سیاستمضامین

شہر کے اطراف افتادہ اراضیات کے پلاٹس پر قبضہ روز کا معمول بنتا جارہا ہے ‘لینڈ گرابرس اور مقامی پولیس میں ساز باز واضح نظر آرہا ہےپلاٹس کے اطراف حصار بندی اور بورڈ آویزاں کرنے کی رائے

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ سب سے زیادہ متاثرین کے پاس صرف نوٹری دستاویزات ہیں۔
٭ پرانی تاریخ کے اسٹامپ پیپر پر پرانی تاریخ کا معاہدۂ بیع بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔
٭ پولیس لینڈ گرابرس کا ساتھ پرانی تاریخ کے دستاویز کی اساس پر دیتی ہے۔
٭ لاکھوں کروڑ روپیہ مالیتی پلاٹس خطرے میں پڑے ہوئے ہیں۔
ایسی بہت سی شکایتیں آرہی ہیں جن میں کہا جارہا ہے کہ ان کے زرخرید اراضیات کے پلاٹس پر اجنبی لوگوں کا قبضہ ہوچکا ہے اور ایسے پلاٹس پر ان لوگوں نے اپنے نام کی سائن بورڈ آویزاں کردیئے ہیں۔ حقیقی مالک پلاٹ کو علم اس وقت ہوتا ہے جب وہ کئی سال یا مہینوں بعد اپنے پلاٹس کو دیکھنے جاتے ہیں۔ سائن بورڈ پر قابض کا ٹیلیفون نمبر بھی درج ہوتا ہے۔ جب ان لوگوں سے دریافت کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس پلاٹ کو میں نے چند سال قبل بذریعۂ نوٹری دستاویز اس کے مالک سے خریدا تھا اور میرے پاس اس کا ثبوت موجود ہے۔ جب پولیس سے رجوع ہوتے ہیں تو پولیس اس فرد کو ٹیلی فون کے ذریعہ کہتی ہے کہ آپ کے خلاف شکایت کنندہ نے درخواست پیش کی ہے اور آپ اپنے تمام ڈاکیومنٹس کے ساتھ پولیس اسٹیشن آئیں۔ وقتِ مقررہ پر وہ شخص حاضر ہوتا ہے اور ساتھ میں اس کے ساتھیوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اسٹیشن ہاؤز آفیسر اس کے کاغذات کا معائنہ کرتا ہے اور ساتھ ہی شکایت کنندہ کے دستاویزات بھی دونوں دعویداروں کی ملکیت کی اساس نوٹری دستاویزات ہوتے ہیں ‘ لیکن ناجائز قابض کی خرید کی تاریخ شکایت کنندہ کی خرید کی تاریخ سے پرانی ہوتی ہے لیکن فروخت کرنے والا کوئی دوسرا ہی شخص ہوتا ہے ۔ یہ بات کیسے ممکن ہوسکتی ہے کہ ایک ہی پلاٹ کو دو افراد کس طرح فروخت کرسکتے ہیں۔ دونوں دستاویزات میں جو سروے نمبر درج ہوتا ہے اس کا رقبہ کئی ایکر ہوتا ہے ‘ پولیس دونوں سے کہتی ہے کہ یہ معاملہ سیول نوعیت کا ہے اور یہی بات بہتر رہے گی کہ آپ سیول کورٹ سے رجوع ہوں لیکن پلاٹ کا موقف جوں کا توں برقرار رہے اور لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔ حقیقی خریدار جس کے 400 مربع گز اراضی کے پلاٹ کی قیمت لاکھوں میں ہے سراسر نقصان میں رہے گا۔ شکایت کنندہ کے پاس صرف ایک نوٹری دستاویز ہے اور فریقِ مخالف یا قابض نے اس پلاٹ کا اسسمنٹ بھی کروالیا اور اس کی درخواست پر اسے برقی بھی سپلائی کی گئی۔
اگر عدالت میں انجنکشن کا مقدمہ دائر کیا جائے تو توازن قابض کے حق میں جائے گا کیوں کہ اس کے پاس قبضہ کا ثبوت موجود ہے اور ساتھ ہی نوٹری دستاویز بھی۔ علاوہ ازیں اس کے پلاٹ کا اسسمنٹ بھی کیا گیا اور اس کے نام پر بجلی کا میٹر بھی ہے۔ جبکہ دوسری جانب حقیقی مالک کے پاس نوٹری دستاویز کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کچھ ماہ قبل یہی کیس ہمارے سامنے پیش ہوا تھا۔ موکل کو رائے دی گئی کہ اس اسٹامپ فروخت کنندہ کے پاس جاکر دریافت کریں کہ آیا اس نمبر کا اسٹامپ پیپر اسی کی دوکان سے فروخت ہوا تھا یا نہیں ‘ جب اسٹامپ فروش نے متعلقہ سال کے رجسٹر کو کھنگالا تو پتہ چلا کہ اسی اسٹامپ پیپر کو اسی تاریخ کے دن قابض کے نام پر فروخت کیا گیا تھا اور رجسٹر کے ایک طرف اس کے دستخط بھی ہیں۔ جب وہ صاحب اس تحقیق کے بعد دوبارہ آفس آئے تو حیرت سے کہنے لگے کہ واقعی اس تاریخ کو قابض نے وہ اسٹامپ پیپر خریدا تھا جو میری تاریخ خرید سے پہلے کا ہے۔ انہوں نے سخت حیرت کا اظہار کیا جس پر ہم نے کہا کہ ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی اور ایسے کئی واقعات بلکہ ان گنت واقعات ہمارے علم میں آچکے ہیں۔
ہوتا یوں ہے کہ بعض بدنیت اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد جن کی نگاہیں دوسروں کی جائیدادوں اور دولت پر ہوتی ہیں وہ اس قسم کے کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کی جائیدادیں ہڑپ کرلینے کا فن رکھتے ہیں اور ہمیشہ متعلقہ پولیس اور سیاسی لیڈرس سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر سال اپنے نام پر چار پانچ ایک سو روپیہ مالیتی اسٹامپ خرید کر گھر میں رکھ لیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسٹامپ پیپر کا رنگ بدل جاتا ہے اور وہ ہلکا زردی مائل ہوجاتا ہے۔ ان لوگوں کی نگاہیں افتادہ پلاٹس پر ہوتی ہیں جو بڑے سروے نمبرس کی اراضیات پر رہتے ہیں وہ دیکھتے رہتے ہیں کہ پلاٹ کا حقیقی خریدار اپنے پلاٹ کی نگرانی کرتا بھی ہے یا نہیں ۔
وہ لوگ دو ایک سال انتظار کرتے ہیں کہ دیکھیں کوئی آتا بھی ہے یا نہیں اور جب پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی نہیں آرہا ہے اور یہ پلاٹ صرف تجارت کی غرض سے خریدا گیا ہے تو یہ لوگ ایک دن میں اپنا کام کردیتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کئی افراد کئی پلاٹس کو اپنے ‘ اپنی بیوی اور بچوں کے نام پر خریدتے ہیں اور پیسے ادا کرنے کے بعد اور رجسٹریشن یا نوٹری دستاویزات کی تیاری کے بعد بالکل غافل ہوجاتے ہیں۔ ان میں اکثریت ایسے حضرات کی ہوتی ہے جو کئی کئی سال اپنی فیملی کے ساتھ باہر ممالک میں رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی جائیداد صحیح سلامت ہے اور ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ اس کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے لوگ اس رہنما اصول کو بھول جاتے ہیں کہ دولت‘ زمین اور عورت اپنا تحفظ چاہتے ہیں اور ان تینوں کو تحفظ فراہم نہ کیا جائے تو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ہمارے دین میں یہاں تک ہے کہ اپنے مال کی حفاظت میں لڑتے لڑتے مارے جائیں تو شہادت کا درجہ ملے گا لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ لوگ اس قسم کے دھوکے کیوں کھارہے ہیں۔
اگر پلاٹ کی نگرانی کی جائے اور اس کے اطراف حصار بندی کی جائے اور اپنے نام پر اسسمنٹ کرواکر برقی فراہم کروائی جائے اور کسی کو اس کی نگرانی پر مامور کیا جائے اور اپنے نام کا سائن بورڈ آویزاں کیا جائے تو ایسی صورتیں پیش نہ آسکیں گی۔ ایک قدم آگے بڑھ کر اگر کوئی انجنکشن کا دعویٰ(Collusion Suit) کے طور پر کسی جانے پہچانے شخص کے خلاف کیا جائے اور ایک (Compromise Decree) حاصل کرلی جائے تو ملکیت اور قبضہ مسلمہ ہوجائے گا۔ یہ ایک حفاظتی اقدام ہوگا اور ایسا کرنے میں کوئی برائی نہیں ۔ ایک مستقل انجنکشن آرڈر آپ کے قبضہ کو مستحکم کردے گا اور متذکرہ بالا فریب کاریوں کے لئے کوئی موقع نہ مل سکے گا۔
اگر تھوڑی سی محنت و جدوجہد کی جائے اور تھوڑا سا خرچ برداشت کیا جائے تو لاکھوں کروڑوں روپیہ مالیتی جائیداد غاصبوں کا لقمہ نہیں بن پائیں گی۔
موجودہ حالات میں جبکہ حیدرآباد کے اطراف اکثریتی طبقہ کا زور ہے اور ان تمام کے پیچھے بھارتیہ جنتا پارٹی کی طاقت ہے ‘ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ کچھ دنوں قبل ایک صاحب آئے اور ا نہوں نے شکایت کی کہ انہوں نے الماس گوڑہ نزد کتہ پیٹ ایک پلاٹ موازی400 مربع گز کئی سال قبل ایک کوآپریٹیو ہاؤزنگ سوسائٹی سے بذریعہ رجسٹری خریدا۔ پلاٹ کے اطراف کئی ہمہ منزلہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور یہ ایک ترقی یافتہ علاقہ ہے ۔ پلاٹ پر تین منزلہ کامپلکس بنانے کی غرض سے انہوں نے کئی لاکھ روپیہ (L.R.S) کی فیس ادا کی اور میونسپل کارپوریشن میں تعمیری اجازت کی درخواست پیش کی ۔
لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ زمین بے حد قیمتی ہے جس کی دونوں جانب سڑک ہے ۔ ایک مقامی بی جے پی غنڈہ پلاٹ پر بیٹھا ہوا ہے اور اپنے گرگوں میں گھرا رہتا ہے۔ اس کی ہمت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ بات کرنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کرتا۔ چاروناچار بے چارہ مالک پولیس سے رجوع ہوا اور شکایت پیش کی اور ساتھ ہی تمام دستاویزات بھی پیش کیں‘ لیکن پولیس ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ایک ہیڈ کانسٹبل نے کہا کہ یہ غنڈہ دلی تک پہنچا ہوا ہے اور زبردست سیاسی رسوخ کا حامل ہے ۔ آپ اگر چاہیں تو میرے توسط سے کوئی تفصیہ کرلیں ورنہ آپ کو کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
تو دیکھا آپ نے یہ عالم ہے افتادہ پلاٹس کا جن کے تحفظ کے کچھ خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے تھے۔
مظلوم کو رائے دی گئی کہ وہ سیول کورٹ سے رجوع ہوں۔ جلد یا بہ دیر بہرحال کامیابی ملے گی اوران کا پلاٹ ان کو واپس مل جائے گا۔ ساتھ ہی ان کو رائے دی گئی کہ اس غنڈہ اور پولیس اسٹیشن کے درمیان ساز باز کی بھی شکایت کیجئے۔ پولیس والوں کی جان ان کی نوکری میں ہوتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پولیس اسٹیشن کو واضح احکامات ملیں گے کہ ان کی اراضی کو غنڈوں سے چھڑوا کر ان کے حوالے کردیں۔ شکایت ڈائرکٹر جنرل آف پولیس کے روبرو کی جانی چاہیے۔
لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ کا واحد مقصد اسٹامپ ڈیوپی وصول کرنا ہے
مالکینِ جائیداد ہبہ میمورنڈم تیار کرواکر اپنا تحفظ کرسکتے ہیں
حکومت ہند کا اس نئے قانون سے صرف ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے اور وہ ہے موجودہ قیمت کے مطابق اسٹامپ ڈیوٹی کی وصولی۔ حکومتِ ہند اس مقصد کی تکمیل سے اتنی بڑی رقم کمانا چاہتی ہے جو مکمل ایک سال کے بجٹ کے برابر ہوسکتی ہے۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں اتنے بڑے ملک میں کتنی زرعی ‘ دیہی اور شہری جائیدادیں ہوں گی جن کا ٹائٹل حکومت ہند دے گی اور اسٹامپ ڈیوٹی حاصل کرے گی۔
اس مقصد کی تکمیل کو روکنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ صرف اور صرف ہبہ میمورنڈم کی تیاری کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس قانونی موقف کو ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے نے تسلیم کیا ہے۔ اس عمل کے بعد ٹائٹپ مکمل ہوجائے گا اور کوئی بھی خامی نہیں رہے گی۔
لہٰذا اس سے پہلے کہ دفاتر قائم ہوں اور آپ کو لائن میں کھڑا ہونا پڑے اس کام کو سرانجام دے دیجئے۔
یہ عجیب قانون سروں پر تھوپ دیا گیا ہے کہ آپ صاحبِ جائیداد ہونے کے باوجود بھی اپنی جائیدادپر اپنا حق ملکیت نہیں رکھتے۔
آپ جن کے نام بھی ہبہ کریں گے اسے مکمل حقِ ملکیت مل جائے گا اور اس ضمن میں کسی بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰