سیاستمضامین

موت کبھی بھی مل سکتی ہے لیکن ۔۔۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگاکہ جن کھیتوں اور کھلیانوں میں تمباکو کی کاشت ہوتی ہے وہاں کوئی پرندہ یا جانور بھی پلٹ کر نہیں دیکھتا۔ یعنی چرند اور پرند دونوں ہی اسے موت کا سامان سمجھ کر اس طرح دور بھاگتے ہیں کہ جیسے کوئی کتے کا کاٹا پانی کو دیکھ کر بھاگ جاتاہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ سائنس اور میڈیسن کو نہیں ماننے والے حضرت انسان کم از کم پرندوں اور جانوروں سے سبق حاصل کیوں نہیں کرتے ؟جس چیز کو یہ بے زبان موت کا فرمان سمجھتے ہیں تو کاہے اتنی سیدھی سادھی بات انسانوں کے پلے نہیں پڑتی؟۔ اس وقت سارے ملک میں تمباکو اور خاص طورپر بیڑی کے استعمال سے ہونے والے اثرات پر بڑے پیمانے پر ملے جلے مباحث ہورہے ہیں۔ بیڑی کا کاروبار کرنے والی لابی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کا استعمال کرنے والوں پر کچھ زیادہ مضر اثرات نہیں ہوتے ہیں جبکہ Global Adult Tobacco Survey(Gats) کے مطابق ہندوستان میں روزانہ تین ہزار سے زائد لوگ تمباکو نوشی اور گٹکا کھانے کے سبب موت کا شکار ہورہے ہیں۔ دنیا بھر میں اندازاً55 لاکھ لوگ تمباکو سے جڑی بیماریوں کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ہندوستان میں ہرسال مرنے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہوتی ہے۔ تمباکو نوشی کے سبب کئی بیماریاں منظرعام پر آتی ہیں جس میں کینسر‘ ہارٹ اٹیک‘ استھما اور چھاتی کے امراض شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمباکو کے خلاف عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر چلائی جارہی اشتہاری مہم کے باعث مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور کئی نوجوانوں کو تمباکو کی رغبت سے بچایا گیاہے جس کا یہی مطلب ہوا کہ ان کو موت کے منہ میں جانے سے روک لیاگیاہے۔ ہندوستان میں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ 15 سال سے کم عمر کے بچے تمباکو نوشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بے شمار معاملات میں آج ہمارا ملک اور ہماری قوم دوراہے پر کھڑی ہے۔ کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے زہریلی اشیاء کے استعمال کو جائز اور مناسب قرار دے رہے ہیں۔ انسانیت کے خلاف یہ ایک ایسی مادیت پرستانہ روش ہے جس کی ہرگوشہ سے مذمت کی جانی چاہئے۔ تمباکو کے استعمال کے حق میں جو لوگ ہیں وہ یہ دلیل پیش کررہے ہیں کہ ہندوستان میں ایسی کوئی ریسرچ نہیں
ہوئی ہے جس میں بیڑی کے استعمال کو مضر قرار دیاگیاہو۔ اس منطق کے خلاف ملک بھر کے ڈاکٹروں نے مذمتی بیان جاری کئے ہیں اور ان کا کہناہے کہ تمباکو زہر ہے اور ’’زہر‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلاہے کہ جو لوگ تمباکو نوش کرنے کے عادی ہیں انہیں مردہ بچے پیدا ہوسکتے ہیں اور حمل ثاقط ہونے کا بھی خطرہ ہمیشہ برقرار رہتاہے۔ تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تمباکو کا استعمال کرنے والے شخص کے یہاں قبل ازوقت ڈلیوری ہوسکتی ہے یا پھر اس گھر میں بچے کم وزن والے پیدا ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے عام انداز میں بڑھنے کا رجحان گھٹ جاتاہے۔ کم وزن والے بچوں کو دل کی بیماریاں ہوسکتی ہیں‘ ہارٹ اٹیک بھی ہوسکتاہے‘ وہ ہائی بلڈ پریشر کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ شوہر کے سگریٹ پینے سے سگریٹ یا بیڑی نہ پینے والی بیوی کی صحت پر بھی خطرناک اثرات ہوسکتے ہیں۔ بچے کی پیدائش کے ایک سال تک اگر کوئی باپ اس کے آگے سگریٹ یا بیڑی کا استعمال کرتاہے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ ننھی جان کان کے امراض میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ اسے تنفس کی شکایت بھی ہوسکتی ہے‘ نیمونیا اور چھاتی کے مرض کا بھی شکار ہوسکتی ہے۔ سرکار یہ سمجھتی ہے کہ سگریٹ اور بیڑی کے پیاکٹوں پر خطرہ کا نشان لگاکر اس نے اپنا فرض پورا کرلیاہے تو یہ بات بالکل غلط ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمباکو نوشی کے استعمال کو ختم کرنے کیلئے بھرپور مہم چلائی جائے تاکہ ایک صحت مند معاشرہ اور ایک صحت مند قوم تیار کی جاسکے۔ دوسری جو خطرناک شئے ہے وہ ہے شراب اور اس سے بھی زیادہ جان لیوا جو شئے ہے وہ ہے سیندھی۔ کیونکہ ہماری ریاست تلنگانہ میں سیندھی کے کمپائونڈس پھر سے کھول دیئے گئے ہیں۔ یہ دیکھے بغیر سیندھی کی فروخت کی اجازت دے دی گئی ہے کہ آیا وہ واقعی ’’سیندھی ‘‘ہے یا پھر کوئی جان لیوا کمیکل سے تیار کی گئی کوئی اور شئے ؟۔ Populist Measures کے سبب ہمارے ملک کو بے انتہا نقصان پہنچ رہاہے۔ کہیں زبان کے نام پر مسئلہ کھڑے کئے جارہے ہیں تو کہیں مذہب کے نام پر تنازعات پیدا کئے جارہے ہیں۔ اس ملک کی سماجی صحت کو‘ جسمانی صحت کو اور سوچ اور فکر کی صحت کو بدلنے کی آج اتنی ہی ضرورت ہے جتنی 1947 سے پہلے ملک کو آزاد کروانے کی ضرورت لاحق تھی۔ یہ ملک شخصی یا تجارتی مفادات یا کسی کے مخصوص نظریات کی بنیاد پر نہیں چلایا جاسکتا۔
ہم سب کو یہ کام لازمی طورپر کرنا ہوگا کہ شراب ، گٹکا یا تمباکو نویشی کے سبب کوئی جان نہ جائے۔گٹکا کھانے والوں کو بھی یہ سوچ لینا چاہئے کہ زندگی ان کی نہیں بلکہ ان کے اپنوں کی ہے۔ گٹکا کھاکر موت کو گلے لگانے والوں سے یہی التماس ہے کہ
موت کبھی بھی مل سکتی ہے ‘ لیکن جیون کل نہ ملے گا
مرنے والے سوچ سمجھ لے ‘ پھر تجھ کو یہ پل نہ ملے گا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰