شوکت تھانوی
یا تو شدت پسند ہونا ہندوستانیوں کی فطرت میں داخل ہے یا مرزا کچھ اس قسم کے واقع ہوئے ہیں کہ لاکھ سمجھاتے رہے خوشامدیں کیں اور بقول پنجابی احباب کے لکچر پلائے کہ دیکھو میاں اور چاہے جو کچھ کرو مگر خدا کے لیے پڑھنا لکھنا نہ چھوڑو۔ اگر اس سال فیل بھی ہوگئے تو آئندہ سال پاس ہوجاﺅ گے، پڑھ لکھ کر چاہے لیڈر بننا چاہے جیل جانا تم کو اختیار ہے لیکن اب تو جاہلوں کا ٹھکانا جیل میں بھی نہیں ہے۔ تمہارے ایسے محدود استعداد کے افراد ملک کو بجائے آزاد کرانے کے اور بھی مشکلات میں مبتلا کرنے کے باعث ہوسکتے ہیں۔ تم بغیر لکھے پڑھے چاہے کھدرپہن کر اپنے کو قومی لیڈر سمجھنے لگو چاہے اسکول چھوڑ کر براہ راست جیل خانہ چلے جاﺅ ،لیکن رہو گے جاہل اور ایک والنٹیر سے زیادہ کوئی حیثیت تم کو حاصل نہ ہوگی لیکن ہمارا یہ سمجھانا بجھانا بالکل ایسا ہی ہوتا تھا گویا بھینس کے آگے بین بجایا جارہا ہے۔ مرزا سب کچھ سنتے تھے، لیکن سمجھتے صرف یہ تھے کہ گویا ہم بیوقوف ہیں اور اپنی طرح ان کو بھی بیوقوف بنانا چاہتے ہیں۔ اول تو وہ ہماری کسی بات کا جواب ہی نہ دیتے تھے اور اگرد یا بھی تو صرف یہ کہ تم کیا جانو تمہارے دماغ میں تو غلامی اس طرح ٹھونس دی گئی ہے کہ تم آزادی کا خیال بھی نہیں لاسکے۔ ہندوستان ہمارا ہے اور ہم اس کے ہیں ہم اس کو آزاد کرائیں گے اور آزاد بنیں گے۔ ہم نے لاکھ لاکھ کہا کہ ”دیکھ بھائی ہندوستان کی آزادی ہم کو بھی اچھی معلوم ہوتی ہے ہم خود بھی آزاد بننا چاہتے ہیں، لیکن ہم کو معلوم ہے کہ ہم قومی رہنما نہیں بن سکتے اور اگر بنیں گے تو نااہل ثابت ہوں گے اور ہماری نااہلی سے ان لوگوں کی خدمت پر بُرا اثر پڑے گا جو کامیابی کے ساتھ اس مقصد میں ساعی ہیں۔ ہم کو اپنے فرائض دیکھنا ہیں اور ان کو پورا کرنا ہے ہم تعلیم حاصل کررہے ہیں صرف اپنے لیے نہ کسی دوسرے کے لیے ہماری تعلیم سے ہم کو اور ہمارے ملک کو فائدہ پہنچے گا۔ اور ممکن ہے کہ ہم تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں موجودہ صورت سے زیادہ مفید خدمات انجا م دے سکیں۔“ لیکن ہماری اس بکواس پر مرزا نے کبھی توجہ نہ کی اور آخر کار ایک دن ”بندے ماترم“ ”انقلاب زندہ باد“ کہتے ہوئے اور ”جھنڈا اونچا رہے ہمارا“ گاتے ہوئے اسکول سے نکل ہی آئے۔
اسکول چھوڑنے پر گھر کے بڑے بوڑھوں نے مخالفت کی اور ہماری طرح کے بہت سے احباب نے سمجھایا، مگر وہ تو گویا یہ طے ہی کرچکے تھے کہ آئندہ سال کانگریس کا صدر منتخب مجھ ہی کو ہونا ہے اور جس وقت میری ”جے“ کے نعرے بلند ہوں گے یہ مخالفت کی آوازیں خود بخود دب جائیں گی۔ لہٰذا ان کے فیصلہ کے آگے کسی کی نہ چلی اور انہوں نے ایک ملکی رہنما کی سی زندگی شروع کردی۔ کوٹ پتلون شیروانیاں ٹوپیاں قمیص پاجامے ایک ایک کرکے نذر آتش کردیے گئے اور شہر میں جو سب سے موٹا کھدر دستیاب ہوسکا ،اس کا کرتا پیجامہ اور ٹوپی بنائی گئی، بجائے بوٹ کے وہی بارہ آنے والی چپل خریدی گئی جو تارکین موالات پہنا کرتے ہیں اور اب وہ صورتاً پکے لیڈر معلوم ہونے لگے، لیکن ان کی شدت پسندی کے نزدیک یہ انقلاب گویا کچھ بھی نہ تھا۔ وہ تو چاہتے تھے کہ جس زمین پر چلتے ہیں اور جس آسمان کے نیچے رہتے ہیں‘ یہ سب کھدر کے ہوجائیں۔ اگر ان کا بس چلتا تو کھدر کھانا بھی شروع کردیتے اس لیے کہ اُن کے استعمال کی ہر چیز صرف سودیشی ہی نہیں بلکہ کھدر کی ہونی چاہیے تھی۔ لحاف تو شک چاندنی اور تکیہ وغیرہ تک تو کوئی مضائقہ نہ تھالیکن عینک کے شیشہ صاف کرنے کے کپڑے سے لے کر جوتا پوچھنے کے کپڑے تک اور جائے نماز سے لے کر میز پوش تک سب کھدر ہی کھدر نظرآتا تھا حالانکہ ان حضرت سے لاکھ کہا کہ ”جناب ابھی کھدر کی اتنی کثرت نہیں ہے کہ آپ اس کو فیاضی کے ساتھ استعمال کریں۔ اگر ہر ہندوستانی ایک ایک کھدر کا رومال رکھنا چاہے تو شاید ہندوستان میں کھدر ناکافی ثابت ہوگا۔ آپ جو اس بے تکے پن سے کھدر استعمال کررہے ہیں، اس کے معنی تویہ ہوئے کہ گویا تمام ہندوستان میں آپ ہی ایک قوم پرست ہیں اور باقی چاہے جو کچھ پہنیں اور لوگوں کے واسطے بھی باقی رہنے دیجئے گا یا نہیں؟“لیکن انہوں نے ہمارے اس کہنے کو اس طرح ٹال دیا جس طرح بڑے بوڑھے نادان بچوں کی بات پر مسکرا کر خاموش ہوجاتے ہیں لہٰذا ہم نے اور ہماری طرح دوسرے سننے والوں نے بھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اس لیے کہ ان کے نزدیک سمجھدار‘ ذی ہوش انسان وہی تھا جو خود سر سے پیر تک ”سودیشی بھنڈار“ بنا ہوا اور دوسرے کو بھی اسی حالت میں دیکھ کر خوش ہوتا ہو۔ لہٰذا اس حیثیت سے ہم لوگ تو ایک سرے سے بیوقوف ہی تھے ہماری بات وہ مانتے تو کیا مانتے۔یہ تغیر ملاحظہ فرمائےے کہ جس دن سے ”شریمان مرزاجی“ نے کھدر میں اپنے کو لپیٹا گو یا ان کی دنیا ہی بدل گئی۔ گھر والوں سے غیر مطمئن‘ احباب سے ناخوش‘ حد یہ ہے کہ اپنے ہونے والی سسرال سے بھی متنفر ہوگئے جس کے سنگ آستاں پر جبین نیاز جھکانا نہیں بلکہ گھنا ان کے نزدیک جز و ایمان تھا اور اس تمام تغیر کا سبب وہی سودیشی اور بدیشی مسئلہ تھا۔گھروالے ان کی کھدرپوشی پر خوش نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا ان سے ناخوش ہونا ایک اصولی بات تھی۔ احباب بدستور سوٹ یا بدیشی کپڑے کا بنا ہوا ہندوستانی لباس پہنتے تھے لہٰذا اُن سے ترک موالات بھی لازمی ہوا۔ اب رہی ہونے والی سسرال کا یہ حال تھا کہ انسانوں سے لے کر جانوروں تک کے لیے ہر چیز بدیشی مہیا کی جاتی ہیں۔ خود وہ مستماة جن کی شادی مرزا کے ساتھ ہونے والی تھی ہر روز صبح کو انگریزی صابن سے منھ دھو کر انگریزی تولیا سے پونچھتی تھیں اور انگریزی پوڈر لگا کر انگریزی آئینہ میں انگریزوں جیسا منھ دیکھتی تھیں پھر انگریزی تیل سر میں ڈال کر انگریزی کنگھی سے انگریزی مانگ نکالی جاتی تھی اور اس پر انگریزی کلپ لگائے جاتے تھے ،اس کے بعد انگریزی کپڑے کی بنی ہوئی ساری اور انگریزی دکان کا سیا ہوا بلوز پہن کر انگریزی موزے اور انگریزی جوتا پہنے ہوئے انگریزی موٹر پر بیٹھ کر انگریزی بولتی ہوئی انگریزی اسکول جاتی تھیں۔ اور وہاں انگریزی کتابیں پڑھتی تھیں۔ اب بتائےے کہ وہ کس طرح مرزا کی بیوی بن سکتی تھیں۔
مرزا تو ہر مرتبہ بیوی کا تصور آتے ہیں اس طرح ”لاحول ولا قوة“ پڑھتے تھے، گویا تارکین موالات کے شیطان کی یہی وضع قطع ہوتی ہے جو مرزا کی ہونے والی بیوی کی تھی۔ یا تو یہ حال تھا کہ شادی کی مقررہ تاریخوں میں ایک عزیز کا انتقال ہوگیا تھا اور شادی کی تاریخ بڑھ گئی تھی تو ان کی روح تک سے متنفر تھے ۔وہ تو یہ کہئے کہ یہ حرکت ایک مرحوم کی تھی۔ اگر کسی ”اینجہانی“ نے اسی طرح شادی میں رکاوٹ ڈالی ہوتی تو مرزا اس کی اور اپنی جان ایک کردیتے ،یا وہی نہ رہتا یا مرزا ہی نہ رہتے، لیکن مَرے ہوئے کے ساتھ کیا کرسکتے تھے، بہرحال یہ تو طئے تھا کہ خدا کے یہاں بدلہ ضرور لیں گے۔ یا تو یہ زور وشور تھا یا اب یہ حال تھا کہ شادی کے نام سے ان کو تنفس کا دورہ اُٹھتا تھا اور اس طرح جلد جلد پہلوبدلنا شروع کرتے تھے۔ گویا کسی اڑیل ٹٹو کو کھونٹے سے باندھ کر ہنٹر لگائے جارہے ہیں۔بات اصل میں یہ تھی کہ اس تبدیلی نے شادی کے معاملہ میں بھی معیار انتخاب بدل دیا تھا۔ اب وہ ایک برق مجسم ایک شعلہ¿ لرزاں معطر ریشم میں لپٹی ہوئی حسین سمتیری کو اپنی رفیقہ¿ حیات بنانا تو کجا اپنی رفیقہ¿ حیات کی خادمہ بھی بنانا نہیں چاہتے تھے۔ اس کا سروقد ہونا ان کی نظروں میں کھٹکتا تھا اور وہ کہتے تھے کہ کاش یہ ”کپاس قد“ ہوتی۔ اس کے سنہری ریشم کی طرح ملائم بال بھی ان کو اچھے نہ لگتے تھے، غالباً وہ چاہتے ہوں گے کہ سوت کی طرح موٹے بال ہوتے، اس لیے کہ جن باتوں میں بدیشیت ہو یا بدیشیت کی بو بھی پائی جائے اس سے ان کو تنفر ہوگیا تھا، خواہ وہ ان کی ہونے والی بیوی کا حُسن ہی کیوں نہ ہو،اس قسم کی شدت پسندی نہیں رہتی بلکہ اس کی تو ایک طوفانی کیفیت ہوتی ہے کہ الفاظ کی صورت میں نقل و حرکت کی شکل میں اس کا اظہار ہوتا ہی رہتا ہے اور بالکل مدوجزر کی سی حالت ہوتی ہو چنانچہ شادی کے معاملہ میں بھی مرزا نے سودیشی جوش میں آکر اپنے گھر میں کہہ دیا کہ میں جمیلہ کے ساتھ شادی نہ کروں گا حالانکہ گھر میںکسی کو مرزا کے اس انکار کی توقع نہ تھی لیکن یہ الفاظ سن کر کسی کو تعجب بھی نہ ہوا، اس لیے کہ تمام گھر ان کی سودیشی ادائیں دیکھ کر ان کے دماغ کی طرف سے مایوس ہوچکا تھا۔ پھر بھی شادی کا معاملہ ایسا تھا کہ یہ الفاظ سن کر سب کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اس لیے کہ جمیلہ بھی کوئی غیر نہ تھی۔ مرزا کی حقیقی چچازاد بہن تھی۔ اس انکار سے اول تو اُس کی بدنامی دوسرے خود مرزا کے والد محترم کو یہ گوارانہ تھا کہ مرزا کی اس جسارت کو خاموشی کے ساتھ ٹال دیا جائے اور غریب جمیلہ کو بدنام ہونے دیا جائے۔ انہوں نے مرزا کوسمجھایا اور خوشامدیں کیں‘ غصہ کیا خفا ہوئے بُرا بھلا کہا۔ خود گھر سے نکلنے کی دھمکی دی‘ گھر سے نکالنے کو کہا‘ صورت نہ دیکھنے کے عزم بالجزم کا اعلان فرمایا‘ عاق کردینے کے ارادے کا اظہار کیا، لیکن مرزا نے ہر بات کا جواب اس سکوت کے ساتھ دیا جس میں لوگ منہ پھلا کر دل ہی دل میں گالیاں دیا کرتے ہیں۔ جب والد صاحب قبلہ اپنے فرمانبردار نور نظر کو ہر طرح سے ڈرا دھمکا چکے تو والدہ محترمہ نے اپنے لخت جگر کو روکر گڑگڑا کر ہاتھ جوڑ کے دودھ نہ بخشنے کا الٹی میٹم دے کر اپنے مرنے کا عبرت انگیز بیان اور ایک تمنا کو لیے ہوئے قبر میں جانے کا درد انگیز ذکر کرکے اپنے سر کی قسم دے کر ”اولاد ماں باپ کے احسانات سے سبکدوش نہیں ہوسکتی“ کے موضوع پر ایک وعظ نما تقریر کرکے حکم دیا‘ استدعا کی‘ اکڑ کے کہا اور ہاتھ جوڑ کے کہا کہ ”بیٹا ایسا غضب بھی نہ کرنا بڈھے ماں باپ کا منہ کالا ہوجائے گا صورت دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔“ لیکن ہمارا مرزا کچھ ایسا ویسا نہ تھا جس کو یہ سبز باغ دکھا کر یا گیدڑ بھپکیوں سے ڈرا کر قابو میں کیا جاتا۔ وہ شیر کی طرح مخالفت کے طوفان کا مقابلہ کرتا رہا اور ہر مصیبت کے جھیلنے پرآمادہ۔ مرزا کے والد ہمارے بڑے قائل تھے کہ ہم کو اپنے اشاروں پر مرزا کو چلانا ایسا آتا ہے جیسے بندر کو اشاروں سے نچاتا ہے چنانچہ ان کے نزدیک مرزا کا صرف یہ علاج رہ گیا تھا کہ ہم بھی ان سے کہیں کہ ”مان جاﺅ“ چنانچہ ہم کو اس پر آمادہ کیا گیا کہ مرزا کو ہموار کریں حالانکہ ہم یہ جانتے تھے کہ مرزا کو جس مرض کا دورہ اُٹھا ہے اس کا علاج خود مہاتما گاندھی کے پاس بھی نہیں ہے، لیکن اُن کے والد کے حکم کی تعمیل ضروری تھی اور ایسی صورت میں جبکہ وہ اپنی تمام پدری طاقتوں کا استعمال کرچکنے کے بعد ہماری طرف امداد طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں چنانہ ہم ناصحانہ الفاظ پر اس طرح غور کرتے ہوئے جیسے شعراءراستے میں شعر کہتے ہیںمرزا کے پاس پہنچے اور سودیشی تحریک کے فوائد پر ایک ایسی تقریر کی کہ مرزا کی باچھیں کھل گئیں۔ دیر تک ہماری ذہانت‘ عقلمندی‘ قابلیت‘ سنجیدگی اور روشن دماغی کی تعریفیں کرتے رہے جب ہم نے دیکھا کہ اب ذرا خوش ہیں اور اُمید ہے کہ منہ مانگی مُراد ملے گی تو ہم نے ہمت کرکے کہہ دیا۔
”ارے یاد یہ کیا قصہ ہے تمہاری شادی کا؟“
کہنے لگے۔ ”ہماری شادی کا؟“
ہم نے کہا۔ ”ہاں تمہاری شادی کا سُنا ہے کہ تم کو کچھ پس و پیش ہے۔“
کہنے لگے ”بھائی تم خود سمجھدار ہو اور تم نے میری فطرت کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ تم خود بتاﺅ کہ جس لڑکی سے میری شادی طے ہوئی ہے اس سے میرا نباہ کیسے ہوگا؟“
ہم نے کہا ” یہ صحیح ہے مگر کیوں؟“
کہنے لگے”بھائی یہ تو موٹی سی بات ہے کہ میں قوم کا خادم بن جانے کے بعد بیوی کا خادم بننے کے قابل نہیں رہا۔“
ہم نے کہا یہ کیا؟“
کہنے لگے ”اس کا مطلب یہ ہے کہ میری اور اس لڑکی کی معاشرت میں وہی فرق ہے جو ہندوستانیوں اور انگریزوں کی معاشرت میں ہوتا ہو۔“
ہم نے کہا۔ ”تمہارا مطلب یہ ہے کہ وہ انگریزی پڑھتی ہے اور تم نے پڑھنا چھوڑدیا۔ تم گاڑھا اور کھدر پہنتے ہو اور وہ ….“
کہنے لگے ”بعض اوقات تم بچوں کی سی باتیں کرتے ہومیرے اور اس لڑکی کے درمیان یہی فرق ہے کہ میں آزادی کا شیدائی ہوں اور وہ غلامی کی دلدادہ، جتنی چیزیں میرے لیے باعث نفرت ہیں وہ سب اس کے لیے باعث رغبت مجھ کو کھدر سے عشق ہے اور اس کو کھدر سے نفرت اب آپ ہی بتائےے کہ ”چہ نسبت خاک رابا عالم پاک“۔
ہم نے کہا ….لیکن شادی کرنے سے گویا تم قوم پرستوں میں ایک اور اضافہ کرو گے۔“
اچھل کرکہنے لگے ”وہ کیسے؟“
ہم نے کہا وہ اس طرح کہ اگر تم جمیلہ ہی سے شادی کرکے اُس کو اپنی راہ پر لگا لائے تو گویا تم نے رہنمائی کے فرائض انجام دیے۔ بجائے اس کے کہ جمیلہ کو اپنی ملکیت بناکر اس کو اپنی مرضی کے مطابق بناﺅ، کیا تم یہ گوارا کرتے ہوکہ وہ کسی سرکار پرست فیشن ایبل کی بیوی بنے اور اس کی اصلاح نہ ہوسکے؟“
گردن ہلا کر بولے۔ ”تم نے بات تو ایسی کہی ہے کہ میں قائل ہوگیا۔ مگر تم کو نہیں معلوم کہ وہ صاحبزادی کس ماحول میں زندگی بسر کررہی ہیں۔ مجھ کو گویا ذہنیت تبدیل کرنا پڑے گی۔ گویا عادتیں تبدیل کرانا پڑیں گی، مختصر یہ کہ جمیلہ کو ایک سرے سے تبدیل کرنا پڑے گا۔ لہٰذا ایسی ہی شادی کیوں نہ کروں جس کو تبدیل کرنا نہ پڑے۔“
ہم نے کہا ”تو پھر کمال ہی کیا ہوا؟ کمال تو یہ ہے کہ ان ہاتھوں سے جو پیانو بجانے کے عادی ہیں چرخہ چلواﺅ ‘ ان پیروں میں جو لمبی ایڑی کے جوتے میں رہ کر آہو خرامی کی مشق کرچکے ہیں چپل پہناﺅ۔ اس جسم کو جس کی نزاکت ریشم کے بوجھ کی بھی بمشکل متحمل ہوتی ہے کھدر کا عادی بناﺅ غرضکہ اپنے رنگ میں اس کو رنگ کر بجائے ”میڈم“ کے اپنی بیوی یعنی ”شریمتی“ بنادو۔ اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو یاد رکھنا کہ تمہارا دل ایسا مطمئن ہوجائے گا گویا ہندوستان کو چاہے ملا ہو یا نہ ملا ہو لیکن تم کو سوراج مل گیا۔“
ایک وجدانی کیفیت کے ساتھ کہنے لگے۔ ”یارسچ بتاﺅ کہ آج تم اتنی معقول باتیں کیسے کررہے ہو میں نے تو کبھی تمہارے متعلق اتنی اچھی رائے قائم نہ کی تھی جیسے تم آج ثابت ہوئے۔ اتنے زبردست دلائل، ایسی سلجھی ہوئی باتیں ’اللہ اکبر، بندے ماترم‘ بھارت ماتا کی جے‘ سبحان اللہ‘ بخدا دل چاہتا ہے کہ تمہارے ایک ایک لفظ کو اپنا خط تقدیر بنالوں، میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں بالکل سچ سمجھو اور یقین جانو کہ میں صرف تمہارے ان الفاظ کے ساتھ شادی کررہا ہوں۔ جمیلہ کے ساتھ نہیں اور سنو میں اب شادی پر اور غیر مشروط شادی پر بالکل آمادہ ہوںبلکہ اس سے بھی زیادہ جو تم کہو میں تیار ہوں۔“
میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ میں اپنی لسانی کی داددوں یا مرزا کی بیوقوفی کی۔ بہرحال دونوں کو نصف نصف سمجھ کر میں اپنی کامیابی پر خوش ہوتا ہوا مرزا کے والد کے پاس پہنچا اور ان کو یہ مژوہ سنایا۔ وہ سنتے ہی میری طرف بڑھے، میں سمجھا کہ جذبات شکر گزاری سے بیخود ہوکر میرے قدموں پر گرپڑیں گے، میں ذرا پیچھے ہٹ گیا لیکن انہوں نے جھپٹ کر گلے سے لگا یا اور دیر تک تعریفیں کرتے رہے۔ گھر میں خبر پہنچی تو مرزا کی والدہ نے دعا کہلا بھیجی اور خاصدان میں پان۔ غرضکہ اُس دن ہم ہی ہم تھے ۔ہر طرف سے مرزا کے نوکروں‘ چاکروں‘ ماماﺅں‘ ملازماﺅں‘ عزیزوں‘ رشتہ داروں کی اُنگلیاں ہماری ہی طرف اُٹھ رہی تھیں اور ہم کو اس کامیابی پر محسوس ہورہا تھا گویا خود ہماری شادی ہے۔ مرزا تو خیر جب دولہا بنیں گے دیکھا جائے گا لیکن اس وقت تو ہم کو یہ درجہ حاصل تھا۔
مرزا کی شادی کا تمام سامان پہلے ہی سے تیار تھا۔ بس مرزا کے ”ہوں“ کرنے کی دیر تھی جس کے بعد دعوت نامہ تقسیم ہونا شروع ہوگئے اورآخر وہ مرحلہ بھی طے پاگیا جس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہماری خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ مرزا دلہا بنے‘ مگر کھدر پوش‘ جمیلہ دُلہن بنی مگر بدیشی دلہن لیکن مرزا کو قطعاً اعتراض نہ ہوا، اس لیے کہ وہ سمجھے ہوئے تھے کہ یہ کافر مسلمان ہوکر رہے گا چنانچہ ہنسی خوشی شادی کے تمام رسوم پورے ہوئے‘ دلہن رخصت ہوکر آگئی اور مرزا کے مکان سے رفتہ رفتہ شادی کی فضائیں دور ہونے لگیں۔ چوتھی ہوئی چالے ہوئے اور آخر کار مرزا کا مکان مہمانوں سے خالی ہوگیا۔ اس کے علاوہ کہ پہلے مرزا مردانے مکان میں رہتے تھے اب زنانے مکان میں رہنے لگے اور باقی حالات بدستور سابق ہوگئے۔
مرزا کے متعلق اتنا اندازہ تو ضرور ہوا کہ غیر مطمئن نہیں ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہ کھلے اور نہ ہم نے پوچھا۔ اس لیے کہ ہماری حیثیت ایک ناصح مشفق کی تھی، لہٰذا ہمارا خود سے سوال کرنا ذرا ہماری پوزیشن کے خلاف تھا لیکن ہمارا دل ضرور چاہتا تھا کہ بدیشی دلہن کے اس سودیشی دولہا سے پوچھیںتو کہ کیسی گزر رہی ہے؟ لیکن ہم منتظر تھے کہ یہ حضرت خود کچھ فرمائیں۔ آخر انہوں نے خود ایک دن فرمایا۔
”بھائی ہماری بیوی تو پکی نیشنلسٹ ہوسکتی ہے لیکن ابھی اُس کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔“
ہم نے کہا۔ ”تو پھر تبدیل کرڈالنا“
کہنے لگے ”ذرا صبر کرو۔رفتہ رفتہ سب ہوجائے گا۔ دیکھئے گا مرزا کی بیوی کیا سے کیا ہوجاتی ہے۔“
ہم نے کہا ”بات تو جب ہے کہ تم سے پہلے تمہاری بیوی جیل جائے“
کہنے لگے ”انشاءاللہ…….. مگر نہیں یار خدا نہ کرے، اس لیے کہ میں اس کو ذرا بُرا سمجھتا ہوں“
ہم نے کہا ”اس میں برائی کیا ہے کیا قوم کے لیے قربانی عورت نہیں کرسکتی؟“
کہنے لگے ” یہ تو ٹھیک ہے مگر جیل کے داروغہ سے لے کر چپراسی اور سپاہی تک بلکہ تمام قیدی سب اس کے لیے نامحرم ہوں گے اور وہ ٹہری پردہ نشین“
ہم نے کہا ”واہ حضرت واہ! اگر محرم اور نامحرم کا امتیاز آپ نے بیوی کے معاملہ میں کیا تو کرچکے آپ قوم کی خدمت۔“
کہنے لگے ”بھائی تو بتاﺅ آخر کیا کروں۔ خود تو میں جیل میں نہیں جہنم میں جانے کو تیار ہوں لیکن….لیکن….لیکن“
ہم نے کہا ۔ ”خیر معلوم ہوگیا کہ آپ بیوی کو قوم کی داسی نہ بننے دیں گے، اچھا تو یہ بتاﺅ کہ وہ تمہارے کھدر سے ناخوش تو نہیں ہیں؟“
کہنے لگے ”ناخوش تو خیر نہیں ہیں لیکن وہ چاہتی ہیں کہ میں ایک آدھ سوٹ بھی بنوالوں تاکہ جب ان کی کوئی اسکولی سہیلی یا اُستانی وغیرہ ان سے ملنے آئے تو وہ ایک سوٹ پہنے ہوئے شخص کو اپنا شوہر بنائیں اور کھدر پہننے کی حالت میں ان کو ذرا پس و پیش ہوگا۔ بھائی بات اصل میں یہ ہے کہ خود ہماری بیوی نے ہمارے درد قومی کا احساس کرلیا تو کیا دنیا بھر ہمارے کھدر کو دیکھ کر ہم کو معزز آدمی سمجھے گی۔ سب تویہی سمجھیں کے کہ ہوگا کوئی جولا ہا وغیرہ“۔
ہم نے کہا۔ یہ تو یار تم غلط کہتے ہو، اس وقت کھدر پہننا بھی ایک قسم کی عیاشی ہے جس کو بڑا آدمی بننا ہو وہ کھدر پہن لے۔ یوں سوٹ پہنو گے تو اس سے زیادہ قیمتی سوٹ پہنے ہوئے دوسر ے بھی نظر آئیں گے لیکن جہاں تک کھدر کا تعلق ہے۔ ”یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں اُلٹا سیدھا“ کہنے لگے۔ ”مگر بھائی عورتیں ناقص العقل ہوا کرتی ہیں‘ اُن کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آسکتیں۔“
ہم نے کہا تو پھر ایک آدھ سوٹ بنوالو وقت پر کام آئیں گے جس طرح ہم نے ایک آدھ کھدر کی شیروانی رکھ چھوڑی ہے۔“
کہنے لگے ”اماں بھائی بنوانا ہی پڑے گا لیکن دل نہیں چاہتا کہ اس چیز کو ہاتھ لگاﺅں جس کو حرام سمجھ لیا تھا۔“
مرزا سے گفتگو کرنے کے بعد اس کا اندازہ تو ہم کو ہوہی گیا تھا کہ اب یہ بہروپ بدلنے والے ہیں۔ لیکن ہم کو اُمید تھی کہ اگر اس دوران میں کوئی قومی جلسہ ہوگیا یا کسی لیڈر کا لکچر سننے کا مرزا کو اتفاق ہوا تو بہت ممکن ہے کہ رائے بدل جائے، اس لیے لیڈر تو لیڈر ہم ایسے غیر لیڈر نے ان کے ارادوں میں کیسی تبدیلیاں پیدا کردیں اور ہم تو ہم اسے عورت ذات نے کیسا ان حضرت کا ٹٹو پھیرا کہ اب ہربات جو پہلے حرام تھی حلال ہوگئی ہے یا تو یہ اُمید تھی کہ یہ ذات شریف اس غریب لڑکی کو بھی جس کے کھانے پہننے کے دن ہیں اپنی طرح کھدر پوش بنادیں گے۔ اور اگر زیادہ جوش آگیا تو ابکی بدیشی ہولی میں بیوی کا تمام جہیز نذر آتش کردیا جائے گا۔ لیکن وہاں تو دنیا ہی بدل گئی‘ دو باتیں جو اس نئی نویلی دلہن نے کہیں تو میاں صاحب کی تمام ”سودیشیت“ رفوچکر ہوگئی۔ بڑے بڑے دعوے تھے بڑے ضدی بنتے تھے‘ اپنے عزائم پر بہت ناز تھا‘ باپ تک کی نہ سنتے تھے یا اب یہ حال ہے کہ گویا بیوی نے کوئی جادو کردیا۔ اگر بیوی بنگالن ہوتی اور پرانا زمانہ ہوتا تو خیر کوئی تعجب نہ تھا اس لیے کہ وہاں کی عورتیں آدمیوں کو بیل بنادینا بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتی تھیں لیکن یہاں تو نہ کوئی جادو تھا نہ سحر یونہی سیدھے سادھے الفاظ سے مرزا کو ایسا مجبور کیا گیا تھا گویا کھونٹے سے باندھ رہا ہو۔
مرزا کی جدید تبدیلی کے ہم منتظر تو ضرور تھے، لیکن یہ امید ہم کو بھی نہ تھی کہ وہ ایک دن ہانپتے کانپتے ہمارے پاس آئے اور پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہنے لگے۔
”ارے میاں اپنا وہ سرج والا سوٹ اور کالر چک ٹائی مع رومال اور نائٹ کیپ جلدی سے دے دو۔“
ہم نے کہا۔ ” اچھا ابھی لو۔ کیوں خیریت تو ہے؟“
کہنے لگے۔ ”آج تمہاری بھاوج کے اسکول میں جلسہ ہے جس میں میں بھی مدعو ہوں…. لاﺅ ٹائی باندھتا جاﺅں اور کہتا جاﺅں ورنہ دیر ہوگی…. ہاں تو وہاں میں بھی مدعو ہوں اور میرے سوٹ سب جل چکے۔ نئے ابھی تیار نہیں ہوئے لہٰذا مجبوراً تمہارے سوٹ پہن رہا ہوں…. ارے یار قمیص بھی تو دو واپس آکر ابھی بھیجے دیتا ہوں۔“
تھوڑی دیر میں ہمارے کھدر پوش شریمان مرزا جی یارئیس الاحرار مولانا مرزا صاحب ایک باقاعدہ جنٹلمین نظر آنے لگے۔ ہم کو خیر اس انقلاب پر حیرت ہورہی تھی لیکن مرزا نے آئینہ دیکھ کر کمال کردیا۔
فرمانے لگے:
”بُرا تو نہیں معلوم ہوتا سوٹ میں، میں سمجھا تھا کہ اتنے دنوں کے بعد بُرا لگے گا۔“