سیاستمضامین

غلامی کی زنجیر کو توڑ دو‘زمانے کی رفتار کو موڑ دو

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی

دلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال کی 50 دنوں کے بعد جیل سے رہائی نے ہندوستان کے 2024 کے لوک سبھا چناؤ کی کایا ہی پلٹ دی ہے۔ اپنی رہائی کے فوری بعد کجریوال نے انتہائی پُر جوش انداز میں عوام سے اپیل کی کہ وہ تاناشاہی کے خلاف گھمسان میں شریک ہوجائیں۔ ویسے ان کی رہائی سے چار مرحلے کی رائے دہی میں انڈیا بلاک کو زبردست فائدہ ہوگا ہی لیکن خاص طورپر کہا جارہا ہے کہ دلی کی ساتوں نشستیں آپ اور کانگریس جیت لیںگے۔ کہا جارہا ہے کہ کجریوال کی رہائی مودی اور امیت شاہ کی نیندیں حرام کردے گی۔ گجرات لابی کو یقین ہوچلا ہے کہ انہیں اب اپنا بوریا بستر باندھ لینا چاہئے۔ پہلے دوسرے اورتیسرے مرحلے میں 283 نشستوں پر رائے دہی مکمل ہوچکی ہے۔ سیاسی مبصرین یہ کہتے ہیں کہ ان 283 نشستوں میں سے انڈیا بلاک کو لگ بھگ 200 نشستیں حاصل ہوجائینگی۔ اگلے چار مرحلوں میں انڈیا بلاک 100 سے 150 نشستیں حاصل کرسکتا ہے یعنی اپوزیشن کی تھیلی میں لگ بھگ 350 نشستیں آجائینگی۔ انڈیا بلاک کے جوشیلے قائدین یعنی راہول گاندھی ‘ پرینکا گاندھی ‘ ملکارجن کھرگے‘ اُدھے ٹھاکرے‘ شردپوار ‘ سنجے سنگھ اور اب کجریوال کا جوش دیکھنے کے لائق رہے گا ۔ اپوزیشن مسائل پر بول رہا ہے اور مودی فرقہ پرستی کے پھٹے ڈھول کا استعمال کررہے ہیں۔ انہیں اپنی شکست کا یقین ہوچلا ہے۔ پارٹی کے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لئے انہوں نے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کا نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ ان کی نام نہاد اڈوائزری کونسل کی جانب سے دفتر میں بیٹھ کر بنائی گئی رپورٹ کے مطابق 1950سے لے کر 2015 تک مسلمانوں کی آبادی میں 48 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ ہندوؤں کی آبادی لگ بھگ 8 فیصد تک گھٹ گئی ہے۔ اس طرح کی شرمناک رپورٹ کے ذریعہ وہ ہندو بھائیوں میں خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ گئی ہے۔ آج بھارت کی آبادی 142 کروڑ ہوگئی ہے جس میں 100 کروڑ سے بڑھ کر ہندو ہیں جبکہ بقیہ آبادی سکھ‘ جین‘ عیسائی اور مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے اور خاص طورپر مودی کے 10 سالہ دور حکومت میں کوئی مردم شماری نہیں ہوئی ہے تو اس طرح کی رپورٹ کس طرح بن جاتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اندھ بھکت بھی مودی سے بیزار ہوگئے ہیں اور وہ تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ مودی کمیونل ازم کو ہوا دے رہے ہیں تو وہیں راہول گاندھی پیار محبت اور ترقی کا پیغام دے رہے ہیں یعنی وہ نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے سے متعلق اپنے فلسفے کو لوگوں تک پہنچا چکے ہیں۔ دلی میں بی جے پی کو شکست فاش ہوگی وہ اس لئے کہ وہاں پر کجریوال کی گرفتاری سے عوام کی توہین ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومت کو ملے ہوئے قانونی حقوق کو چھین لیا گیا اور منتخبہ چیف منسٹر کے ساتھ نوکروں جیسا برتاؤ کیا گیا۔ ان ہی وجوہات کی وجہ سے دلی کے عوام مرکز سے اور خاص طورپر بی جے پی سے سخت نالاں ہیں اور وہ چناؤ میں انڈیا اتحاد کے نشانوں پر بٹن دبانے کے لئے بے چین ہیں۔ اترپردیش کے قنوج میں جمعہ کو منعقد ہوئے انڈیا بلاک کے جلسے میں عوام کے ہجوم کو دیکھ کر بی جے پی اور چیف منسٹر یوگی چکرا گئے۔ جلسے میں آنے والوں کو جبراً روکا گیا لیکن اُس کے باوجود اتنی کثیر تعداد وہاں پر جمع ہوئی کہ بھاجپا کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ راہول گاندھی ‘ سنجے سنگھ‘ سماج وادی کے صدر اکھلیش یادو کو لوگوں نے پُر جوش انداز میں سنا اور جلسہ گاہ میں تالیوں اور نعروں کا سلسلہ جلسہ کے اختتام تک چلتا رہا۔ چناؤ میں عوام کی غیرمعمولی دلچسپی سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مودی مخالف لہر کی شدت موجود ہے۔ چناوی مہم کی حدت کی وجہ سے مودی کا چہرا کالا ہورہا ہے۔ پہلے جب بھی وہ تقریر کرتے تھے تو مودی مودی اور سیٹیوں کی آوازیں عام ہوا کرتی تھیں اور آج جب وہ مختلف شہروں میں تقریر کرتے ہیں تو بس سناٹا ہی چھایا ہوا ہے۔ عوام کی طرف سے انہیں کوئی Response نہیں مل رہا ہے۔ Response کا نہ ملنا یہ بتاتا ہے کہ ان کی زنبیل خالی ہوچکی ہے اور انہیں اب اپنا جھولا لے کر گجرات لوٹنا پڑے گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بہت بڑا نقصان جنوبی ہند سے ہورہا ہے۔ پھر اس کے بعد وہ مہاراشٹرا ‘ اترپردیش اور بہار سے زبردست ہزیمت اٹھانے والی ہے۔ ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ کجریوال کی رہائی سے انڈیا بلاک کو کم از کم مزید 20 سیٹیوں کا فائدہ ہوگا یعنی بی جے پی 150 کے ارد گرد ہی بھٹکتی رہے گی۔ جمعہ کے دن قنوج میں ہوئے جلسہ میں راہول گاندھی کی تقریر دیکھنے اور سننے کے لائق رہی جیسے وہ بھارتیوں سے کہہ رہے تھے کہ
اُٹھو جیسے دریا میں اُٹھتی ہے موج
اُٹھو جیسے آندھی کی بڑھتی ہے فوج
اُٹھو برق کی طرح ہنستے ہوئے
کڑکتے گرچتے برستے ہوئے
غلامی کی زنجیر کو توڑ دو
زمانے کی رفتار کو موڑ دو
۰۰۰٭٭٭۰۰۰