مذہب

سیلاب میں بہہ کر آنے والی چیز کا حکم

اگر کوئی لینے والا نہیں آئے تو کچھ عرصہ انتظار کرکے صدقہ کردیناچاہئے، اور اگر خراب ہوجانے والی شئے ہو ،تو اگرفوری طورپر اس کا طلب گار آئے تو اسے دیدیں اور نہیں آئے تواس کوفروخت کرکے قیمت محفوظ رکھی جائے

سوال:- ابھی چند ماہ پہلے بہار و بنگال کے نیپال سے متصل علاقوں میں بہت بھیانک سیلاب آیا تھا ، اس میں بہت سی چیزیں بہہ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ چلی گئیں ، نہ اس کے مالک کا پتہ ہے اور نہ کوئی اس کا طلب گار ہے ، جس شخص کو یہ چیز ملے ،اس کا کیا حکم ہے ؟ (محمدابرار،مہاراشٹر)

جواب :- سیلاب میں بہہ کر آنے والی چیزیں اگرایسی ہیں جو بیچی نہیں جاتیں، اوران کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ، ان کو استعمال کرلینا جائز ہے ،

جیسے ایسی جنگلی لکڑیاں یا گھاسیں ، درخت کے پتے وغیرہ جنھیں بیچا نہیں جاتا، اور اگر ایسی چیز ہوجو قیمت والی سمجھی جاتی ہو اور جس کی خرید و فروخت ہوتی ہو تو وہ لقطہ یعنی ایسی گری پڑی چیزوں کے حکم میں ہے ،

جو راستوں میں مل جاتی ہے ، اب اگر وہ دیر پا شئے ہے کہ اس کے خراب ہوجانے کا اندیشہ نہیں ہے، جیسے کار آمد لکڑیاں ، برتن وغیرہ تو ان کو محفوظ رکھناچاہئے ،

اور اگر کوئی لینے والا نہیں آئے تو کچھ عرصہ انتظار کرکے صدقہ کردیناچاہئے، اور اگر خراب ہوجانے والی شئے ہو ،تو اگرفوری طورپر اس کا طلب گار آئے تو اسے دیدیں اور نہیں آئے تواس کوفروخت کرکے قیمت محفوظ رکھی جائے،

پھراگراتنادن گذرجائے کہ مالک کے آنے کی توقع نہیں رہے تو صدقہ کردیا جائے :

’’ وإن کان لہ قیمۃ یکون لقطۃ وحکم اللقطۃ معلوم‘‘ ( مجمع الضمانات: ۲۱۰) ’’ … لو کانت مما لا یبقی باعھا بامر القاضی ثم حفظ ثمنھا‘‘ ۔ (مجمع الانہر : ۱؍۷۰۶)