محمد ضیاءالدین۔پربھنی
بدلتے ہوئے دور نے معاشرتی زندگی پر زبردست اثرات مرتب کیے ہیں۔ پہلے صنعتی ترقی نے انسانی زندگی کو مشینی زندگی میں بدل دیا اور گوشت پوست کا انسان جو اپنے وجود میں متضاد جذبات و احساسات لیے ہوا کرتا تھا، اس کی زندگی کے یہ اطوار مشینی پہیوں تلے کچل کر رہ گئے۔ اس آمد نے اس کی لالچ میں اضافہ کردیا اور وہ خود بھی ایک زندہ مشین بن کر رہ گیا اور اس کی روایات تہذیب، تمدن، اخلاق و اقدار بتدریج کم تر ہونے لگے اور جیسے جیسے سائنس و ٹیکنالوجی میں اضافہ ہونے لگا، زندگی آسایشوں سے ہمکنار ہونے لگی جس سے مادیت اور مادہ پرستی بڑھنے لگی اور اب انسان ٹیکنالوجی کے اس دور میںداخل ہوگیا ہے جہاںاب اس کا محورزندگی صرف اس کی ذات ہے۔ کبھی انسان سماجی حیوان کہلاتا تھا ، اب بھی ہے، لیکن اس میں سماجیت کا عنصر بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اب انسان کا سماج سے کوئی رشتہ یا تعلق ہی نہ رہا ہو اور یہ کبھی ممکن بھی نہیں، لیکن تعلقات کے طور طریقوں اور رویوں میں بدلاﺅ ضرور آرہا ہے اور یہ تبدیلی اسے ذہنی طور سماج سے دور کر رہی ہے۔ مکمل سماج وہی ہوتا ہے جس کے افراد کا آپس میں جذباتی تعلق ہو ورنہ بظاہر نظر آنے والے کاروباری و روایاتی تعلقات بے معنی ہیں۔
تمہید کچھ طویل ہوگئی ہے، تاہم مقصد آج کی ہماری معاشرتی زندگی اور افراد معاشرہ کے رویوں کی عکاسی ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ ایک کامیاب معاشرے کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا بحیثیت فرد ہم معاشرے کو ایک کامیاب معاشرہ بنانے کی اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ بحیثیت فرد اپنی کامیاب زندگی کے لیے ہم جو تگ ودو کررہے ہیں، کیا اس کا کوئی حصہ معاشرے کے لیے بھی ہے اور اگر نہیں ہے تو کیوں؟ کیا ہم کو اس بات کا احساس ہے کہ معاشرے کا نقصان ہمارا بھی نقصان ہے کہ معاشرہ تو ایک کشتی کے مانند ہے جس کے ہم سب سوار ہیں اور جو انجام کشتی کا ہوگا وہ ہم سب کا ہوگا۔
آج ہم مسلم معاشرے کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سارے خوشنمامناظردیکھنے کوملتے ہیں، بالخصوص مدد و تعاون اور جذبہ خیر خواہی تو ماشاءاللہ کافی بلندی پر ہے۔ایک دور تھا کہ مسلم معاشرہ زبوں حالی کا شکار تھا۔ آزادی کے بعد کے حالات نے مسلم معاشرے کو زبوں حالی کی کھائی میں دھکیل دیا تھا اور ہم بد ترین معاشی زبوں حالی کے شکار تھے۔ چھوٹے موٹے کاروبار جیسے سائکل رپیرنگ چائے خانے، پان کے ڈبے، کیرم کے اڈے یا پھر محنت مزدوری اور سائیکل رکشہ چلانا یہی مسلمانوں کی پہچان تھی اور اسی فیصد آبادی ان ہی حالات سے دو چار تھی۔ بدلتے وقت کے ساتھ مسلمانوں نے حالات کا مقابلہ کیا اور مصائب و آلام بھری اس دنیا میں جہاں اس کی بقاءہی اس کا مسئلہ بنی تھی، خود کے لیے جگہ بنانی شروع کی، محنت جانفشانی مسلمانوں کا وصف خاص ہے اور اسی کے بل پر انہوں نے خود کو مصائب حالات کی کھائی سے اوپر اٹھانا شروع کیا اور ایک حد تک اس میں کامیابی بھی حاصل کی، لیکن سکون ان کے لیے دھوپ چھاﺅں کی آنکھ مچولی کی طرح رہا۔ کچھ عرصہ سکون کا گزارا نہیں کہ پھر وہی اضطراب وہی بے چینی عنوان بدل کے کبھی فسادات، کبھی دہشت گردی کے الزامات ، کبھی عبادت گاہوں کے تنازعے، کبھی ان کے مذہبی معاملات سے چھیڑ چھاڑ، مقصد یہ کہ وہ پرسکون زندگی نہ گزار سکیں اور آے دن ان پر حملہ آور ہونے والے شرانگیزیوں کے ان کتوں کے پیچھے کچھ دور تک بھاگتے رہیں اور اس اثناء میں وہ اپنی مصروفیات سے دور ہوجائیں اور یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے مقصد کے تحت کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کے سکون کو غارت کیا جائے اور اپنے کام سے ان کی توجہ بھٹکائی جائے ، دوسری طرف بدلتا دور اس کے ساتھ ہی بدلتے اقدار بھی ہیں جنہوں نے معاشرے کو نئے نئے چیلنجوں کے مقابل کھڑا کردیا ہے۔ ایک دور تھا، آبادی کم تھی، معاشرے میں بڑے بوڑھے لوگ تھے جو نہ صرف جہاندیدہ بلکہ سیاس اور صاحب فہم و فراست بھی تھے، ان کی عمر اور تجربے کے سبب معاشرے میں ان کی عزت کی جاتی تھی اور لوگ ان سے احترام کا برتاﺅ کرتے اور مختلف معاملات میں ان سے مشورے لیا کرتے تھے۔ خاص بات یہ کہ سماج نے ان بزرگوں کو ذات پات یا مذہب میں نہیں بانٹا تھا ، یہ وہ لوگ تھے جو مصلحتوں کے اسیر نہ تھے، ان میں حق بولنے کی جرات تھی، وہ بلا لحاط سامنے والے کی عمر رتبے اور مرتبے کے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی جرات رکھتے اور بروقت اس کا استعمال کرتے تھے ۔ سماج میں کہیں کسی کو غلط راہ پر دیکھتے تو بلا تامل اس کو جس طرح بات سمجھ میں آتی، اسی انداز میں سمجھاتے اور اس کی حرکت کے نتائج و عواقب سے واقف کراتے۔ کوئی اگر سیدھے سے نہ سمجھ پاتا تو ڈانٹ ڈپٹ سے اس کی تواضع کرنے سے بھی گریز نہ کرتے اور مخاطب چاہے جیسا ہو اس ڈانٹ ڈپٹ کو سر جھکا کر سن لیتا تھا۔
یہی سبب تھا کہ اس دور میں معاشرے میں پیدا ہونے والے تنازعات، جھگڑے، اختلافات کو ان کی ابتدا ہی میں آپسی افہام و تفہیم کے ذریعہ سلجھا لیا جاتا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ سارے کے سارے لوگ اسی راہ پر گامزن ہوجاتے ہوں اور معاشرہ کلی طور پر اختلافات اور جھگڑوں سے پاک تھا، لیکن ایسے ہٹ دھرمی پر آمادہ اشرار کی تعدد کافی کم تھی،لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے معاملات کی نوعیت بدل گئی۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور روبہ پستی اقدار نے حالات کو کافی الٹ کر رکھ دیا ہے۔ معاشرے میں بزرگوں کی نہ ویسی وقعت ہے نہ قدر و احترام۔ سماج و معاشرہ تو دور کی بات ہے، بزرگوں کی نہ ان کے خاندان میں ویسی عزت ہے نہ ہی ان کے گھر میں بلکہ آج کا ٹرینڈ تو یہ ہے کہ بزرگوں کو دقیانوسی اور ازکار رفتہ سمجھا جارہا ہے۔تب کیوں کوئی ان کی رائے لے گا اور کیوںکر ان کی عزت و احترام کیا جاے گا۔ نتیجہ یہ ہے کہ سماج شتربے مہار جدھر چاہے منہ اٹھاے بھاگ رہا ہے۔فی زمانہ چونکہ معاشی تنگی نہیں ہے، تعلیم عام ہوگئی ہے کچے پکے ہی کیوں نہ سہی تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے جو خود کو سقراط و بقراط سے ذرا بھی کم سمجھنے تیا رنہیں ، خودداری کے خاتمہ کے سبب بے غیرتی اور لالچ عام ہو چکی ہے، لوگ اپنے مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی نچلی سطح پر جانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ معاشرے نے مصلحت کی غلیظ چادر اوڑھ رکھی ہے۔ چوں کہ معاشرے کے ناپسندیدہ افراد نے ناجائز طریقوں سے دولت اور طاقت حاصل کر رکھی ہے، ان میں جرایم پیشہ اور مجرمانہ سرگرمیوں میں شامل افراد کی ایک بڑی تعداد ہے، قانون جن کی جیب میں ہے، یہی سبب ہے کہ لوگ ان کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کر پاتے ہیں ۔ دوسری طرف معاشرے میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو خود بھی کسی نہ کسی برائی میں مبتلا ہیں جس کے سبب ان کے لیے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا مشکل ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سب نے معاشرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج کسی کا کسی سے تال میل نہیں، سب اپنی اپنی بولی بول رہے ہیں جب کہ آج سب سے زیادہ ضرورت ارتباط باہمی کی ہے۔ ملک عزیز میں ملت اسلامیہ ایک نہایت آزمائش کے دور سے گزر رہی ہے اور آے دن اس کے خلاف سازشیں اور شرانگیزیاں ہو رہی ہیں۔ کبھی منظم حملے ہورہے ہیں ،کبھی دریدہ دہنی کے ذریعہ اشتعال دلایا جارہا ہے، کہیں مسلمانوں کی حمایت میں آواز اٹھانے کی پاداش میں پابند سلاسل کیا جارہا ہے تو کہیں دستور و قانون کو بالائے طاق رکھ کر مکانات زمین دوز کیے جارہے ہیں، حتیٰ کہ وہ صاف ذہن و سیکولر لوگ جو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، ان پر بھی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ غرض کہ ہر آنے والا دن اپنے جلو میں کوئی نہ کوئی فتنہ لے کر آرہا ہے۔یہی وہ وقت ہے جب کہ ملت کوآپس میں متحد ہو کر ان حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے ، لیکن افسوس کہ ملت اس خطرے کو اس سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے جیسا کہ اسے لینے کی ضرورت ہے ۔
نئے دور کے نئے حالات ، نئے تقاضے اور بدلتے ہوئے حالات نے لوگوں کو نہایت مصروف کر رکھا ہے۔ وہ غم ذات میں اس قدر منہمک ہیں کہ انھیں غم کائنات کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں اور اس بات کو سمجھ نہیں پارہے ہیں جن حالات کو وہ نظر انداز کررہے ہیں، آنے والے کل یہی حالات ان کے لیے سم قاتل ثابت ہوں گے۔ اس پر مستزاد موبائل جس نے لوگوں کو ایک دوسرے سے بیگانہ کر رکھا ہے، بڑے تو بڑے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس جال میں ایسے پھنسے ہیں کہ ان کا بچپن اسی کی نذر ہورہا ہے۔ ایک طرف ہمارا یہ رویہ دوسری طرف منہ کھولے بے شمار مسائل جو ہم کو نگلنے کے لیے تیار ہیں۔ خارجی مسائل تو ہیں، داخلی مسائل بھی کچھ کم نہیں۔ گھریلو جھگڑے ، خاندانوں میں آپسی تنازعات ، نوجوانوں میں پھیلتی ہوئی بے راہ روی ، نشہ کی لت، محلوں میں بڑے پیمانے پر آوارگی اور بے راہ روی میں ملوث نوجوان اور نوخیز بچے تعلیمی میدان میں لڑکوں کا پچھڑا پن، تعلیم یافتہ لڑکیوں کے رشتہ کے مسائل، حصول تعلیم کے لیے اغیار کے اداروں میں جانے والی لڑکیوں کی عصمت و عفت کے مسائل مسلمانوں میں مناسب رشتے نہ ملنے کے سبب مسلم لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکو ں سے شادی کے واقعات ، اسی سبب لڑکیوں کا ارتداد معاشرے میں طلاق و خلع کے بڑھتے ہوے تشویشناک واقعات مسلمانوں میں سود خوری کی بڑھتی ہوئی لعنت، فینانس کے نام پر سودی لین دین کے سبب آئے دن ہونے والے جھگڑے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قتل و خون کے واقعات۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملت کا درد رکھنے والے با شعور اور صاحب فکر لوگ ان حالات کے مدنظر اور ان کے سدباب کے لیے فکر کریں اور آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں۔ اب بڑے بڑے اجلاس سیمناروں اور جلسے جلوس کا دور نہیں رہا کہ اب لوگوں کے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہے۔ دوسری بات ایسے اجلاس مقامی مسائل کا نہ تو احاطہ کرتے ہیں نہ انہیں حل کرسکتے ہیں، اب ان واقعات پر غور کرنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کے لیے مقامی سطح کے لوگوں کو چھوٹے چھوٹے یونٹ میں مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ کسی مسجد کے مصلیان کی مسجد کمیٹی ،کسی محلے کے صاحب فکر و متحرک لوگ ہم خیال لوگوں کے گروپ ہر ہفتے یا مہینے میں دوبار کسی ایک جگہ جمع ہوجائیں اور اپنی نشست کو اپنے محلے علاقے کے درپیش مسائل تک محدود رکھیں اور اس پر گہرائی سے غور فکر کریں اور ان مسائل کے ممکنہ حل تک پہنچنے کی کوشش کریں تو یقینا حالات میں تبدیلی ضرور آے گی۔ وہیں سب لوگ درپیش مقامی شہری و ملکی حالات سے بھی واقف ہو سکیں گے اور اس تعلق سے ان کی رائے بنے گی کہ
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے