طنز و مزاحمضامین

غازی آباد میں تاج محل

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

بچے جب ہوش سنبھالتے ہیں اور انہیں تاریخ کا مضمون پڑھایا جاتا ہے تو انہیں یاد لایا جاتا ہے کہ تاج محل آگرہ میں واقع ہے اور آگرہ اترپردیش کا ایک ضلع ہے۔ شمالی ہند کے ایک دیہاتی اسکول میںایک ٹیچر بچوں کو تاریخ کا سبق پڑھا رہی تھیں اور انہوں نے کہا کہ بولو بچو تاج محل غازی آباد میں واقع ہے۔ بچے یوٹیوب کے دور کے تھے، ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر ہمت سے کہا کہ میڈم آپ غلط کہہ رہی ہیں، تاج محل تو آگرہ میں ہے۔ ٹیچر نے اپنے ہاتھ میں موجود ڈنڈے سے بچے کو ڈرایا اور کہا کہ تم ہمیں سبق سکھاتے ہو چپ چاپ بیٹھے رہو، تاج محل غازی آباد میں واقع ہے۔ اسکول کے طالب علم بڑے ہوشیار تھے، جب چھٹی ہوئی اور وہ گھروں کو گئے تو سب نے اپنے والدین سے کہا کہ ہماری سماجی علم کی ٹیچر ہمیں غلط سبق پڑھا رہی ہیں اور کہتی ہے کہ تاج محل غازی آباد میں واقع ہے۔ بچوں کی تعلیم کی کبھی فکر نہ کرنے والے کچھ والدین غصے میں آگئے اور دوسرے دن سب اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے پاس پہنچ گئے اور کہا کہ فلاں سماجی علم کی ٹیچر بچوں کو غلط سبق پڑھا رہی ہیں اور وہ کہتی ہے کہ تاج محل غازی آباد میں واقع ہے جب کہ ہیڈ ماسٹر جی آپ اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ تاج محل تو آگرہ میں واقع ہے، ہم نہیں چاہتے کہ اس طرح کی غلط تعلیم ہمارے بچوں کو ملے، آپ کارروائی کیجئے اور اس ٹیچر کو اسکول سے نکال دیجئے۔ ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ پہلے تو تم کبھی اسکول نہیں آئے، بار بار نوٹس دی گئی کہ بچوں کے اسکول کی فیس جمع کیجئے ،کسی نے کچھ نہیں کیا۔ مجھے اسکول چلانے کے لیے فیس کی رقم چاہیے چلو تم کسی اور طریقہ سے تو اسکول نہیں آئے اور اب آئے ہو تو فیس بھر کر جاﺅ ورنہ سن لو جب تک تم اپنے بچے کی فیس جمع نہیں کرو گے ہماری ٹیچر ایسے ہی پڑھاتی رہے گی کہ تاج محل غازی آباد میں واقع ہے۔ اسکول فیس کے لیے تاج محل کو غازی آباد میں پہنچانے والے ایسے اور بھی انتظامیہ ہیں خاص طور سے خانگی اسکولوں کے انتظامیہ جن کی فیس کی وصولی کی امیدیں اس وقت جاگتی ہیں جب امتحان کے دن آتے ہیں۔ بچوں کے ہال ٹکٹ رکا لیے جاتے ہیں اور بے چارے ماں باپ کسی طرح قرض لے کر اسکول میں اپنے بچے کی فیس بھرنے کا مشکل ترین فریضہ انجام دیتے ہیں۔ والدین کورونا کے دوران خوش تھے کہ ان کے بچے بغیر فیس دئیے ایس ایس سی اور انٹر کے امتحان کورونا کی بدولت کامیاب کر چکے ہیں۔ جب کہ اسکول انتظامیہ کورونا کی وبا کے خاتمے کی دعا کرتے کرتے کنگال ہوگئے۔غازی آباد میں تاج محل سے یاد آیا کہ ہمارے مدارس میں تعلیم کے بھی نرالے انداز ہیں۔دیہاتی اسکول میں ایک ٹیچر کو انگریزی پڑھانا تھا اور اسے خیر سے انگریزی کے بنیادی الفاظ کا تلفظ بھی نہیں آتا تھا۔ کمرہ جماعت میں کوئی نہ کوئی شریر طالب علم رہتا ہے۔ ایک شریر طالب علم کو سزا دلانے کے لیے اس کے کان پکڑ کر ٹیچر اسے ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں لے گئی اور کہا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب اس بچے نے میری ناک میں دم کردیا ہے یہ بہت شرارتیں کرتا ہے، اس کا نٹورے خراب ہے اسے فوراً ٹی سی دے کر اسکول سے نکال دیجئے۔ ہیڈ ماسٹر بھی ویسی ہی انگریزی پڑھے ہوئے تھے جیسی کہ ٹیچر تاہم وہ ہمدرد تھے انہوں نے کہا کہ جانے دیجئے ٹیچر بچے کا فٹورے خراب ہوجائے گا معاف کردیجئے اسے۔ آپ جان گئے ہوں گے کہ نٹورے اور فٹورے سے کیا مراد ہے جی ہاں نیچر اور فیوچر۔ تعلیمی اداروںمیں طالب علموں کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ہمیں ایک غیر معمولی ہوشیار یا یوں سمجھیں کام چور قسم کے طالب علم سے سابقہ پڑا۔ ایک دفعہ ہم نے کمرہ جماعت میںمومود سہیل سے پوچھا سہیل بتاﺅ تو سہی اس گاﺅں میں پوسٹ آفس کہاں ہے۔سہیل نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم سر۔ جب کہ سہیل کے دوستوں نے اشارہ کیا کہ سر سہیل روزانہ پوسٹ آفس کے سامنے سے آتے ہیں وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں نے پھر دریافت کیا کہ سہیل چھوٹا سا گاﺅں ہے جس میں ایک ہی پوسٹ آفس ہوتا ہے پھر تم جھوٹ کیوں بول رہے ہو، سہیل نے معصومیت سے کہا کہ سر مجھے پوسٹ آفس کہاں ہے معلوم ہے، میں نے اس لیے نہیں معلوم کہا کہ اگر معلوم ہے کہہ دوں تو آپ مجھے ایک خط دیں گے کہ جاﺅ پوسٹ کر آﺅ اور میں اس کام سے بچنا چاہتا تھا، اس لیے نہیں معلوم کہا۔ طالب علموں کی شرارتیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ کمرہ جماعت میں ٹیچر نے ایک لفظ کے معنی دریافت کیے اور رشید سے کہا کہ بتاﺅ رشید اس لفظ کے معنی کیا ہیں ۔ رشید کھڑے ہو کر کہنے لگا میں نہیں بتاﺅں گا۔ مجھے معلوم ہے۔ ٹیچر نے پوچھا معلوم ہے تو بتاتے کیوں نہیں ۔ رشید نے کہا میں نے بتا دیا تو آپ کو اور دوسروں کو معلوم ہوجائے گا میں کیوں مفت میں بتاﺅں۔ اس طرح کے شاگرد ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ پرانی بات ہے کہ ایک گاﺅں کے اسکول میں امجد اور شاہد پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن دونوں تاخیر سے اسکول پہنچے۔ ٹیچر نے امجد سے پوچھا تم اسکول دیر سے کیوں آئے ہو؟ امجد نے کہا کہ راستے میں میرا ایک روپیہ کھوگیا تھا، اسے ڈھونڈنے میں دیر ہوگئی تھی۔ ٹیچر نے شاہد سے پوچھا تم کیوں دیر سے آئے ہو تو شاہد نے کہا کہ امجد کا روپیہ جہاں گرا تھا میں اس روپیے پر پیر رکھ کر ٹھہر گیا تھا کہ کب امجد آگے بڑھے اور میں اس کا روپیہ اٹھا لوں۔ جب بھی گاﺅں میں کوئی بوڑھا مرتا ہے تو بچے بہانا کرتے تھے کہ دادا کا انتقال ہوگیا۔ ایک دفعہ وہی امجد شاہد سڑک پر سے جارہے تھے، سامنے سے دو بوڑھے آرہے تھے، امجد نے کہا کہ دیکھو سامنے دو اور چھٹیاں آرہی ہیں۔ نئے زمانے میں اسکول بنک مارنا‘لاسٹ بنچر اور پتہ نہیں کیسی کیسی تعلیمی اصطلاحات وجود میں آچکی ہیں۔ اسکول اساتذہ کو ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کمرہ جماعت میں طلباءکی جانب سے ان کی سبکی نہ ہو، کیوں کہ آج کا طالب علم انٹرنیٹ اور یوٹیوب سے پتہ نہیں کیا کیا سیکھ کر آجاتا ہے کہ اب کسی ٹیچر کی ہمت نہیں ہوتی کہ تاج محل کو غازی آباد میں بتا سکے۔

a3w
a3w