ہیں اور اسے ایک کثیر مجمع کے ساتھ قتل کرنے کے لیے لے جارہا ہے۔

آپ نے جب یہ حال دیکھا تو کسی سے فرمایا کہ اس جماعت سے استفسار کرو کہ کس گناہ عظیم میں اس شخص کی گردن زنی کی جارہی ہے۔ جماعت نے جواب دیا کہ اس شخص کا جرم یہ ہے کہ اس نے مکہ مسجد میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ‘ کا نام لیا اور دیگر اصحاب ثلاثہ کا تذکرہ نہ کیا جس سے معلوم ہوا کہ یہ رافضی ہے۔ لہٰذا اس کو اس جرم کی پاداش میں قتل کیا جارہا ہے۔ کیونکہ یہ واجب القتل ہے۔

آپ نے فرمایا کہ اس جماعت کے لوگوں کو میری جانب سے کہو کہ فقیر کے پاس آؤ اور اس بات کو بھی سن لو آپ کی شوکت مشخیت ظاہر تھی چنانچہ تمام لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے بیان کا اعادہ کیا، حضرت نے فرمایا کہ اے مسلمانوں ایک شخص نے حضرت سیدنا علی ابن ابی طالبؓ کا نام لیا تو تم اس کو قتل کرنے کے درپے ہو اور میں تو حضرت سیدنا علیؓ کی ہی نسل سے ہوں پہلے مجھے قتل کرو بعد میں اس مجرم کا سر قلم کرنا آپ کے حسن بیان اور تصرف سے تمام لوگ نادم اور پشیماں ہوئے اور شخص مذکور کی جان بخشی کردی۔

حاصل کلام یہ کہ حضرت بحر حقائق اور دریائے علم و معرفت تھے اور آپ کے کلام سے توحید کی بارش ہوتی تھی۔ آپ نے اکثر اپنے مریدین کے لئے تصوف ارشاد اور تلقین کے مضامین اپنے مکتوبات میں تحریر فرمائے خصوصاً امین خان احتشام جنگ کے نام کئی مکتوب ہیں۔

چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں مؤلف عاصی نے اپنے بزرگوں کی زبانی سنا ہے کہ حضرت سید شاہ درویش محی الدین ثانی قادریؒ اپنی رحلت کے تین سال قبل اسی مقام پر جہاں آپ کی مرقد منور واقع ہے۔ ایک روز تشریف لے گئے اور اپنے مقام مدفن سے تھوڑی سی خاک اٹھاکر فرمایا دوستو یہ خاک ہماری خمیر ہے۔ حاضرین متعجب ہوگئے خصوصاً عبداللہ خاں صاحب مخملی جو آپ کے خاص مریدین میں سے تھے عرض کیا کہ حضرت کی ذات اقدس کو خدائے تعالیٰ ہمارے سروں پر ارشاد گستر رکھے کیونکہ حضرت کی ذات ہمارے لئے وسیلہ دوجہاں ہیں۔

آپ نے یہ کلمات ارشاد فرمائے اے فلاں یہ تردوکا مقام نہیں ہمارا خمیر ایک مٹھی خاک ہے الغرض حضرت کو اس واقعہ کے تین سال بعد اسی جگہ تدفین کیا گیا۔

آپ کا ارشاد مبارک ہے: راوی کا بیان ہے کہ اکثر اوقات حضرت اثناء کلام میں ارشاد فرماتے تھے کہ دوستو آگاہ رہو کہ دریش کے لئے لازم ہے کہ وہ چاہے اپنی حیات مستعار میں ہزاروں لاکھوں روپے صرف کرے۔ جب اس جہاں سے رحلت واقع ہو تو اس کے پاس کفن کے لئے بھی کچھ نہ ہواگر اس کے پاس کچھ رہ جائے تو اسے اس سے داغ دیا جاتا ہے کیونکہ یہ درویشی کے خلاف ہے۔

اور حضرت کا یہ معمول تھا آپ کو جب کوئی شئے مطلوب ہوتی تو صندوق میں سے جس پر قفل ابجد لگا ہوتا جس کسی شئے کی ضرورت ہوتی نکال کر صرف فرماتے جب حضرت ممدوحؒ کا وصال ہوا تو فاتحہ کے بعد صاحبزادے لوگوں کے سامنے قفل مذکور کو کھولا تو اس صندوق میں سے آپ کے دو خاص جبہ، تین کلاہ مبارک اور ایک خاک شفاء سے بنی تسبیح برآمد ہوئی یہ بھی آپ کا تصرف تھا کہ آپ کے وصال کے وقت کچھ باقی نہ تھا۔

آپ کی وفات ۲۴/ذی الحجہ ۱۱۵۴؁ھ کو ہوئی آپ کا مرقد انور بیرون شہر حیدرآباد دکن کاروان ساہو کے متصل شہر کے مغرب جانب زیارت گاہ خلق ہے۔ آپ کی رحلت کے بعد نورنجان عالم مرحوم نے آپ کی مرقد پر روضہ تعمیر کیا جو آپ کے مرید صادق اور دکن کے امیر کبیر تھے۔ یہ عجب جاہ خوش فزا ہے جہاں عارفوں کو تسکین خاطر ہوتی ہے۔

جب حضرت سید شاہ درویش محی الدین قادریؒ نے اس جہاں فانی سے پردہ فرمایا تو ایک درہم نقد بھی آپ کے گھر میں موجود نہ تھا۔ قاضی میر خلیل خاں مغفور نے جو آپ کے معتقد تھے تجہیز و تکفین کی خدمت بجالائی۔ آپ کے تین صاحبزادے تھے۔

(۱) حضرت سید شاہ محی الدین احمد قادریؒ آپ کی مزار مبارک شہر حیدرآباد مکہ مسجد کے روبرو واقع ہے۔

(۲) حضرت سیدشاہ محی الدین محمد قادریؒ آپ کی مزار مبارک اندرون درگاہ حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین قادریؒ پل قدیم میں ہے۔

(۳) حضرت سید شاہ عبداللطیف ثانی قادریؒ آپ کی مزار مبارک پدر بزرگوا ر کے روضہ میں ہیں۔ (جلد ہفتم مشکوۃ النبوت) یہ تینوں حضرات بھی اپنے وقت کے مقتدا ہوئے۔

سجادہ نشین و متولی:

حضرت سید شاہ درویش محی الدین قادریؒ کے سلسلہ روحانی خاندانی وراثتی سجادہ نشینی کا تواتر نسلاً بعد نسل جاری و ساری ہے۔ چنانچہ موجودہ سجادہ نشین حضرت مولانا سید شاہ محمد فضل اللہ قادری الموسوی صاحب قبلہ سلسلہ عالیہ قادریہ درویشہ کے منتخب مسلمہ و متفقہ سجادہ نشین درگاہ جات درویشہ ہیں۔ جن کی راست نگرانی میں تمام مراسم اعراس، وعظ و نصیحت، حلقہ ذکراللہ اور بیانات و سمینارس منعقد ہوتے ہیں۔ اور کثیر تعداد میں علماء کرام و مشائخ عظام و دانشورو عمائدین و عالمی نمائندے تہذیب و ثقافت شریک ہوکر فیضیاب ہوتے ہیں۔

عرس شریف ہر سال ۲۳/ذی الحجہ سے ۲۴/ذی الحجہ تک منعقد کیا جاتا ہے آپ کے عرس شریف کی تقریب زیرنگرانی تقدس مآب حضرت مولانا سید شاہ محمد فضل اللہ قادری الموسوی صاحب سجادہ نشین درگاہ جات درویشیہ و موسویہ منائی جاتی ہے۔ اور آپ کے تین صاحبزادے ہیں۔ (۱) پیرزادہ سید واصف عالم قادری الموسوی(۲) پیرزادہ سید شاہ مختار عالم قادری الموسوی (۳) پیرزادہ سید شاہ تنویر عالم قادری الموسوی ہیں۔

نوٹ: ماہانہ فاتحہ ہر ماہ چاند کی ۲۴ / کو درگاہ حضرت سید شاہ درویش محی الدین قادریؒ کاروان ساہو میں بعد نماز مغرب تبدیلی غلاف مبارک و پیشکشی چادر گل اور محفل قصیدہ بردہ شریف بمقام درگاہ شریف کاروان ساہو میں ہوتی ہے اور حضرت سجادہ نشین صاحب قبلہ کا بیان ہوتا ہے۔

a3w
a3w