سید محمد جلیل
آج زبان خامہ پر اس عُضو کا نام آگیا ہے جو بتیس دانتوں کے نرغے میں بلا خطر قینچی کی طرح چلتی رہتی ہے اور جسے قدرت نے ایک خاص کام کے لےے بنایا ہے یعنی غذائی اجناس میں تلخی اور شیرینی کی پہچان کے لےے ۔ یہ کم و بیش ہر مخلوق میں پائی جاتی ہے، لیکن ہم انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہیں ،لہٰذا ہم اس سے ذائقے کے علاوہ بھی کام لیتے ہیں ۔ مزے اور چٹخارے کے لےے ہم اس کے جائز و ناجائز اور جا و بے جا استعمال سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ یہ وہ مختصر سا جزو ہے جو حضرت آدم کے دنیا میں تشریف لانے کا وسیلہ بنا اور یہاں آکر یہی ٹکڑا انسان کو علم سکھانے کا ذریعہ بھی بنا ،لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زبان کے اسی چٹخارے اور ذائقے کے عمل سے دنیا کا کاروبار رواں دواں ہے ۔ اگر یہ لذت کی خوگر نہ ہوتی یا قدرت نے ہمیں زبان عطا نہ کی ہوتی تو ذرا تصور کیجئے انسان کی زندگی کس قدر بے لطف ہوتی ۔ وہ اپنے منہ میں غذاو¿ں کو اس طرح ڈال لیا کرتا جس طرح مشینوں میں تیل ڈالا جاتا ہے ۔ نہ مزے کی پروا نہ بد مزگی کا خوف ۔ نہ دعوتیں ہوتیں اورنہ مہمانوں کی ضیافت کا جھمیلا ۔ نہ انواع و اقسام کے پکوانوں کی فہرست ہوتی نہ سیب اور امرود کا فرق ۔ نہ آلو اور بیگن میں تمیز کی جاتی اور نہ چائے میں شکر یا نمک ڈالنے کی فکر ۔ زندگی کی ساری تگ و دَو تو بس اسی زبان کے چسکے اور چٹخارے کی مرہون منت ہے۔
حالانکہ قدرت نے زبان کے علاوہ بھی جسم کو کئی نعمتوں سے سرفرازکیا ہے جس کے وسیلے سے حضرت انسان کو لذت کام و دہن کے علاوہ بھی دوسری لذتوں کا حصول ہوتا ہے ۔ گرچہ حواس خمسہ میں زبان کا درجہ کم تر ہے ،لیکن دوسرے اعضا مثلاً آنکھ اور کان کے مقابلے میں اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے یہ ایک جوابدہ اعضا میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگر کسی نے کسی پر نگاہ غلط انداز ڈالی یا اپنی قوت باصرہ کا استعمال کرتے ہوئے کوئی ناقابل نظارہ منظردیکھ لیا تو آنکھوں کی لغزش پر کوئی گرفت نہیں ۔ اگر کانوں نے کوئی صدائے ناقابل سماعت سے فیض حاصل کر لیا تو بھی گوش مالی کی گنجائش کم ہے ، لیکن اگر یہی کلمہ زبان ناطقہ پر دبی زبان میں بھی آجائے تو خلقت اس کی زباں بندی پر آمادہ نظر آئے گا۔ کیوں کہ ”بات پر واں زبان کٹتی ہے۔“
بہرحال زبان کا تعلق محض ذائقہ یا لذت کے حصول سے ہوتا تو کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن اس کا ہماری زندگی میں ایک اور کردار بھی ہے کہ ہم اسے بول چال کے لےے استعمال کرتے ہیں ۔ اس حیثیت سے تو بلا شبہ اسے دوسرے تمام اعضا پر فوقیت حاصل ہے ۔ غالب نے کہا تھا
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
ظاہر ہے منہ میں زبان تو ایک ہی ہے ذائقے کی متلاشی ۔ لیکن اپنا مدعا بیان کرنے کے لےے بھی ہمیں اسی زبان کے الگ استعمال کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ہم دنیا کے کسی کونے میں قیام پذیر ہوں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لےے زبان ہی کا سہارا لیتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ مختلف مقامات کی زبان بھی مختلف ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے کی زبان سے واقفیت کے بغیر نہ ہم ان کی بات سمجھ سکتے ہیں اور نہ وہ ہماری بات سمجھ سکتے ہیں۔ ع زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
لہٰذا نمی دانم کو دانم میں بدل کر ہی ہم زبان دانی کا فرض پورا کر سکتے ہیں ۔
زبان کا تذکرہ ہو اور اردو زبان کا نام نہ لیا جائے یہ کیسے ممکن ہے ۔ ہماری زبان بھی دنیا کی مالامال زبانوں میں نہ سہی ، لیکن ان کے درمیان سینہ تان کر کھڑے رہنے کا حوصلہ تو رکھتی ہی ہے، بشرطیکہ ہم اس میں مستعمل فارسی اور ہندی کے الفاظ کو بھی اردو ہی کا لفظ شمار کریں۔ یہ وہ زبان ہے جس کے بارے میں داغ کہتے ہیں ع کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
یہ وہ زبان ہے کہ روح القدس سے بھی ، جو ان کے ہم زبان نہیں غالب داد سخن وصول کرلیتے ہیں۔ اردو شاعری میں تو زبان کے ذکر پر اتنے اشعار ہیں کہ اگر اس لفظ کو خارج کردیا جائے تو شاعری کا سرمایہ ہی بے زبان ہو کر رہ جائے ۔ نہ زبان میر کو سمجھنے والے رہیں اور نہ زبان میرزا کو ۔ غالب ہی کی شاعری میں اس لفظ کو تلاش کریں تو اس معاملے میں بھی ان کی زبان گوہربار منفرد ہے ۔ وہ محبوب کی زبان سیکھنے کی بجائے اسے ہی دل بدل دینے کا مشورہ دیتے ہیں
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
لفظ ”نا“ کا ذکر بھی نا گزیر ہے۔ اگر ہم اسے ناگوار اور ناپسند لفظ کہہ کر اپنی تحریروں سے ناپید کردیں تو یہ نا انصافی ہوگی ۔ ایسا نامعقول اور نا مناسب مشورہ دے کر ناچیز اردو دانوں کو ناراض کرنے کا خطرہ ناحق کیوں مول لے گا۔
ہماری زبان میں ایسے بھی الفاظ ہیں جو معنوی لحاظ سے تو کچھ ہیں لیکن مستعمل ہیں کسی اور معنی میں ۔ اگر کسی کے انتقال کی اطلاع ملے تو ہم اسے انتقال جہانِ فانی ہی سمجھیں گے ، انتقالِ مکانی نہیں۔ کوئی سامنے سے گزرے یا اپنی حد سے گزرے یا دنیا سے گزر جائے،گزرنے کا لفظ استعمال کئے بغیر گزارا نہیں۔
بہر کیف زبان کی مدح خوانی ذائقے کے ضمن میں ہو یا زبان دانی کی تعریف میں، وَرق کے وَرق سیاہ کردیئے جائیں تو بھی مدح باقی ہی رہے گی اور بالآخر کہنا پڑے گا۔ ع
”ورق تما م ہوا اور مدح باقی ہے“