سیاستمضامین

سمندری حادثات! موت کی ہیبت پہ دُنیا غم زدہ

ش۔م۔احمد (کشمیر)

فطرت کی آغوش میں پلنے بڑھنے والا انسان روزِ اول سے حوادث کی چوٹیں دُکھ اور تکالیف کی صورت میں سہتا چلا آرہاہے ۔ زمین ، آسمان‘ سمندر میں کوئی جگہ ہے جہاں حادثات کے زخم نہ لگے ہوئے ہوں؟ جہاںدرد کے قافلے نہ پہنچے ہوں ؟ جہاں مصائب کے سیاہ بادل نہ چھائے ہوں ؟ شایدکوئی نہیں ۔ بے غبار سچ یہ ہے کہ کرہ ٔ ارض کاہر خطہ، ہر چپہ ، ہر گوشہ حادثوں کی طویل سر گزشت سےعبارت ہے۔ اسی سلسلے کی تازہ کڑیاں رواں سال ماہ ِجون میں پیش آمدہ دوبحری حادثے ہیں ۔ یہ دلدوز سانحات بحیرہ ٔ روم اور بحر شمالی اوقیانوس کی بے رحم موجوں کی گواہی میں وقوع پذیر ہوئے اور پلک جھپکتے ہی انسانی المیوں کی نئی ڈراؤ نی تاریخ رقم کر گئے ۔ پہلا حادثہ ماہی گیری کی ایک بے جان کشتی میں سوار سینکڑوں انسانوں کو اُچک کر لے گیا ، دوسرے واقعے میں ایک آبدوز جہاز درد ناک حادثے میں پانچ انسانوں کو ایسے نگل گیا جیسے متوفین نے دھرتی پر کبھی جنم ہی نہ لیا ہو۔ یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ان حادثوں میں تلف شدہ سینکڑوں جانوں کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں ۔ کیا ہم یہ مان کر چلیں کہ ڈوبنے والے دونوں جہاز ساحل ِ مراد پانے کے لئے آگےبڑھ رہے تھے یا موت کا فرشتہ اُن کی طرف منہ کھولے آگے بڑھ رہاتھا ؟ معاملہ جو کچھ بھی ہو بہر حال جہازوں اور موت کے فرستادے کی مڈبھیڑ سے تقدیر کا وہ کھیل سرانجام پایا جوازل سے لکھا گیا تھا ۔ اس چیستاں ہے کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر سوال کی گھتیاں سلجھ جاتی ہے۔ الغرض حادثات میں لقمہ ٔ اجل بننے والوںکے لئے سمندر آبی کفن بنا اور سمندری جانوروںکے پیٹ اُن کی قبریں۔
خطروں کی دنیا کےلئے یہ افسوس ناک وارداتیں کچھ دن تجسس آمیز خبریں بنی رہیں‘ تاہم یہ ایسےانسانی المیے ہیںجن پر ماہ وسال خون کے جتنے آنسو رو ئے جائیں ، جتنا واویلا کیا جائے ، جتنی سینہ کوبی کی جائے، اتناکم ہوگا ۔
اصولاً ہردو حادثات ہمیں باور کراتے ہیں کہ موت کا وقت معین ہےنہ ٹھکانہ مقرر اور یہ کہ فرشہ ٔ موت کسی فرد یا گروہ کواللہ کےاِذن سے جن حالات وکوائف کےساتھ اور جن اسباب ومحرکات کے تحت پیغامِِ اجل سنا دے ‘اس کا نقش ِ راہ اپنی تمام تر تفاصیل وجزئیات کےساتھ پہلے ہی کتاب ِازل میں طے شدہ ہے۔ بقول اقبال ؎
کلبہ ٔافلاس میں ‘ دولت کے کاشانے میں موت
دشت ودر میں، شہر میں ‘ گلشن میں ‘ ویرانے میں موت
کتنی مشکل زندگی ہے ‘ کس قدر آساں ہے موت
گلشن ِ ہستی میںمانند ِ نسیم‘ اَرزاں ہے موت
بپھری ہوئی سمندری موجوں کی گواہی میں تازہ حادثاتی ہلاکتوں پر دنیا کا بھونچکا رہنا قابل ِ فہم ہے ۔ اہل ِعالم نے ان کی خبریں رپورٹیں دُکھ اور افسوس کے ساتھ سنی اور دیکھیں لیکن اب حسب معمول پل پل رنگ بدلتی دنیا میں ان غم انگیز واقعات کی گونج میڈیا سے غائب ہے ،ان پر فراموشی کا پردہ پڑچکاہے، زیادہ سے زیادہ مر نے والوںکی یاد یں اُن کے پیاروں میں درد کی ٹیسیں اُٹھا رہی ہوں گی ۔
بے رحمانہ ہلاکتوں سے جڑے ان دلخراش واقعات میں کئی سوانسانی زندگیوں کے چراغ گل ہوئے ۔ امر واقع یہ ہے کہ مر نے والے سمندری لہروں کے سامنے زندگی کی بازی کچھ ہی لمحوں میں ہار کرہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئے مگر جاتے جاتے یہ لوگ اپنے پیچھے عبرت آموزی کی تند وتلخ داستانیں چھوڑگئے ۔ نہیں نہیں‘ یہ کہانیاںنہیں بلکہ طبقاتی تقسیم کی ماری انسانی دنیا کی دو متضادتصویریں ہیں ۔ یہ تصاویر نگاہ ِ بصیرت رکھنے والوں کے لئےراز ِ حیات بزبانِ حال بیاں کرتی ہیں۔
اب ذرا پہلی تصویر پر اُچکتی نگاہ دوڑائیے۔
یہ پنچ نفری ٹولہ۔۔۔ امیربرطانوی تاجر اور مہم جُو ہمیش ہارڈنگ، پاکستانی کارپوریٹ ڈائرکٹر شہزادہ داؤد اور اُس کا بیٹا سلیمان ، ماہر فرانسیسی غوطہ خورہنری پال، ہنری نارجولیٹ۔۔۔ ہے۔ تین مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے اس گروپ کو بحری سیاحت کی دیوانگی لاحق ہوتاہے ۔ ایک قیمتی جہاز میں سوار یہ گروپ سینٹ جانز فاؤنڈ لینڈ سے قریباً چارسو پنتیس میل جنوب میں شمالی بحر اوقیانوس میں اپنے مشن پرروانہ ہوتا ہے‘ جونہی آبدوز ڈبکی مارتاہے تو کچھ ہی دیرمیں یہ آناً فاناً گہرے سمندر ی پانیوں کے دبیز پردے میں ہمیشہ کے لئے گم ہو جاتا ہے ۔ صحیح تر الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ موت کا پیام بر انہیں اپنے غیر معمولی سیاحتی شوق کی تکمیل میں سمندر کی تہوں تک لاکر گلے لگاتا ہے۔ قبل ازیں پانچ نفری گروپ دنیا کو بتانے کے لئے خطرناک بحری مہم جُوئی کا حصہ بنتا ہے کہ یہ ہم ہی ہیں جو ہزارہا فٹ نیچے سمندر میںاُس الف لیلوی ٹائی ٹینک کی زنگ آلودہ باقیات کوسر کی آنکھوں سے دیکھ آئے ہیں۔ امیرزادوں کواپنے منطقی انجام کا وہم وگمان بھی چھو کر نہ گیا کہ یہ جدید آبدوز ان کی قبر ہے اور وہ بڑے طمطراق سے اصلاً دنیا کو خیرباد کہنے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ بہرکیف کہنے کو آبدوز میں زندگی کی ضمانت یعنی آکسیجن وافر مقدارمیں سٹاک ہے مگر تقدیر کے اَن دیکھے چکر کا کیا کیجئے کہ عین وقت پر آبدوز کا رابطہ اپنے بحری اڈے سے فوراً کٹ جاتا ہے کہ یہ مشن چند ہی ساعتوں میں گم گشتہ راہ ہوجاتا ہے‘ آکسیجن کا وافر سٹاک ساتھ چھوڑجاتاہے، سانسیں پھول جاتی ہیں ، دل کی دھڑکنیں بھی مدہم پڑ جاتی ہیں ۔ یوں ہیبت ناک مناظر کے بیچ گروپ کی مہم بازی موت کی ہچکیوں کےساتھ ہی ختم شد ہو جاتی ہے۔ ریسکیو آوپریشن فوراًسے پیش تر شروع ہوتا ہے مگر کچھ دن آبدوز اور اس کے سواروں کی تلاش سے تھک ہارکر بچاؤ کارروائیاں کر نے والے مایوسی اور ناکامی کے ساتھ بے نیل ومرام پلٹ جاتے ہیں‘ ختم کہانی۔ اس وقت حال یہ ہے کہ ایک سو گیارہ سال پہلے سمندر میں ڈوبے رومانوی ٹائی ٹینک کا ملبہ اب بھی اپنی جگہ فرعون کی لاش کی مانند دنیا کی نظروں میں موجود ہے مگرپنچ پیاروں کا یہ ٹولہ فی الحال کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔یہ لوگ موت کی ابدی نیند سوچکےہیں اور اب اپنوں سےان کی ملاقات مید انِ حشر میں ہی ممکن ہوگی ۔
اب دوسری تصویر ملاحظہ فرمایں:
۱۳؍جون کو بحیرہ ٔ روم میں یونانی ساحل کے بہت قریب ماہی گیری کی ایک بوسیدہ کشتی میں سوار سینکڑوں بے یار ومددگار لٹے پٹے غریب پاکستانی ، فلسطینی ، مصری، شامی، افغانی مہاجرین سوار ہیں۔ یہ اپنے ملکوں کے وہ دبے کچلے لوگ ہیں جن کاقافیہ حیات تنگ ہے،ا ن بد نصیوں پراپنے اپنے وطن میں غربت، بے روزگاری اور فاقہ مستی کے کوڑے برس ر ہے ہیں ۔ مایوسی کے دلدل میں الجھےان لوگوں کو صرف یورپ اپنے لئے جائے پناہ سوجھ رہا ہے۔ یہیں انہیں بشری حقوق اور معاشی خوش حالی کی پُرکشش جنت دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کم نصیب بہتر حالاتِ زندگی کے خواب آنکھوں میںسجائے ہیومن ٹرئیفکنگ کے منظم عالمی نیٹ ورک کی جیبیں خوب گرم کرکے یونان میں غیر قانونی دراندازی کے مشن پر گامزن ہیں کہ یونان کے بحری محافظین کی ناک بھوئیںانہیں ساحل کے قریب دیکھتےہی چڑھ جاتی ہیں، وہ ان کی بوسیدہ کشتی کو واپس سمند ر کی جانب دھکیلتے ہیں ‘یہ سوچے بغیر کہ اس سے سمندر کی بپھری لہروں میں ٹوٹی پھوٹی کشتی میں کیپسٹی سے کئی سوگنا زیادہ سوار بچے،خواتین ، بزرگ اور جوان بآسانی موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔ عقل اور انصاف کا تقاضا تھا کہ انہیں ساحل پر لنگر انداز کر کے گرفتار کرکے قانوناً پُش بیک کیا جاتا مگر یونانی کوسٹل گارڈزکی رگِ انسانیت پھڑکتی ہے نہ عالمی قانون کی انہیں کوئی پرواہ ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ وردی پوشوںکی نظروں کے سامنے یہ بد نصیب کشتی سمندر کی فلک بوس لہروں میں اُلٹ جاتی ہے اور اس میں سوارپیر وجواں، مردوزن اور بچے معاشی آسودگی اور سماجی مساوات کے حسین خواب سمیت غرقآب ہو جاتے ہیں۔
ان دونوں سمندری حادثات کی دل خراش تصویروں کو ذہن نشین کر کے خود ہی فیصلہ کیجئے کہ آپ کی ہمدردی پہلی تصویر میں کام آنے والےکرداروں کے ساتھ ہونی چاہیےیا دوسری تصویر کے مہروں کےساتھ۔ میری دانست میں پہلی تصویر میں شامل ٹولے سے تمام تر ہمدردی کے باوجود اس سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ نے اپنی بے ہنگم آرزو کی قیمت موت کی صورت ادا کر دی مگر کیا آپ کو اپنے مال وزَر کا اس مہم بازی سے زیادہ کوئی اچھا ، مفیداور معقول مصرف نظر نہ آیا؟ کیا آپ کو دین دُکھیوں کی وہ اکثر یت کہیں نظر نہ آئی جو محتاجی اور محرومی کی زندگی بسر کرتی ہے اورآپ کی نظر التفات کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے تھی؟کیا یہ آپ کے لئے یہ بہتر نہ تھا کہ اپنی بے پناہ دولت کو دُکھی انسانیت کی خدمت یا کسی انسانی کاز میں خرچ کرکے سکون ِ قلب کی نہ ختم ہونے والی دولت پائی جاتی؟
خاص کر پاکستان کے امیرباپ بیٹےکے حق میں دعائے مغفرت کے بعداُن کی روحوں سے سوال کیا جاسکتا ہے :کیوں جی ایک ایسے وقت جب آپ کا ملک( جولوٹ کھسوٹ کے ماہر چنیدہ خاندانوں سے وابستہ سیاسی لٹیروں، وَڈیروں ، جاگیرداروں، فوجی آقاؤں، مذہب کے لبادے میں ذاتی مفادات کی پرستش کر نے والوں کی ذاتی ملکیت ہے) اپنی پچھتر سالہ تاریخ میں ا س وقت بدترین سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران ، اخلاقی بگاڑ ، قانون وآئین سے کھلے انحراف کا شکارہے اور جہاں انسانیت ‘شرافت اوردیانت سے رُوگردانی کرنےکے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ مات ہورہے ہیں ، ایک ایسی فضا میں جب آپ کی’’ جمہوری حکومت‘‘ کشکول لئے ملکوں ملکوں گھوم رہی ہے ‘آئی ایم ایف سے قرضہ وصولنےکے لئے اس کی دہلیز پر سجدہ ریز ہے،بارہ لاکھ پیشہ ور ٹیکنوکریٹ آپ کے خسارہ زدہ ملک کو الوداع کہہ چکے ہیں، آپ کی حکومت کے دست وبازو خود کھلااعتراف کر تے ہیں ہمارے خزانے خالی ، ذرائع آمدن ناپید، زہر کھانے تک کو کچھ نہیں بچاہے‘ ملکی سطح پر بے روزگاری اور مہنگائی آسمانِ دنیا کی حدیں چھو رہی ہیں ۔۔۔ آپ کے ملک وقوم کی یہ حالت ِزار ہو اور ایسے میں غربا کے لئے مسیحا صفت مولانا عبدالستار ایدھی مرحوم جیسا بننے کے بجائے آپ کا ضمیر کیونکر مطمئن ہے کہ لاکھوں ڈالر اپنی عیاشیو ں میں پھونک دیتے ہیں ؟ آپ نے فی کس 250000 ہزار ڈالر کی مہنگی ٹکٹ خرید لی تاکہ ٹا ئی ٹیٔن نامی آبدوزمیںسوار ہوکر 1912 کو سمندر میں ڈوب چکے الف لیلوی جہاز کا درشن کر یں ‘ معاف کیجئے‘کیا یہ مذہبی مقدسات کی زیارت تھی ؟ افسوس کہ زندگی دینے والے نے دنیا میں آپ کی مہلت ِعمل کو مختصر کرنے کا فیصلہ سنادیا مگرکیا آپ باپ بیٹے کو معلوم ہے کہ۱۳؍جون کو بحیرہ ٔ روم میں یونان کے ساحل کے قریب ماہی گیری کی ایک بوسیدہ کشتی میں سوار لٹے پٹے آپ کے چار سوسے زائدہم وطن غریب پاکستانی سمیت درجنوں فلسطینی ، مصری، شامی، افغانی معاشی تنگ دستی سے نجات پانے اور بہتر مستقبل اور بہتر حالاتِ زندگی کی اس لئے غیر قانونی طوریونان میں درانداز ی کے فراق میں تھےکہ اللہ کو پیارے ہوگئے؟ان لوگوں کا یہ اندوہ ناک حشر سماج میں کیا آپ جیسوں کی ان کے تئیں بے مروتی کا شاخسانہ نہیں؟ ان کی مایوس کن موت پر کیا آپ اور آپ جیسے بے حس دوسرے اصحابِ سیم وزر کے خلاف مالک حقیقی کے دربار میں ایف آئی آر نہیں کٹنی چاہیے؟
خیرقدرت کا یہ طے شدہ پلان تھا کہ دو الگ الگ سمندری حادثات میں سینکڑوں انسان سمندر کی تہ میں غرقآب ہوں‘ یہ اَزل سے ان کی تقدیر میں لکھا تھاکہ موت کے فرشتے کو ان کی ملاقات سطح ِ زمین پر نہیں بلکہ سمندر کی تاریکیوں میںکر نی تھی ۔ اس طے شدہ امرحق کولا کھ ٹالے ٹالا نہیں جاسکتا تھا ۔ قدرت نے ان حادثات میں یک لخت اتنی ساری انسانی جانیں لے کر نہ سمندر کے پانیوں کی قہر مانی کا پرچم لہرایا ، نہ اپنی کبریائی کا ڈنکا بجوایا بلکہ دنیا پر واشگاف الفاظ میں واضح کیا کہ یہاں ایک نہیں دو عالم آبادہیں ، ایک عیاشوں کی دنیا ، دوسرا ناداروں کی دنیا۔ کارخانۂ قدرت سےہم جیسے عام انسانوں کو یہ پیغام بھی ان حادثات کے ذریعے ملا ہے کہ اے بنی آدم ! تمہارے منصوبے کیسے بھی ٹھوس بنیادوں پر استوار ہوں، تمہاری اُمیدوں کی کتنی بھی خیالی جنتیں ہوں ، تمہارےخوابوں کا کتنا بھی دلکش جہان آباد ہو، دنیا میں سب کچھ میرے ارادے کے تابع ِ فرمان ہیں، سارا عالم میرے حکم کے ماتحت ہے، میں چاہوں تو سمندر ی مچھلی کی پیٹ میں ایک سموچے انسان( مراد حضرت یونس علیہ السلام) کو سما دوں اوریہ بھی میری کیا کرایا ہےکہ اسی مچھلی سے خشکی پر تین اندھیروں میںقید نحیف وناتواں پیغمبر کو صحیح سالم اُگلوادوں ۔ یہ بھی میںہی ہوں جس نے ایک سو گیارہ سال قبل وقت کے اہم امرا ٔ اور دولت مند لوگوں کے ایک مجمع کو اپنے عشرت کدوں اور عیش گاہوں سے نکال کر وقت کے قیمتی اورنظرفریب سمندری جہاز ٹائی ٹینک میں اپنی بیش قیمت اشیائےزینت، مہنگےترین سامان ِ تعیش، شباب و شراب و رباب اور عیش کوشی کے تمام اسباب سمیت جمع کرواکے قوی الجثہ جہاز میں اکھٹا کیا تاکہ ملک ا لموت سمندر کی گہرائیوں میںان کا کام تمام کردے، یہ بھی میں ہوں جس نے تُرکی کے حالیہ ہیبت ناک اور تباہ کن زلزلے میں ایک ماں کو ملبے میں موت کی آغوش میں لیا مگر اس کے نوزائد بچے کو کئی دن بعد زندہ وجاوید نکالا۔ فاعتبرو یا اولی لابصار
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w