سیاستمضامین

راہول گاندھی نے کہا ہندوستان میں آمریت ہے

اس میں ’’کیا‘‘ لگانے کی ضرورت نہیں کہ کیا ہندوستان میں جمہوریت ختم ہوچکی ہے؟ اور کیا ہندوستان آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے؟ کیا لگانے سے پہلے آپ دنیا کی طرف دیکھیے کیا ہورہا ہے۔ جمہوریت ختم ہورہی ہے۔ پوٹن اور شی جن پنگ جیسے قائدین نے دستور بدل کر تاحیات کرسی اپنے لیے ہتھیالی ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے آپ کی شناخت اور نجی جانکاری حاصل کی جارہی ہے۔ میڈیا کو ختم کردیا گیا ہے۔ عدالت سے لے کر انتخابات کے ادارے ایک شخص کے کنٹرول میں چلے گئے ہیں۔ جمہوریت ختم ہوگئی ہے یہ راہول گاندھی کا سوال نہیں ہے، پوری دنیا کا ہے۔ گن کر دیکھیے کہ دنیا بھر میں گزشتہ دس سالوں میں کتنی تیزی سے جمہوریت کچلی گئی ہے۔

رویش کمار

اس میں ’’کیا‘‘ لگانے کی ضرورت نہیں کہ کیا ہندوستان میں جمہوریت ختم ہوچکی ہے؟ اور کیا ہندوستان آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے؟ کیا لگانے سے پہلے آپ دنیا کی طرف دیکھیے کیا ہورہا ہے۔ جمہوریت ختم ہورہی ہے۔ پوٹن اور شی جن پنگ جیسے قائدین نے دستور بدل کر تاحیات کرسی اپنے لیے ہتھیالی ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے آپ کی شناخت اور نجی جانکاری حاصل کی جارہی ہے۔ میڈیا کو ختم کردیا گیا ہے۔ عدالت سے لے کر انتخابات کے ادارے ایک شخص کے کنٹرول میں چلے گئے ہیں۔ جمہوریت ختم ہوگئی ہے یہ راہول گاندھی کا سوال نہیں ہے، پوری دنیا کا ہے۔ گن کر دیکھیے کہ دنیا بھر میں گزشتہ دس سالوں میں کتنی تیزی سے جمہوریت کچلی گئی ہے۔
آج راہول گاندھی نے پریس کانفرنس کی۔ کیا ہندوستان میں جمہوریت ختم ہوگئی ہے۔ گزشتہ دنوں کی یاد بن کر رہ گئی ہے؟ راہول گاندھی نے کہا کہ جب یوپی اے کی حکومت تھی تب اداروںپر یو پی اے کی حکومت کا کنٹرول نہیں تھا۔ اس لیے اپوزیشن کھل کر مظاہرہ کرتی تھی، لیکن آج اپوزیشن ہی نہیں کسی کے لیے بھی حکومت سے سوال کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کیا یہ آج کا سچ نہیں ہے؟ ہندوستان اور دنیا کا سچ نہیں ہے؟
یو پی اے کے دور میں ادارو ںپر کتنا کنٹرول تھا اور اس وقت کیا حال ہے، اس کا تقابلی مطالعہ ہوسکتا ہے ۔ یہ ایسا کام ہے جسے نہ تو ایک شخص کرسکتا ہے اور نہ ایک پروگرام میں کیا جاسکتا ہے۔ یو پی اے کے وقت سپریم کورٹ نے کہا کہ تھا کہ سی بی آئی پنجرے میں بند طوطا ہے ، پھر نومبر2014 میں سی بی آئی چیف رنجیت سنہا کو 2جی کی تحقیقات سے الگ کردیا۔ لیکن 2جی اسکام کیا صحیح تھا؟ اس اسکام میں سی اے جی کے چیف ونود رائے نے الزام عائد کیا تھا کہ 2جی اسپیکٹرم کی نیلامی سے ملک کو 1لاکھ 76ہزار کروڑ کا نقصان ہوا، لیکن اتنا پیسہ آج تک نہ ثابت ہوا اور نہ برآمد ہوا۔ حال ہی میں 5جی کی نیلامی ہوئی، پہلے دعویٰ کیا گیا کہ پانچ لاکھ کروڑ آئیں گے ، آئے دیڑھ لاکھ کروڑ سے بھی کم، اس پر کوئی بات نہیں ہوتی ہے۔
ونود رائے نے سنجے نروپم پر الزام عائد کیا تھا کہ انہو ںنے ونود رائے سے کہا تھا کہ 2جی اسکام سے منمومہن سنگھ کا نام ہٹادیں۔ سنجے نروپم نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا۔ تو ونود رائے نے معافی مانگ لی۔ باقاعدہ حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ سنجے نروپم کے خلاف جو الزام عائد کیا گیا تھا وہ حقائق کے اعتبار سے غلط ہے۔
یو پی اے کے دور میں پونے دو لاکھ کروڑ کے اسکامس کے الزامات عائد ہوئے ان اسکامس کا کچھ پتا نہیں۔ تو کانگریس کے دور میں اداروں کے استعمال کو لے کر دو سال ہیں۔ ایک کانگریس نے کس طرح استعمال کیا اور دوسرا کیا ان اداروں کے اندر ایسے بھی لوگ تھے جو کانگریس کے خلاف استعمال کیے جارہے تھے؟ ونود رائے جیسے لوگوں کے کردار کو سمجھے بغیر ہم یو پی اے کے دور میں اداروں کے کھیل کو نہیں سمجھ سکتے۔ رہی بات وزیراعظم مودی کے خلاف سی بی آئی کے استعمال کی تو اس پر بھی دو الزامات لگتے ہیں۔ یہی کہ کانگریس نے صرف تحقیقات کی، پوچھ تاچھ کی، معاملے کو لٹکایا لیکن انجام تک نہیں پہنچایا۔ دوسرا وزیراعظم عہدہ کے امیدوار کے طور پر خود نریندر مودی بھی کہا کرتے تھے کہ کوئی انہیں سی بی آئی سے ڈرانے کی کوشش نہ کرے۔ جیسے آج راہول کہہ رہے ہیں۔
کیا وزیراعظم بننے کے بعد ان ایجنسیوں کی حالت سدھر گئی؟ یا ان کا سیاسی استعمال اور بڑھ گیا؟ سی بی آئی کی جگہ ای ڈی آگئی ہے۔ یو پی اے کے دس سالوں میں ای ڈی نے 112دھاوے کیے، این ڈی اے کے 8سالوں میں دھاوئوں کی تعداد3000 ہوگئی ہے۔ جب نوٹ بندی سے کالا دھن مٹ ہی گیا تھا تب بھی اتنے چھاپے مارنے پڑ رہے ہیں یا مٹا ہی نہیں تھا وہ کھیل کچھ اور تھا۔ اپوزیشن سارے الزامات ہوا میں نہیں لگاتی کہ ای ڈی کا استعمال کرکے حکومت گرائی جارہی ہے، ارکان اسمبلی توڑے جارہے ہیں ، صرف اپوزیشن قائدین کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ای ڈی کے سینئر عہدیدار استعفیٰ دے کر بی جے پی سے الیکشن لڑتے ہیں۔ بے شک سی بی آئی کی بات ان دنوں سنائی نہیں دیتی ہے لیکن سی بی آئی کو لے کر مودی حکومت کے دور میں ایک بڑا واقعہ ہوا تھا۔ 25؍ اکتوبر2018 کو کیا ہوا تھا، تلاش کیجئے۔ اس وقت ہمارے معاونین نے بھی اسے کور کیا تھا لیکن ہم یہ واقعہ اکنامک ٹائمز سے سنارہے ہیں۔
نصف شب کے بعد دیڑھ بجے دہلی پولیس نے سی بی آئی کے ہیڈکوارٹرس کو گھیر لیا۔ سی بی آئی چیف آلوک ورما اپنے نمبر ٹو راکیش آستھانا کو بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت سنٹرل ویجنلس کمیشن نے آستھانہ پر عائد الزامات کو سنگین پایا تھا اور حکومت کو رائے دی کہ آلوک ورما اور آستھانا دونوں کو ہٹا کر آزادانہ تحقیقات ہو۔ اسی دن کابینہ نئے سی بی آئی چیف کافیصلہ کرلیتی ہے۔ نئے چیف ہیڈکوارٹر جاکر عہدہ کا جائزہ لے سکیں اس سے قبل دہلی پولیس ہیڈکوارٹرس کو گھیر لیتی ہے۔ ایم ناگیشور رائو نے چارج لیا اور آلوک ورما اور آستھانہ دونوں کے دفاتر کو مہربند کردیا۔ یہ کہانی آج بھی راز کی طرح درج ہے۔ الزامات کا کیا ہوا، فائلوں کا کیا ہوا، کچھ آپ بھی پتا کریں۔
اس لیے راہول گاندھی نے جو الزامات عائد کیے ہیں کہ ہندوستان میں جمہوریت ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔ ہر ادارے پر سنگھ کا قبضہ ہوچکا ہے، یہ وہ الزامات ہیں جو صرف راہول نے عائد نہیں کیے ہیں۔ راہول سے بہت پہلے 8؍ جنوری 2018 کو سپریم کورٹ کے چار سینئر ججس باہر آگئے او رمیڈیا سے کہنے لگے کہ انہیں مجبور ہو کر باہر آنا پڑا ہے تا کہ ملک کو بتایا جاسکے کہ سپریم کورٹ میں سب ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ ججوں نے کہا تھا کہ کسی بھی جمہوریت کے ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہاں کی عدلیہ کی آزاد ہے کہ نہیں۔ کیا یہ سوال آپ بھلادیں گے یا ختم ہوگیا ہے، ان میں سے ایک تھے جسٹس رنجن گوگوئی، جو چیف جسٹس بنتے ہیں اور پھر ریٹائر ہوتے ہی راجیہ سبھا کے رکن نامزد کیے جاتے ہیں۔ کیا یہ جمہوریت کے مضبوط ہونے کے نشان ہیں؟
ہندوستان کے اداروں میں ایک عجیب سی خاموش بے چینی ہے۔ افسر جانتے ہیں مگر بول نہیں پاتے۔ اخبارات میں بھی اندر کی خبریں آف ریکارڈ بھی شائع ہونا بند ہوگئی ہیں۔ جب آف ریکارڈ بند ہوجائے تب یہ اشارہ ہے کہ جمہوریت کا جسم بوسیدہ ہوچکا ہے۔ ان دنوں کئی لوگ ہمیں میسج کرتے ہیں کہ بغیر ان کی اجازت کے تنخواہ سے ترنگا کے لیے پیسے کاٹ لیے گئے مگر وہ کیمرے پر بول نہیں پاتے۔ ڈر جاتے ہیں ۔ ان کی خاموشی بھی وہی کہہ رہی ہے کہ جو راہول گاندھی کہہ رہے ہیں۔ وہ لوگ بھی ڈر رہے ہیں جو کبھی راہول کو ووٹ نہیں دیں گے نہ ان کے حامی ہیں لیکن کیا یہ غضب نہیں ہے کہ راہول سے نفرت کرنے والے اور راہول دونوں ایک ہی بات کررہے ہیں۔ ایک خاموش ہو کر کہہ رہا ہے، ایک بول رہا ہے کہ جمہوریت ختم ہوگئی ہے۔ آلٹ نیوز کے شریک بانی زبیر کے معاملے میں سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے جو لکھا ہے کیا وہ اشارہ نہیں کررہا ہے کہ ایجنسی کا استعمال کس طرح سے ہورہا ہے۔
چیف جسٹس این وی رمنا کا بیان تو پچھلے مہینے کا ہے کہ چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ کارروائی ہی سزا ہوگئی ہے۔ کسی کو من مانی طریقے سے گرفتار کرلو اور ضمانت ملنا مشکل کردو۔ جسٹس ایس کے کول اور جسٹس ایم ایم سندریش نے کہا کہ پولیس ‘ ضمانت نہ ملے اسی میں لگی رہتی ہے۔ غیرضروری گرفتاریاں ہورہی ہیں۔
جسٹس کول اور جسٹس سندریش نے لکھا کہ جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں لگنا چاہیے کہ یہاں پولیس کا راج ہے۔ پولیس کا راج جمہوریت کی سوچ کے بالکل برعکس ہے۔
کیا یہ جمہوریت کے ختم ہونے کے اشارے نہیں ہیں۔ کیا حکومت کا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ قانون اپنا کام کررہا ہے۔ قانون کا اعتماد کرنا چاہیے۔ اب حکومت کی طرف سے یہ کہا جائے تو دیکھا جانا چاہیے کہ اعتماد کا کیا مطلب ہے، کسی کو من مانی طریقے سے جیل میں ڈال دیا جائے اور کہا جائے کہ آپ اعتماد کررہے ہیں؟ غیرقانونی طور پر این ایس اے لگایا گیا ہے، کیا تب قانون نے کام کیا تھا؟ اس لیے بات اعتماد کی نہیں ہے بات ہورہی ہے قانون کے غلط استعمال کیا جس کی جوابدہی حکومت کی ہے۔ ایمرجنسی کا ذکر ہوجاتا ہے۔ بالکل ایمرجنسی تاریخ کا ظالمانہ باب ہے لیکن یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ اس کے بعد ایمرجنسی کے حالات پیدا نہیں ہوں گے۔ ہٹلر کی خودکشی کے کئی دہائیوں بعد بھی دنیا میں آمریت پھیل رہی ہے۔ ایمرجنسی کا نام لے کر آج کی ایمرجنسی سے نہیں بچاجاسکتا ہے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کی دو ججوں کی بنچ جسٹس جے پی پاردی والا اور جسٹس سوریہ کانت نے نپور شرما کے معاملے میں کہا کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہی ہے کہ وی آئی پی ٹریٹمنٹ مل رہا ہے۔ جو ماحول بگڑا ہے، اس کے لیے نپور شرما ذمہ دار ہیں۔ اس ریمارک کی مخالفت میں 15سابق ججوں اور77 سابق آئی اے ایس عہدیداروں نے سپریم کورٹ کو مکتوب تحریر کیا اور کہا کہ ایسا ریمارک نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جس نپور شرما کو خود بی جے پی ہٹاچکی ہے، اس کی حمایت میں ریٹائرڈ جج سپریم کورٹ کو مکتوب لکھ رہے ہیں ۔ یہ ریٹائرڈ جج زبیر کی حمایت میں کیوں نہیں لکھ سکے؟ کیا حکومت نے ان سابق ججوں کو گیان دیا کہ آپ قانون کا احترام کریں؟
یہ خبر اکتوبر2018 کی ہے۔ سپریم کورٹ نے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے پر فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے خلاف بی جے پی سڑکوں پر تحریک چلانے لگی۔ کیرالا حکومت نے جب سپریم کورٹ کے فیصلے کو نافذ کروانے کی پہل تو امیت شاہ نے چیلنج کردیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نافذ کرانے کی کوشش نہ کریں۔ کیا اس وقت امیت شاہ قانون اور عدالت میں اعتماد ظاہر کررہے تھے؟ کیا یہ اشارہ نہیں ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ امیت شاہ نے کہا کہ کورٹ کو ایسے احکامات نہیں دینے چاہیے جو نافذ نہ ہوں اور ایک ریاستی حکومت کو چیلنج کیا کہ آپ عدالت کے احکامات کیوں نافذ کررہے ہیں۔ کیا امیت شاہ کو عدالت کے فیصلے پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا؟ جمہوریت کے خطرات کو سمجھنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ میڈیا نے اپوزیشن کو غائب کردیاہے۔
گودی میڈیا نے اپوزیشن مخالف صحافت ایجاد کی ہے۔ یہ اپوزیشن پر حملے کرتا ہے حکومت کو دیکھتے ہی اس کے من میں لڈو پھوٹنے لگتے ہیں۔ آپ صرف2019 کے انتخاب یا کسی بھی انتخاب کے دوران ہندی اخبارات کا ایک مطالعہ کرالیجئے ۔ صرف اتنا گنوا لیجئے کہ بی جے پی سے جڑی کتنی خبریں شائع ہوئی ہیں، اپوزیشن کی کتنی خبریں۔ پہلے صفحے پر بی جے پی کی خبر کیسے چھپتی ہے اور اپوزیشن کی خبر چھپتی بھی ہے یا نہیں۔ الیکشن میں اپوزیشن کو غائب کردیا جاتا ہے ۔
جمہوریت کسی ایک عمارت میں نہیں رہتی کہ اس عمارت کے منہدم ہوتے ہی آپ کو نظر آجائے گی۔ آپ کو پتا بھی نہیں چلتا کہ کہاں کہاں سے ختم ہورہی ہے۔ گودی میڈیا کا ایک اور پیٹرن نوٹ کیجئے گا۔ حکومت سے سوال پوچھنا غائب ہے۔ سارا کوریج اور سوال اپوزیشن جماعتوں کی ریاستوں سے ہے۔ اس لیے آج کانگریس نے جو کہا اور کانگریس ہیڈکوارٹرس کے باہر جس طرح سے پولیس بیچ بیچ میں گھیرابندی کرنے پہنچ جاتی ہے، ٹھیک ہے کہ عوام کا اپوزیشن میں اعتماد نہیں لیکن کیا جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار بھی ختم کردیا جائے؟