شمالی بھارت

سہارنپور: مولانا محمود حسن گورنمنٹ میڈیکل کالج کا نام تبدیل کرنے سے یوگی کا انکار

خود بی جے پی کے مقامی قائدین اور ورکرس نے اس کالج کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ذرائع نے جمعہ کو بتایا کہ یوگی نے یہ مطالبہ قبول نہیں کیا ہے۔

سہارنپور: اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے سہارنپور کے مولانا محمود حسن گورنمنٹ میڈیکل کالج کا نام تبدیل کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا محمود حسن مجاہد آزادی تھے، حکومت ان کے نام پر قائم ادارے کا نام تبدیل نہیں کرے گی۔  

خود بی جے پی کے مقامی قائدین اور ورکرس نے اس کالج کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ذرائع نے جمعہ کو بتایا کہ یوگی نے یہ مطالبہ قبول نہیں کیا ہے۔

مولانا محمود حسن (1851–1920) دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم تھے اور وہ اسی ادارے کے تیسرے صدر مدرس (ہیڈماسٹر) بھی بنے۔ وہ 26 مئی 1866 کو دیوبند میں قائم ہونے والے دارالعلوم کے بانی مولانا قاسم نانوتوی کے شاگرد تھے۔ مولانا محمود حسن 1890 میں دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس بنے۔

سہارنپور میں گورنمنٹ میڈیکل کالج سابق بی ایس پی حکومت کی وزیر اعلی مایاوتی نے قائم کیا تھا۔ مایاوتی حکومت نے اس کا نام ’کانشی رام گورنمنٹ میڈیکل کالج‘ رکھا تھا۔ کالج کا افتتاح اکھلیش یادو کی حکومت میں ہوا تھا۔ افتتاحی تقریب میں موجود ملائم سنگھ یادو نے جمعیۃ علماء ہند کے رہنما مولانا ارشد مدنی اور دارالعلوم کے شیخ الحدیث کے مطالبے پر اس کالج کا نام بدل کر مولانا محمود حسن گورنمنٹ میڈیکل کالج رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

یہاں ایک بار پھر اس کالج کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ تیز ہو گیا تھا، لیکن وزیر اعلیٰ یوگی نے اس کا نام تبدیل کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ یوگی حکومت کے اس فیصلے سے دارالعلوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

1919 میں مولانا محمود حسن نے مہاتما گاندھی کے ساتھ مل کر دیوبندی علمائے کرام کی کال پر جنگ آزادی میں قیادت کی تھی جس میں مولانا حسین احمد مدنی ایک اہم شخصیت تھے۔ خاص بات یہ ہے کہ جب 1947 میں ہندوستان آزاد ہوا اور ملک تقسیم ہوا تو اس وقت دارالعلوم کے مولانا قاری محمد طیب (1897-1983) دارالعلوم کے مہتمم کے طور پر کام کر رہے تھے۔

تقسیم ہند کے وقت مولانا قاری طیب پاکستان چلے گئے لیکن صدرمدرس اور مجاہد آزادی حسین احمد مدنی نے وزیراعظم جواہر لعل نہرو پر دباؤ ڈالا کہ انہیں پاکستان سے واپس لایا جائے اور دوبارہ قاری طیب صاحب نے دارالعلوم کا کام دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ 1981 تک اس عہدے پر رہے۔ واضح رہے کہ دارالعلوم دیوبند تعلیم کا وہی مرکز ہے جس میں 1946 تک دارالعلوم کے طلبہ کھادی اور گاندھی ٹوپی پہنتے تھے۔

a3w
a3w