شہاب مرزا
گزشتہ دو ماہ سے جاری سکل ہندو سماج کی ریلیوں میں لیڈروں کے جو بیانات آرہے ہیں، ان سے واضح ہو گیا ہے کہ ہندو تو وادی کیا چاہتے ہیں اور ان کا ایجنڈا کیا ہے۔ کچھ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ایک دو مثبت باتوں سے ان کی سرگرمیاں بند ہو جائیں گی، یہ خوش فہمی اصل مسئلے پر صحیح طور سے نظر نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، مہاراشٹر میں بی جے پی بھلے ہی ایکناتھ شندے کے ساتھ اتحاد کرکے ڈبل انجن کی سرکار چلارہی ہو لیکن ایکناتھ شندے کو وزیر اعلیٰ بناکر وہ خوش نہیں ہے، بی جے پی سرکار کی تشکیل سے بہت سے لوگوں کو امیدیں تھیں کہ ہندوتو وادی طاقتیں اپنے اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے میدان میں آجائیں گی، گر چہ ان کی کسی نہ کسی سطح پر اپنی سرگرمیاں پہلے بھی جاری تھیں، تا ہم سرکار کی تشکیل کے بعد جس آن بان اور رنگ ڈھنگ سے کام کر رہی ہیں، وہ پہلے نہیں تھا، حالات پہلے سے یکسر بدل گئے ہیں، اب اقتدار ہندوتوا وادی تنظیموں، سنگھ، وشوا ہندو پریشد وغیرہ سے وابستہ افراد کا ہے، اور وہ اکثریتی طبقے سے بھی تعلق رکھتے ہیں، ایسی صورت حال میں اقلیتوں کے لیے کئی طرح کی مشکلات اور مسائل پیدا ہو گئے ہیں، حالیہ چند مہینوں سے ریاست بھر میں سکل ہندو سماج کی ریالیوں کا سلسلہ جاری ہے، پچاس سے زائد ریالیاں ہوچکی ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت نے ان ریالیوں میں شامل لیڈروں کو باضابطہ نفرت پھیلانے کا لائسنس دے دیا ہے۔ انڈین ایکسپریس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق، نومبر 2022 سے ریاست بھر میں کم از کم 50 ایسی ریالیاں نکالی گئی ہیں۔ان ریالیوں میں باقاعدہ کہا گیا کہ ان کا مقصد ”ہندوؤں کو بچانا“ ہے اور یہ ریالیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک ریاستی حکومت ان کی درخواست پر مذہب کے تحفظ کے لیے قانون لانے کے لیے عمل نہیں کرتی،لیکن سکل ہندو سماج ہے کیا؟ ان مظاہروں کی قیادت کون کر رہے ہیں؟ تو پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی کے پاس 2014 انتخابات کے لیے مہاراشٹر میں کوئی فائر برانڈ لیڈر نہیں ہے اس لیے بدنام زمانہ ٹی وی اینکر سریش چوہانکے اور سابق بی جے پی لیڈر ٹی راجہ کو نفرت انگیز تقریر کا کام دیا گیا ہے اور یہ مہاراشٹرا میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے ریاست بھر میں ریالیاں کر رہے ہیں۔ ان ریالیوں میں ہندو راشٹرا، لو جہاد، لینڈ جہاد اور جبراً تبدیلی مذہب کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ہندو تنظیموں کی ایک تنظیم کی شکل میں ہے جسے سکل ہندو سماج کہا جاتا ہے۔ جو دائیں بازو کی کئی ہندو قوم پرست تنظیموں کا اتحاد ہے، جو پورے مہاراشٹر میں عوامی اجتماعات کو منظم کرنے میں مصروف ہے۔
24 مارچ کو، ناسک کا ہاتما اننت کنہرے میدان، جسے پہلے گالف کلب گراؤنڈ کہا جاتا تھا، زعفران سے رنگا ہوا تھا۔ جس میں کم از کم 10000 لوگوں کی حاضری کے ساتھ، سدرشن نیوز کے بانی اور چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے نے کہا۔ ”ہمارے خلاف 1,825 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ناسک میں اس ریالی کے بعد، یہ تعداد بڑھ جائے گی۔ لیکن ہم ڈرنے والے نہیں، یہ ساورکر کی سرزمین ہے“ چوہانکے نے کہا، جس کا نیوز چینل فرقہ وارانہ نشریات کے لیے بدنام ہے۔ اپنی ایک گھنٹہ طویل تقریر کے دوران، چوہانکے نے ‘لو جہاد’، ‘لینڈ جہاد’، جبراً تبدیلی مذہب کے بارے میں سازشی نظریات کے متعدد حوالہ جات اور 10نکات پیش کیے۔ان نکات کے مطابق مسلم خواتین کو بتایا گیا کہ ہندو مردوں سے شادی کرنا کیوں بہتر ہے۔ یہ ریالی، چوہانکے، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے معطل ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ، اور سکل ہندو سماج نامی تنظیم سے وابستہ کئی دیگر افراد کے خلاف اورنگ آباد ضلع کے چار مختلف تھانوں میں متعدد ایف آئی آر درج کیے جانے کے چند ہی دن بعد سامنے آئی ہے۔ اورنگ آباد کے کرانتی چوک پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی ایف آئی آر میں، چوہانکے اور سنگھ پر دفعہ 153 (فساد برپا کرنے کے ارادے سے اکسانا)، 153A (مذہب، نسل،علاقائی تعصب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت کیس بھی درج کیا گیا تھا۔ تعزیرات ہند کے 34 (مشترکہ ارادے سے متعدد افراد کی طرف سے مجرمانہ فعل) اور 505 (عوام میں خوف یا خطرے کی گھنٹی پھیلانے کے ارادے سے بیانات، رپورٹس یا افواہیں پھیلانا)۔
تاہم، چوہانکے اور اس کا گروپ اس شکایت سے بے پرواہ رہا اور ایک ہفتے کے اندر ناسک میں اسی طرح کی ریالی کا اہتمام کیا۔غور طلب ہے کہ اورنگ آباد میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ جب بھاگیتوشر جوشی نامی ایک شخص، جس نے سکل ہندو سماج نامی تنظیم کی رابطہ کمیٹی کا رکن ہونے کا دعویٰ کیا تھا، ایک عوامی ریالی کی اجازت لینے کے لیے آیا تو اورنگ آباد پولیس نے امن و امان کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ایف آئی آر میں کہا گیا، "تنظیم، تاہم، ریالی کے ساتھ آگے بڑھی جس میں تقریباً 15,000-20,000 لوگ موجود تھے۔”اس کے بعد اس ریالی سے واپس آنے والے مشتبہ افراد کے ذریعہ مبینہ طور پر فسادات اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات پیش آئے کیوں کہ ریلی میں، اقلیتوں کو نشانہ بنانے والی فرقہ وارانہ تقریریں چوہانکے اور ٹی راجہ نے کیں۔“ اورنگ زیب کی قبر میں کوئی لاش نہیں ہے، مرہٹوں نے اس کے ساتھ وہی کیا جو امریکہ نے اسامہ بن لادن کے ساتھ کیا تھا،” چوہانکے نے تاریخ کے مصنفین کو اپنی قبر کھودنے کا چیلنج دیتے ہوئے دعویٰ کیا۔
دوسری طرف ٹی راجہ نے اپنی تقریر میں مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ میں ان تمام غداروں کو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ لو جہاد کی اس سازش کو اب بند کر دینا چاہیے ورنہ ہم ہندو۔ تعداد میں 100 کروڑ ہیں، اگر ہم اپنا جہاد کریں تو آپ کو شادی کے لیے لڑکیاں بھی نہیں ملیں گی۔ان ریالیوں کے بعد پورے مہاراشٹرا میں حالات کشیدہ ہوئے اور اسی کے نتیجے میں گزشتہ دو دن قبل اورنگ آباد میں فسادات ہوئے۔ ان ریالیوں سے قبل اورنگ آباد میں امن قائم تھا۔ ایس آئی ڈی کی رپورٹ کے مطابق پہلے ہی کہا گیا تھا کہ نام تبدیلی اور ہندو مورچہ کے بعد شہر میں تناؤ کا ماحول بنا تھا، لیکن پولیس بھی کارروائی کرنے سے قاصر ہے کیوں کہ نفرت پھیلانے والے اکثریتی فرقے سے اور برسراقتدار بی جے پی کے قریبی ہیں۔ سیاسی سرپرستی کے بغیر ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے۔ اور جب کہ ہم ریاست میں بی جے پی۔ ایکناتھ شندے کی حکومت کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پچھلے کچھ مہینوں میں ان ریالیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ رہے ہیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ماضی میں کانگریس اور این سی پی نے سمبھاجی بھڑے جیسے ہندوتوا کے سخت گیر لوگوں کی پرورش کی تو کہیں نہ کہیں ان دو نفرتی کیڑوں کی پرورش سیاسی آقاؤں کی طرف سے کی جارہی ہے اور یہ اپنے ایجنڈے کو دھیان میں رکھ کر کرتے ہیں۔ پہلے جو ہندو راشٹر کی بات دبی دبی آتی تھی، اب بی جے پی کے کئی لیڈروں کی باتوں کے بین السطور میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ ہندو راشٹر، گھر واپسی مہم، لو جہاد کو اگر براہ راست نہیں تو کم از کم بلاواسطہ تو حمایت حاصل ہے، جیسا کہ ٹائمز آف انڈیا نے بی جے پی کے لیڈروں کے حوالے سے یہ بتایا تھا کہ وزیر اعظم گھر واپسی مہم کے خلاف نہیں ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ان کی ناراضگی کی خبر میں بہت زیادہ دم نہیں ہے، یہ بہت ممکن ہے کہ گھر واپسی مہم کے طریقوں کو وہ پسند نہ کرتے ہوں، یا وقت سے کچھ پہلے اسے شروع کر دیا گیا ہو، ورنہ گرو گولولکر جن سے وزیر اعظم نریندر مودی حدرجہ متاثر ہیں تو ان کے شاگرد دیویندر فڑنویس اور ایکناتھ شندے کیسے محروم رہ سکتے ہیں۔ ابھی راہول گاندھی کے ساورکر والے بیان نے سیاسی بھونچال پیدا کیا ہے، اسی طرح گھر واپسی مہم اور ہندو راشٹر پر زور دیا گیا ہے، اس کے مدنظر یہ بات نا قابل فہم ہے کہ سنگھ کا کوئی پر چارک کیسے مختلف زاویے سے سوچ سکتا ہے، اور الگ راہ پر جا سکتا ہے کوئی لیڈر ایسا خیال بھی لا لے تو اسے گھر کا راستہ دکھا دیا جائے گا جس طرح ایل کے اڈوانی، نتن گڈکری اور سبرامنیم سوامی کو سائڈ لائن کیا گیا۔بہرکیف ملکی سطح پر مذہبی آزادی کے سلسلے میں جو ذہن اور ماحول بنا ہوا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ پرست حکومتیں ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہیں، پھر ہندو راشٹر کی مانگ ہو یا گھر واپسی مہم کا طریقہ ہو یہ اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔