ڈاکٹر علیم خان فلکی
بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک امیر آدمی نے رولس رائس گاڑی خریدی اور لانگ ڈرائیو پرجنگل کی طرف نکل گیا۔ راستے میں ایک ریسٹورنٹ میں گیا لیکن جاتے وقت شیشے چڑھانا بھول گیا۔تھوڑی ہی دیر میں آکر دیکھتا کیا ہے کہ کئی بندر اس کی گاڑی میں گھس کر پکنک منارہے ہیں۔ کچھ بندر سیٹیں پھاڑ کر اندر جانے کیا تلاش کررہے ہیں، کچھ اسٹیرنگ سے جھول رہے ہیں اور کسی کوبار بار ہارن بجانے میں مزا آرہا ہے،صبح جب ہم واٹس اپ کھولتے ہیں تو وہی بندر ہر پوسٹ میں نظرآتے ہیں۔ ہماری قوم نے صدیوں سے کوئی چیز ایجاد تو نہیں کی، اس لئے اگر کسی اور نے ایجاد کی ہے تو انہی بندروں کی طرح ان ایجادات کو استعمال کرنے لگ گئی۔ ہمارے مولویوں نے بالکل صحیح کیا تھا جو موبائیل، انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا جیسی خرافات کو لہوولعب کہہ کر حرام قرار دے دیا تھا، لیکن پھر وہ سارے مولوی خودہی اس پر ایمان لا بیٹھے۔ کیونکہ یہ مفت ہے۔
نوّے فیصد واٹس ایپ فارورڈ کرنے والے وہ ہوتے ہیں جن کو فارورڈیریا کی بیماری ہوتی ہے۔ یہ بیماری ڈائیریا ہی کی طرح ہوتی ہے جس میں جب جب حاجت کے لیے جاتے ہیں، سکون ملتا ہے، اسی طرح فاورڈیریا کے مریضوں کے پاس جو بھی پوسٹ آتی ہے، فوری فارورڈ کرکے سکون حاصل کرتے ہیں۔یہ ہر پوسٹ کو فارورڈ کرکے سمجھتے ہیں کہ قوم کو غفلت کی نیند سے جگا رہے ہیں، جاگتا تو کوئی بھی نہیں البتہ ویڈیو بنانے والوں کی یوٹیوب آمدنی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بھیجنے والے کا نام دیکھ کرہم مروت میں میسیج کھولتے ہیں کہ شائد کوئی کام کا میسیج ہو، ابھی آدھا منٹ بھی دیکھ نہیں پاتے کہ ایسے ہی دو تین اور سمجھدار حضرات کے ویڈیوز پہنچ جاتے ہیں۔اب اگر مروت میں سارے پوسٹ دیکھنے لگیں تو ہمارا حشر بھی نواب میر عثمان علی خان جیسا ہوسکتا ہے جنہوں نے مروّت میں بے شماریاروں، جنگوں اور بہادروں کو دربار میں جمع کرلیا او ر حکومت گنوا بیٹھے۔ فارورڈ کرنے کی اسی بیماری میں اب تو ہر بوڑھا اور جوان مبتلا ہوچکا ہے۔ہمیں غصہ اس بات پر آتا ہے کہ لوگ بصد شوق ہر پوسٹ کوضرور چیک کرتے ہیں اور ہنسی اس بات پر آتی ہے جب وہ دیکھتے دیکھتے تھک جاتے ہیں تو خود ہی کہتے ہیں ”یار؛ لوگوں کو ایسی فالتو پوسٹس فارورڈ کرنے کی بیماری کیوں ہے، کیا ان کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا“
آپ کہیں گے کہ ایسے تمام لوگوں کو ہلاک کیوں نہیں کردیتے، تو جناب کئی بار کیا، لیکن فاورڈائریا کے مریض جانے کہاں کہاں سے ہمارا نمبر حاصل کرلیتے ہیں، ہم دو کوہلاک کرتے ہیں تو چار نئے نمبر سے واٹس اپ آجاتے ہیں َ۔ (معذرت: بلاک کی جگہ ہلاک ٹائپ ہوگیا تصحیح فرمالیں)اسی لیے ہم نے اپنی فون لسٹ کو گروپوں میں تقسیم کردیا۔ جس کا بھی واٹس اپ پہلی بار آتا ہے ہم ضرور کھولتے ہیں، پھر اسے اس کے مناسب گروپ رسید کردیتے ہیں۔ جیسے ”بے نیاز گروپ:“ یہ ان لوگوں کا گروپ ہے جنہیں ہم فارورڈ میں آئی ہوئی کوئی خیرات کی پوسٹ فاورڈ نہیں کرتے بلکہ اپنی ہی محنت سے تیار کی گئی پوسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔اس میں تعمیری باتیں ہوتی ہیں، ہمار ا خونِ جگر ہوتا ہے، راتوں کی برباد نیندیں اور دعوتِ فکر ہوتی ہے، لیکن ان بے نیاز حضرات کو فکروِکر تعمیر وامیرسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ہماری پوسٹ کا جائزہ لینے کی بجائے جواب میں یہ لوگ کوئی فالتوغیر متعلقہ پوسٹ منہ پر دے مارتے ہیں۔گویا ہماری پوسٹ ایک فقیرانہ صدا ہے اور یہ ہماری طرف نظرِ التفات کیے بغیر ”آگے جاو“ یا ”کل آیئے“ کا اشارہ کردیتے ہیں۔ جی چاہتا ہے ایسے بے حِسوں کو فوری بلاک کردیں، لیکن کیا کریں مروت انگلیوں کو روک دیتی ہے۔
مولوی گروپ: یہ لوگ صح اٹھتے ہی پہلے ”السلام علیکم“، ”جمعہ مبارک“، فلاں فلاں یوم یا شب مبارک، دعائیں، مناجاتیں، نصیحتیں، اقوال زرین یا پھر جمعہ کا خطبہ فارورڈ کریں گے۔لوگ Live خطبہ نہیں سنتے، وہ بھلا واٹس اپ پر کیا سنیں گے، لیکن کوئی سنے یا نہ سنے، فارورڈ کرنے والے کو فارورڈ کرنے سے مطلب ہے۔ان میں سے جو انگلش میڈیم کی پیداوار ہوتے ہیں وہ گڈ مارننگ کے ساتھ انگریزی میں کسی کے بھیجے ہوئے اقوال ِ زرین بھی فارورڈ کرتے ہیں۔ اگر ان سارے گڈ مارننگ میسیجس کو پڑھتے بیٹھیں تو گڈ نائٹ ہوجاتی ہے۔ ان میں ایک درجہ آگے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس حق پر ہونے کا سرٹیفکیٹ بلکہ جنت کی اڈوانس بکنگ کی رسید بھی ہوتی ہے۔انہیں امت کے اتحادکی بہت فکر ہوتی ہے،یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان مسلکوں کے اختلافات کو ختم کرایک امت بن جائیں، اس لئے کون کون سی جماعتیں، عقیدے اور مسلک اتحادِامت کے لیے خطرہ ہیں، ان سے مسلسل خبردار کرتے رہتے ہیں۔
چاہیے گروپ : یہ دانشوروں کا گروپ ہوتا ہے۔ اس گروپ کی وجہ سے ہماری ہی نہیں سب کی ناک میں دم رہتا ہے۔یہ لوگ ہر واقعہ پر تبصرہ اور تجزیہ پیش کرکے حل کے طور پر ”چاہئے، چاہئے“ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ جیسے نوجوانوں کو یہ کرنا چاہئے، مسلمانوں کو یہ کرنا چاہئے، اور سرکار کو یہ کرنا چاہئے۔علامہ اقبال کو بھی بیچ میں گھسیٹ لیتے ہیں وہ اس طرح سے کہ آخر میں ڈانٹتے ہوئے ”نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے ہندوستاں والو۔۔۔ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں“ والے شعر بھی دے مارتے ہیں۔
بعض لوگ مسلسل بیوا کی طرح فریاد کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، نااصنافی ہورہی ہے، اور بعض لوگ مودی اور امیت شاہ یا ڈونالڈ ٹرمپ کا کان مروڑ کر اس طرح احتساب کرتے ہیں،جیسے وہ سامنے کھڑے ہیں، اور سن کر شرمندگی سے سر جھکا کر معافی مانگنے والے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مضمون پڑھتے ہی لوگ جوش میں آجائیں گے، اور بات دہلی تک پہنچ جائے گی اور ہندوستان کی سیاست میں ہنگامہ مچ جائے گا، جبکہ ان کی پوسٹ کو مروتاً پڑھنے والوں کی تعداد دو چار سے زیادہ نہیں ہوتی، اور پڑھتے بھی وہ لوگ ہیں جن کے پاس بڑھاپے میں کرنے کوئی اور کام بھی نہیں ہوتا۔ یہ صرف حکومت کا ہی نہیں بلکہ علما کا، لیڈروں کا اور ہر ہر مسلمان کا احتساب کرتے ہیں۔ اگر غلطی سے ان کامضمون کسی اخبار میں شائع ہوجائے تو ایڈیٹر کی غلطی کی سزا دوسروں کو بھگتنی پڑتی ہے۔ مصنف حضرات یہ مضامین ہر ایک کو فاورڈ کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ لوگوں کو فون کرکے پوچھیں کہ کہ مضمون کیسا رہا، لوگ بغیر پڑھے ہی فوری ”بہت خوب“ کے تھمس اپ بھیج دیتے ہیں۔
دیڑھ شانہ گروپ: اس نام کی وجہ تسمیہ سے تو ہم واقف نہیں لیکن ہمارا صرف یہ اندازہ ہے کہ ان لوگوں میں پیدائشی کچھ نہ کچھ شانہ پن قدرت کی طرف سے ملا ہوتا ہے، جس پر یہ ناشکری کرتے ہیں، اور اپنی چالاکی سے مزید شانہ پن پیدا کرنے کے چکر میں دیڑھ شانہ کہلانے لگتے ہیں۔ یہ DP پر اپنی تصویر نہیں لگاتے۔ ہمیں ایسے واٹس اپ جن پر بھیجنے والے کی تصویر نہیں ہوتی، انہیں دیکھ کر بڑی جھلاہٹ ہوتی ہے۔ ڈی پی آدمی کی شناخت کے لیے ہوتی ہے تاکہ دیکھنے والے کو یاد آجائے کہ اس شخص سے کب اور کہاں ملے تھے، وہ جوان ہے کہ بوڑھا، خاتون ہے کہ خان، میرا مطلب ہے خاتون ہے کہ مرد۔ تصویر نہ لگانے کی وجہ پوچھئے تو ایک ایسا بے تکا، بے نیازانہ اور فلسفیانہ جواب دیں گے گویا وہ اپنے آپ کو بہت سمجھدار اور آپ کو کچھ کم عقل سمجھتے ہیں۔ تصویر صرف آپ کی ذاتی شناخت ہی نہیں بلکہ آپ کی تعلیم، کلچر اور سوچ کا بھی پتہ دیتی ہے۔ اس لیے یہ لوگ اپنا صحیح تعارف کروانے سے ڈرتے ہیں۔ شائد اسی ڈر سے یہ لوگ تصویر کی جگہ اپنے بچے یا پوتے کی تصویر لگادیتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ایک تھپڑ رسید کردیں۔ اب آپ بچے کی تصویر دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش میں لگ جایئے کہ بچوں کی صورت شکل کس بیوقوف دوست سے ملتی ہے۔ بعض لوگ جہیز میں ملنے والی پلسر یا ٹویوٹا کی تصویر لگاتے ہیں، بعض حضرات جن کو ڈاروِن سے سخت اختلاف ہے، وہ اپنے اجداد کا سلسلہ نسب بندر کے بجائے کسی اور سے ظاہر کرنے کے لیے شیر، گھوڑے یا پرندوں کی تصویرلگادیتے ہیں۔ بعض حضرات جن کو بقول ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے تقوے کا لقویٰ ہوتا ہے، وہ تصویر کی جگہ آیت، حدیث یا کلمہ لگا دیتے ہیں، یا پھر علامہ اقبال کے کسی شعر کو آویزاں کردیتے ہیں تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ ڈی پی کسی بڑے مصلح یا مفکر کی ہے۔ یہ تمام دیڑھ شانے یہیں پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہم جیسوں کومزید جلانے کے لیے ڈی پی کے نیچے جو نام کی جگہ ہے وہاں اپنے نام کے بجائے اللہ اکبر، نصر من اللہ و فتح قریب جیسے نعرے لکھ ڈالتے ہیں۔ اسی ڈی پی پر ایک اور شناخت کی لائین ہوتی ہے، جہاں آپ کو اپنے پروفیشن، اپنے مشن یا بزنس کو متعارف کروانے کے لیے سہولت دی جاتی ہے لیکن یہاں بھی کوئی نصیحت لکھتا ہے، کوئی شاعری، کوئی Quote تو کوئی انڈیا اِز گریٹ یا پاکستان از گریٹ وغیرہ لکھتا ہے۔ یہ حرکتیں بالکل ایسی ہی لگتی ہیں جیسے بندر نئی گاڑی کے اندر کرتے ہیں۔ اب ایسے لوگوں کو واٹس اپ پر دوست بنانے کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان کی طرف سے ہر روز دو تین بے مقصد فاورڈز کو برداشت کرتے رہیں اور انہیں ڈیلیٹ کرنے میں اپنا وقت برباد کرتے رہیں۔
ان دیڑھ شانوں کی فہرست میں ایک اورقسم ہوتی ہے، جس کو حیدرآباد میں ”نکلا ہوا“ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ہوتے ہیں جو Blue Ticks کو آف کردیتے ہیں۔ تاکہ میسیج بھیجنے والا اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ جناب بہت مصروف ہیں، آپ کا فالتو میسیج پڑھنے کے لیے ان کے پاس ٹائم نہیں ہے۔وہ ضروری نہیں سمجھتے کہ آپ کو آپ کے مسییج کے ملنے کی رسید دیں۔یہ لوگ آخر کہاں مصروف ہوتے ہیں؟ پتہ چلے گا دن بھر اور رات بھر ان کی انگلیاں موبائیل کے اسکرین کا طواف کرتی رہتی ہیں،اور آنکھیں انسٹاگرام اور ٹِک ٹاک سے ٹھنڈی ہوتی رہتی ہیں۔ اگر یہ لوگ جو مصروف ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں، تھوڑی سی محنت کرلیں تو واقعی کوئی نہ کوئی اچھی مصروفیت ہاتھ لگ سکتی ہے۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو بابری مسجد یا گستاخی رسول پر ایک ولولہ انگیز پوسٹ فارورڈ کرتے ہیں اور اگلے ہی لمحے یوٹیوب پر شہناز گِل کا نیم برہنہ ڈانس دیکھنے لگتے ہیں۔
چونکہ اس مضمون کے پڑھنے والے سارے ہی ساٹھ ستّر کے پیٹھے میں ہیں، اس لیے ان کی سہولت کے لیے شہناز گِل کا تعارف کروادوں کہ یہ آج کی ہیلن، لیلا چِٹنس یا پدما کھنّہ ہے جن کا ڈانس دیکھنے کے لیے چوری سے اباّ کے پیسے چُرا کر جایا کرتے تھے، اور بڑے بھائیوں کی مخبری کی وجہ سے گھر لوٹنے پر تاج پوشی ہوا کرتی تھی، لیکن اس کے باوجود شوقِ دیدار میں کوئی کمی نہ ہوتی اور کس سودا سلف سے کتنے پیسوں کی سیٹنگ کرنی ہے، اس کی منصوبہ بندی شروع ہوجاتی تھی۔ (معذرت: لیلا چِٹنس کے کاپی رائٹس محترم عباس متقی صاحب کے پاس ہیں، ہم نے ان کی اجازت کے بغیر لیلا چٹنس کو استعمال کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ لیلا چٹنس کا نام استعمال کرلیا ہے)۔
کرونا گروپ : اس گروپ کی بیماری یہ ہے کہ ہر بیماری اور اس کے علاج پر پوسٹس فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔کہیں کوئی زلزلہ، طوفان آجائے یا کوئی بھی حادثہ ہوجائے، سعودی میں کوئی خلافِ شریعت بات ہوجائے،عامر خان کی طلاق ہوجائے،یا شاہ رخ خان کا بیٹا چرس کے ساتھ پکڑا جائے یا کسی ہیروئن کی شادی یا زچگی ہوجائے، ایسی پوسٹس ان کے نزدیک کشمیر یا فلسطین سے بھی زیادہ اہم ہیں، یہ لوگ فوری فاورڈ کریں گے گویا یہ بھی ایک ثوابِ جاریہ ہے۔ اپنے رشتہ داروں کی خیریت لینے کی انہیں کبھی توفیق نہیں ہوتی لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کی بیوی کیسے مری اس کی انہیں خبر ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ جنرل نالج کی ہر پوسٹ فوری ایسے پابندی سے فاورڈ کرتے ہیں گویا اس فالتو نالج کی سب کو شدید ضرورت ہے۔
شاعر گروپ : جس طرح مولویوں کو ہر وقت فتو¶ں اور فضائل کے پوسٹ فارورڈ کرنے کی جلد ی رہتی ہے، اسی طرح شاعروں کو اپنی غزل مکمل ہوتے ہی فارورڈ کرنے کی جلدی رہتی ہے۔ شاعروں کو چاہیے کہ اگر بیس اشعار کی غزل ہوجائے تو پندرہ اشعار چھانٹیں اور پانچ شعر کی غزل بھیجیں،لیکن یہ لوگ چھانٹنے کا کام قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ اس مصروفیت کے زمانے میں پانچ شعر بھی بہت ہوتے ہیں۔ اگر کوئی عالمی شعرا کونسل ہے تو اسے چاہیے کہ شاعروں کو صرف تین شعر کی غزل کاپابند کریں، لیکن چونکہ شاعری کرنے کے لیے کوئی لائسنس کی بھی ضرورت نہیں ہے،ہم نے کچھ شعرا کی انجمنوں سے شکایت کی، لیکن پتہ چلا کہ ان کے جو صدر ہوتے ہیں، خود انہیں پچیس شعر کی غزل لکھنے کی عادت ہے۔ اس لیے ہم حفظ ماتقدم کے طور پر بلکہ ضمانت قبل از گرفتاری کے قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوسٹ آنے کے ساتھ ہی پڑھنے سے پہلے ہی ایک لائک بھیج دیتے ہیں۔
بھیڑ چال گروپ : یہ وہ گروپس ہوتے ہیں جن میں ایڈمن حضرات آپ کی اجازت کے بغیر ہی آپ کا نمبر شامل کرلیتے ہیں۔گروپ کا نام بڑا دھانسو ہوتا ہے،”انٹلکچولس گروپ“ ”تِھنک ٹینک گروپ“، ”دفاعِ اسلام گروپ“۔ یہ سارے گروپ باہر سے لولو کے عالیشان مال کی طرح ہوتے ہیں، اندر جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہر طرف ”ہرمال دس روپیہ“ کے ٹھیلے ہیں۔ اگرچہ کہ گروپ ممبرز سارے تعلیم یافتہ دانشور ہوتے ہیں، لیکن گروپ کے مقاصد پر ایک بندہ بھی پوسٹ نہیں ڈالتا، وہی تمام بیمار کرڈالنے والے پوسٹ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، وہی بھرے ہوتے ہیں، کیوں کہ فارورڈکرنے والے وہی ہوتے ہیں جو ہمیں پھر الگ سے فارورڈ کرتے ہیں َ۔
اس پورے دردِسر کا علاج یہ ہے کہ آپ واٹس اپ اکا¶نٹ ہی ختم کردیں، نہ رہے بانس نہ رہے بانسری،آپ اس کے بغیر جس طرح پہلے زندہ تھے،اس کو ختم کرکے پہلے ہی کی طرح بلکہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ سکون سے زندہ رہیں گے۔ اپنوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی میلے میں بے مقصد گھومتے ہوئے بچے کی طرح نہیں رہیں گے۔ذہن ہر وقت عدالت کا ایک کٹہرا نہیں ہوگا جس میں کبھی زعفرانیوں کو لا کر کھڑا کررہے ہیں تو کبھی یہودیوں کو، اور ان سب پر خود مقدمہ چلارہے ہیں، خود ہی فیصلے سنا رہے ہیں۔ ابھی ایک مقدمہ ختم بھی نہیں ہوتا کہ ذہن میں پھر دوسرا مقدمہ دائر ہوجاتا ہے۔ وقت جیسی عظیم نعمت کسی تعمیری کام میں صرف ہوگی۔اگر واٹس اپ نہیں ہوگا تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ کسی کو واقعی کوئی کام ہوگا تو فون کرلے گا۔ اگر واٹس اپ ہی کو بلاک نہیں کرسکتے تو دوسرا علاج یہ ہے کہ جن لوگوں کو ہر روز دو چار پوسٹ فاورڈ کرنے کی بیماری ہے انہیں ہلاک کردیں، یعنی بلاک کردیں۔ تیسرا علاج یہ ہے کہ اگر آپ مروت میں بلاک نہیں کرسکتے تو ان تمام پوسٹس پر کلک کرکے Mark as Readدبادیں۔ وہ بھی خوش آپ بھی خوش۔ ہاں آپ کو بھی کوئی پوسٹ کسی کو فاورڈ کرنے کی خواہش اگر پھڑپھڑائے تو پہلے یہ فیصلہ کیجئے کہ جنہیں فارورڈ کررہے ہیں کیا انہیں اس انفارمیشن کی ضرورت ہے؟ کیا وہ اس انفارمیشن کے بغیر جیسے آج تک زندہ رہے، ویسے ہی وہ آئندہ زندہ رہیں گے؟