ذکی نور عظیم
وطن انسان کی مستقل رہائش گاہ، اس کی تعلیم و تربیت کا اولین مرکز، اس کی جائے پیدائش، اس کی نشو نما اور تعمیر و ترقی کاپہلا زینہ اور بیشترحالات میں اس کا مدفن ہونے کی وجہ سے بیحد عزیز ہوتا ہے اور بیشتر انسانوں کو اس سے بیحد لگاوٓ اور محبت ہوتی ہے۔ یہ محبت زندگی کے کسی خاص مرحلہ کی محتاج یا اس کا تعلق اسباب و علل سے نہیں ہوتا بلکہ یہ خالص انسانی فطرت اور طبعی رجحان سے تعلق رکھتا ہے، اسی وجہ سے تقریباً ہر شخص کو اپنے وطن سے محبت اور اس کی ہر چیز سے اپنائیت اور لگاوٓ ہوتا ہے، وہ اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنی صلاحیتوں اور خدمات کو بروئے کار لانا اپنے لیے باعث فخر سمجھتا ہے۔ وہاں امن و سلامتی اور پیار ومحبت عام کرنے کے لیے کبھی صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتا ہے تو کبھی ایثار و ترجیح کا مزاج اپناتا ہے، آپسی اور باہمی تعلقات کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اس کو اپنی ملکی اور سماجی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فطری اور طبعی فریضہ مانتا ہے۔ وطن سے محبت چھوٹے بڑے امیر، غریب ، حکمراں و عوام غرض سماج کے ہر فرد کو ہوتی ہے۔ علوم اسلامی اور مذاہب و ادیان کا طالب علم ہونے کی وجہ سے میری نظر میں کائنات میں انبیاءکرام سے زیادہ برتر کوئی نہیں۔ جب ہم وطن کے نقطہ نظر سے ان کی سیرت کا جائزہ لیتے ہیں تواندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی وطن سے محبت کوئی ڈھکی چھپی اور معمولی نہیں۔ لہٰذا پہلی وحی کے بعد جب آپ کی زوجہ حضرت خدیجہؓ آپ کو اپنے چچا زاد رشتہ دار ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور انہوں نے یہ خوش خبری دی کہ غار حرا میں آپ کے پاس آنے والے فرد سابقہ انبیاء اور حضرت موسیٰؑ کے پاس آنے والے فرشتہ حضرت جبرئیل ہیں اور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش میں اس وقت آپ کے ساتھ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی، یہ سنتے ہی آپ کو گہرا جھٹکا لگا اور وطن کی جدائیگی کے احساس کی وجہ سے ورقہ بن نوفل کے ساتھ رہنے کی خواہش اور پیشکش سے خوشی کے بجائے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ کیا میری قوم مجھے میرے وطن سے نکال دے گی؟۔ ہجرت کا اسلام میں بہت بڑا مقام اور رتبہ ہے، اس کی وجہ سے سابقہ سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور دیگر بیشمار اجر و ثواب اور دینی و دنیوی مصالح و مفاد بھی اس سے وابستہ ہیں۔ آپ نے اس وقت تک خود ہجرت کا سفر نہیں کیا جب تک اللہ تعالی کی طرف سے صراحتاً مدینہ ہجرت کی اجازت نہیں مل گئی، لیکن اس سرزمین سے رخصت ہوتے ہوئے آپ کی زبان مبارک سے وطن سے محبت اور اس سے اپنائیت اور لگاﺅ کا اظہار ان کلمات کے ذریعہ ہوا کہ ” اے مکہ کی سرزمین! تو کتنی مقدس اور مجھے کتنی محبوب ہے، اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہیں رہتا “ یعنی اپنے وطن میں ہر طرح کی آزمائش اور پریشانیوں اور اللہ کی جانب سے ہجرت کی اجازت اور حکم، اسی طرح اس پر بے شمار اجر و ثواب اور دینی و دنیوی فوائد و مصالح کے باوجود وطن کی جدائیگی میں آپ کی زبان سے وہ کلمات نکلے جو آپ کے انتہائی رنج و الم اور وطن سے بے حد محبت و اپنائیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ میری نظر میں یہ تو دنیا کی سب سے عظیم شخصیت کا واقعہ تھا، لیکن اگر اقوام عالم کا جائزہ لیا جائے تو شاید بیشتر لوگوں کو اپنے ملک اور وطن سے طبعی طور پر ایسا لگاو¿ ہوتا ہے کہ وہاں سے جدائی کا تصور ایک بہت بڑا المیہ ہوتا ہے۔ جہاں تک ہمارے وطن عزیز ہندوستان کا تعلق ہے تو یہاں کے باشندوں کو اپنے ملک سے بے انتہا محبت، تعلق اور اپنائیت ہوتی ہے، وہ اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کو معمولی سمجھتے ہیں اور اس کی ترقی و خوشحالی کے لیے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر ہر طرح کی ایثاروترجیح کا ثبوت دیتے رہتے ہیں، لیکن گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں پیش کردہ اس رپورٹ نے ملک سے محبت کے دعوﺅں کو چیلنج کردیا جس میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ پچھلے ۱۱ برسوں میں ہندوستان کی شہریت کو خیرباد کہہ کر دوسرے ممالک میں جا بسنے والے افراد کی تعداد 16لاکھ سے تجاوز کرگئی۔اور صرف 2022ء میں(2,25,620لاکھ) شہریوں نے دوسرے ممالک کی شہریت اختیارکی یعنی اوسطاً روزانہ 618 اور ہر گھنٹہ 26 لوگوں نے ہمیشہ کے لیے وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا، اور یہ کہ 2014 کے بعد اس میں نمایاں طور پر اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی بھی شخص خوشی سے اپنا وطن چھوڑنا نہیں چاہتا توآخرہندوستانی شہری اپنے وطن کی شہریت کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں جن میں دوسرے ملکوں میں امن و سلامتی کا بہتر ماحول ، نوکری اورملازمت کے زیادہ مواقع ،وہاں بہتر سہولیات کی فراہمی ،زندگی کا معیار بلند ہونا، بہتر تعلیم اور اس میں اچھی کارکردگی ،ملازمت کے لیے ماحول اور تنخواہ کا اچھا ہونا، تعلیم کے بعد نوکری کے زیادہ مواقع وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح شہریت چھوڑنے کے پیچھے یہاں امن عامہ کی بگڑتی صورت حال، بڑھتی مہنگائی، تعلیم اور روزگار کے مواقع کی کمی، پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں69ویں مقام پر ہونا اور اس کی وجہ سے مختلف ممالک کے سفر میں کئی قسم کی دشواریاں، سیاسی، سماجی اور اقتصادی ماحول کا اچھا نہ ہونا، جرائم میں تیزی سے اضافہ ہونا وغیرہ بھی ہوسکتا ہے۔ جو بھی وجوہات ہوں حکومت کو وطن سے شہریوں کی دلچسپی کم ہونے پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنا چاہیے،خاص طور پرپچھلے 22 سال سے اسرائیل میں مقیم سینئر صحافی ہریندر مشرکی اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ” میں انڈیا سے جذباتی طور پر اتنا جڑا ہوں کہ وہاں کی شہریت چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن اس کے علاوہ مجھے وہاں کی شہریت سے اور کوئی فائدہ نہیں“، اسی طرح شہریوں کو بھی جلد بازی میں شہریت چھوڑنے کے بجائے سوچ سمجھ کر قدم ا±ٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس پس منظرمیں حکومت کو اپنے ان دعووں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ این ڈی اے حکومت میں بھارت دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے ترقی کرنے والا ملک بن گیا ہے، اس نے نہ صرف میکرو اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کیا، بلکہ معیشت کو زیادہ تیز ی سے ترقی کر نے والی راہ پر گا مزن کیا ہے، بھارت کی جی ڈی پی کی شرح دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے تیز تر شرحِ ترقی ہے اور یہ کہ اب بھارت کو برکس کے ترقی کے انجن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، یہاں کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اس قدر اضافہ ہوا ہے جو کسی بھی عالمی بحران کی صورت میں یہاں کے تحفظ کے لیے کافی ہے۔ مذکورہ بالا دعووں کی حقیقت کیا ہے؟کہ اس کے باوجود وطن کی شہریت چھوڑ نے کے لیے اس قدر بھگدڑ مچی ہوئی ہے حالانکہ ہر انسان کو اپنے وطن سے طبعی اور فطری محبت ہوتی ہے۔