سیاسی بنیادو ں پر کیے جانے والے تقررات

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ہندوستانی دستور کے مطابق گورنر کسی بھی ریا ست کا دستوری سربراہ ہوتا ہے۔ اس کے تقرر کے سلسلے میں بھی دستور میں رہنمایانہ اصول بیان کر دیے گئے ہیں۔ا س میں سب سے اہم یہ ہے کہ گورنر کا عہدہ ایسی شخصیت کو دیا جائے جس کا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہ ہو اور نہ وہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لیتا ہو، لیکن اب سیا سی وفاداری کی بنیاد پرگورنروں کا تقررہورہا ہے۔ گزشتہ دنوں جن چھ گورنرو ں کے ناموں کا اعلان کیا گیا ان میں چارکا تعلق بی جے پی سے ہے۔اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جا تی ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت گورنر کے عہدے کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر نا چاہتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اب عدلیہ کو بھی اس معاملے میں گھسیٹ لیا گیاہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس عبدا لنذیر کو بھی ان کی وفاداری کا صِلہ عطاکر تے ہوئے ریاستِ آندھرا پردیش کے گورنر کے عہدے پر فائز کیا گیا ۔ جسٹس عبد النذیر بابری مسجد۔ رام جنم بھومی کیس کی سماعت کرنے والی سپریم کورٹ کی اس پانچ رکنی بنچ میں شامل تھے جس نے سارے تاریخی ثبوتوں کے باوجود آستھا کی بنیاد پر اپنا فیصلہ دیتے ہوئے انصاف کا خون کر دیا۔ جسٹس عبد النذیر نے اپنا اختلافی فیصلہ دینے کی بھی جرات نہیں کی۔ موصوف تین طلاق کیس پرفیصلہ سنانے والی بنچ کے بھی رکن تھے۔ اس کیس میں شریعت اسلامی کے خلاف فیصلہ صادر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایک ہی نشست میں دی جانے والی تین طلاق کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے قابل سزا جرم قرار دے دیا۔ اس فیصلہ کے بعد سے کئی مسلم خاندانوں کو نا قابلِ بیان مسائل سے دوچار ہونا پڑا اور اب بھی کئی مسلمان اپنی بیویوں کو تین طلاق دینے کی وجہ سے جیلوں میں بند ہیں۔ پولیس کی ہراسانی کا بھی ایسے خاندان شکار ہو رہے ہیں۔ تین طلاق کا مسئلہ ایک شرعی مسئلہ ہے ۔ اس کو شریعتِ اسلامی کے تحت حل کرنے کے لیے مسلمانوں کے معتبر اور مستند علماءسے سپریم کورٹ کو رائے لیناچا ہیے تھا،لیکن سپریم کورٹ نے شریعت اسلامی کی من مانی تشریح کر تے ہوئے ایک ایسا فیصلہ دیا جو مسلمانوں کی شریعت میں کھلی مداخلت مانا جا رہا ہے۔ افسوس کہ اس متنازعہ فیصلہ کے دینے والوں میں جسٹس عبد النذیر بھی شامل ہیں۔ اسی طرح نومبر 2016میں وزیراعظم نریندرمودی نے اچانک نوٹ بندی کا جو اعلان کیا تھا اور جس سے ہزاروں لوگ پریشان ہوگئے تھے اور کئی کی جانیں بھی گئی تھیں۔ وزیراعظم کے اس بیک جننش قلم کیے جانے والے اقدام پر مہر تصدیق لگانے والے جج صاحبان میں جسٹس عبدالنذیر کا نام بھی شامل ہے۔ ان سارے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی یہ کہتاہے کہ گورنر کا عہد ہ اب سیاسی وفاداریوں کی بنیاد پر دیا جا رہا ہے تو اس میں غصہ آنے والی کیا بات ہے۔ جسٹس عبد النذیر پہلے شخص نہیں ہیں جنہیں مودی حکومت نے سرفرازکیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ، جسٹس گوگوئی کو تو ریٹائر منٹ کے فوری بعد راجیہ سبھا کی رکنیت دے دی گئی۔ آخر یہ انعام کس صِلہ میں دیا گیا؟ جسٹس گوگوئی سپریم کورٹ کی اُ س دستوری بنچ کے سربرا ہ تھے جس نے 9 نو مبر 2019کو بابری مسجد کے خلاف فیصلہ دیاتھا۔ جسٹس عبدا لنذیر کو گورنر کے عہدہ پر فائز کرنے کا معاملہ ہو یا جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا کی رکنیت دینے کی بات ہو ، یہاں ان کی شخصی قابلیت پر سوال نہیں اٹھایا جا رہا ہے بلکہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اب حکومت عدلیہ کو بھی اپنے شکنجہ میں لینے میں کا میاب ہو گئی ہے۔ اس سے حکومت کے سیاسی عزائم تو پورے ہو ں گے لیکن ملک میں جمہوریت ڈانواڈول ہوجائے گی ۔ ملک کے باو قار عہدو ں پر اگر ریٹائرڈججوں کی تقرری کا یہ عمل جا ری رہے گاتو پھر بر سرِ خدمت جج صاحبان بھی اپنے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کی مرضی کے مطابق فیصلے دینے میں ایک ووسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر یں گے۔ اس سے عدلیہ کا جو وقار متاثر ہوگا اور ملک میں قانو ن کی حکمرانی کو جو خطرات لاحق ہوں گے اس کا اندازہ شاید عام شہریوں کے بس کی بات نہیںہے، لیکن دستور اور قانون کے جاننے والے جانتے ہیں کہ اس سے ملک کی جمہوریت کی بنیادیں کھوکھلی ہوجائیں گی۔ موجود ہ حالات میں جب کہ مقننہ اور عاملہ سے عوام کی توقعات پوری ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں، عدلیہ پر بھی حکومت کی مرضی چلنے لگے تو پھر ملک میں جمہوریت کے بجائے مطلق العنانی کا دور شروع ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ میں منظور کیے جانے والے کئی متنازعہ قوانین اور حکومت کی جانب سے ا ن پر عمل آوری سے یہ توظاہر ہورہا ہے کہ اب ملک میں جمہوریت کا چلن برائے نام رہ گیا ہے۔ عدلیہ کوبھی اپنے کنٹرول میں لینے کے بعد رہی سہی جمہوریت کا جنازہ بڑی دھوم سے نکالنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی مراعات کی دوڑ میں سب ہی جج صاحبان شامل ہو جائیں گے اور اس کا اثر یقینی طور پر ا ن کی جانب سے دیے جا نے والے فیصلوں پر پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے اپوزیش پارٹیوں اور خاص طور پر کانگریس نے جسٹس عبدالنذیر کے گورنر بنائے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس روایت کو عدلیہ کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ یہ روایت جاری رہے گی تو عدلیہ کی آزادی اور اس کی غیر جانبداری کو باقی رکھنا ممکن نہ ہو گا۔عوام کا اعتماد بھی عدلیہ کے تئیں متزلزل ہوجائے گا۔ ملک کی آزادی کے 75سال بعد کم از کم یہ کہا جا سکتا کہ ملک میں بھی عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ عدلیہ ، حکومت کا تیسرا اہم عنصرہے اور دستور کے بنیادی ڈھانچہ کا حصہ ہے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے ججس کو وظیفہ کے بعد ملنے والے مالی فوائد اور سہولتو ں کا مز ہ لگ جائے تو پھرا س بات کے امکانات بڑھ ئیں گے کہ و ہ حکومت کو خوش کرنے والے فیصلے دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔باوقار عہدوں پراس انداز سے تقرری سے یہی اشارے ملتے ہیں کہ موجود ہ حکومت اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے، لیکن ملک کے وسیع تر مفاد میں حکومت کے ا ن فیصلوں کو درست قرار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جمہوری نظام کی بقاءکے لیے جمہوری ادارو ں کو آزادانہ طور پر کام کرنا ضروری ہے۔ لیکن موجودہ حکومت ہر جمہوری اور دستوری ادارے کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ بی جے پی حکومت نے اپنی دوسری معیاد کے دوران ملک کے پورے تنظیمی ڈھانچہ کو جس انداز میں کمزور کیا ہے، اس کی مثال سابق میں نہیں ملتی۔ سب سے پہلے الیکشن کمیشن کو حکومت کی مرضی پر چلنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ ہندوستان میں ہونے والے الیکشن پہلے مثالی ہو تے تھے ۔ لیکن اب الیکشن کمیشن کی شفافیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ باور کیا جا رہا ہے الیکشن کمیشن غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے میں ناکام ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کی مرضی سے الیکشن کا وقت اور تاریخیں طے ہو رہی ہیں۔ ملک کی تفتیشی ایجنسیو ں کا بھی غلط استعمال ہو رہا ہے۔ انکم ٹیکس، ای ڈی اور سی بی آئی کے دھاوے ا ن پر کیے جا رہے جن سے حکومت ناراض ہے۔ اپوزیشن کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے ان کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ انتہا یہ کہ بی بی سی کے دفا تر پر گز شتہ دنوں انکم ٹیکس کے چھاپے پڑے۔ بی بی سی کا قصور یہ ہے کہ اس نے 2002 کے گجرات فسادات پر ایک ڈاکو منٹری تیار کی۔ اس میں بتایا گیا کہ کس طرح اُ س وقت بے قصور مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا۔ گجرات کی اُ س وقت کی حکومت کی کارستانیوں کو بی بی سی نے بے لاگ انداز میں پیش کر دیا۔ اس سے چراخ پا ہو کر انکم ٹیکس عہدیدار بی بی سی دفاتر میں گھس گئے۔
ملک کے میڈیا کو بھی خرید لیا گیا۔ قومی میڈیا عوام کے مسائل کو پیش کرنے کی بجائے مودی حکومت کی تعریف میں لگا ہوا ہے۔ حکومت کی کمزوریوں کو عوام کے سامنے لانے کی بجائے حکومت نوازی اب میڈیا کا مزاج بن چکا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت میڈیا حکومت کا ترجمان بن چکا ہے۔ ایسے صحافی جو اپنی آزادانہ سوچ رکھتے ہیں اور اپنے ضمیر کو بیچنے کے لئے تیار نہیں ہیں اب ان کو اس پیشہ کو خیرآباد کرنے کی نوبت آگئی ہے یا پھر حکومت کا عتاب سہنے کے لیے تیار رہنا پڑرہا ہے۔ غرض یہ کہ ہر شعبہ حیات میں حکومت کا عمل دخل اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہر کام حکومت کے اشاروں پر ہو رہا ہے۔ عدلیہ وہ آخری ادارہ بچا تھا جس سے کچھ امیدیں وابستہ تھیں۔ لیکن حالیہ تقررات کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ شعبہ بھی حکومت کے دباو¿ میں آ گیا ہے۔ سابقہ ججوں پر حکومت کی نوازش ، موجودہ ججوں کی کارکردگی پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ وہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ حکومت کی مرضی کے مطابق فیصلے دیں تو بعد میں اعلیٰ منصب کا حصول ممکن ہے۔ یہ سوچ ہرسطح پر عام ہوجائے تو ہندوستانی جمہوریت بکھر جائے گی۔ مسئلہ قابل افراد کے تقرر کا نہیں ہے بلکہ جن اصولوں کو بنیاد بنانا چاہیے تھا،اس کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ گورنر کے عہدہ کے لیے سیاسی تجربہ سے زیادہ کسی دوسرے شعبہ میں ممتاز حیثیت رکھنا ہے۔ سابق میں ایسی شخصیتوں کو یہ عہدے دیے جا تے تھے جو تعلیم ، سائنس، معاشیات یاسماجی خدمت کے شعبوں میں اپنی خدمات کا ایک ریکارڈ رکھتے تھے، لیکن اب گورنر کا عہدہ سیاسی بازآبادکاری کا ذریعہ بن چکا ہے۔ عام انتخابات میں ناکام ہونے والوں کو گورنر بنایا جا رہا ہے۔ قابلیت سے زیادہ بر سر اقتدار پارٹی سے وفاداری کی بنیاد پر یہ عہدے دیے جا رہے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے ایسے افراد کو یہ منصب عطا کیا ہے جو کھلے عام قانون کی خلاف ورزی کر تے ہیں۔ گزشتہ تین ، چار سال کے دوران جن گورنروں کا تقررہوا ان کے تعلق سے یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ سب سیاسی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ ریاستی حکومتوں سے مشورے کے بغیر گورنروں کی تعیناتی ہو رہی ہے۔ اس سے ریاستی حکومت اور گورنر کے درمیان ہمیشہ ٹکراو¿ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی مثال کیرالا، تامل ناڈو، مغربی بنگال اور تلنگانہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ کیرلا کے گورنر عارف محمد خان ایک سیاسی شخصیت ہیں۔ کانگریس میں لمبے عرصہ تک مرکزی وزیر رہ چکے ہیں۔ شاہ بانو مقدمہ میں ان کا موقف مسلمانوں کے متفقہ موقف سے الگ رہا اورجب کانگریس سے ان کی علیحدگی ہو گئی تو موصوف گم نام ہو گئے تھے۔ جب بی جے پی کا دامن تھام لیے تو گورنر بنا دیے گئے اور اپنی وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے وہ ہمیشہ بی جے پی کی تائید کر تے رہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے وہاں کے گورنر نے جو دستوری خلابازیاں کھائیں وہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ تلنگانہ کی بر سر اقتدار پارٹی بی آر ایس کو شکایت ہے کہ ریاست کی گورنر اپنے دستوری حدود کو پھلانگ رہی ہیں۔ یہ ساری شکایتیں اس وقت ہوتی ہیں جب گورنر اپنے دستوری مرتبہ کا لحاظ نہیں رکھتے۔ اسی لیے بعض اپوزیشن پارٹیوں کا اصرار ہے کہ گورنر کے عہدے کو برخاست کر دیا جائے۔ سابق متحدہ آندھراپردیش کے چیف منسٹر اور تلگو دیشم پارٹی کے بانی صدر آ نجہانی این ٹی راما راو¿ نے بہت پہلے اس عہدہ کو ختم کرنے مطالبہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ این ٹی آر کی حکومت کو اکثریت ہونے کے باوجود اُ س وقت کے گورنر رام لال نے برخاست کر دیا تھا۔ این ٹی آر نے اس کے خلاف پوری ریاست میں ایک ہنگامہ مچا دیا تھا، جس کے نتیجہ میں اندرون ایک ماہ پھر سے ان کی حکومت بحال کردی گئی۔ گورنروں کے تقرر میں دستور ی تقاضوں کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا تو ایسی صورت حال پھر سے پیدا ہو سکتی ہے جس سے ملک میں دستوری بحران پیدا ہوجائے گا۔