مضامین

فسطائی قوتوں کو روکنے کے لیے سیکولر طاقتیں متحد ہوں گی؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

آئندہ سال منعقد ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے سیکولر پارٹیوں کے درمیان اتحاد کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی کانگریس نے گزشتہ دنوں رائے پور ( چھتیس گڑھ ) میں منعقدہ اپنی پارٹی کے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا کہ بی جے پی حکومت سے ملک کے عوام کو چھٹکارا دلانے کے لیے کانگریس ہم خیال پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرنے تیار ہے اور اس کے لیے وہ کوئی بھی قربانی دینے سے گزیز نہیں کرے گی۔ کانگریس کے 85ویں پلینری سیشن میں منظور کی گئی سیاسی قرارداد میں کہا گیا کہ کانگریس بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے سیاسی پارٹیو ں سے اتحاد کر سکتی ہے۔ اس سیاسی قرارداد میں یہ بات بھی کہی گئی کہ اگر ملک میں تیسرا محاذ بنتا ہے تووہ مرکز کی بی جے پی حکومت کی مدد کرے گا۔ بالفاظ دیگر کانگریس کی شمولیت کے بغیر جو بھی اتحاد ہوگا وہ سیکولر طاقتوں کو مضبوط کرنے کے بجائے فسطائی قوتوں کو اقتدار پر لانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اپوزیشن اتحاد کے اہم لیڈر اور بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار نے بھی دعویٰ کیا کہ اگر کانگریس سمیت ساری پوزیشن پارٹیاں ایک اسٹیج پر آجاتی ہیں تو بی جے پی 100لوک سبھا کی سیٹیں بھی نہیں جیت پائے گی۔ بہار کے شہر پورنیہ میں مہا گٹھ بندھن کی مہا ریالی سے خطاب کرتے ہوئے انہو ں نے کہا کہ اگراپوزیشن پارٹیا ں جلد ایک پلیٹ فارم پر نہیں آ تی ہیں تو قوم کا بڑا نقصا ن ہوگا۔ ملک کے آئین اور ملک کو بچانا ہو تو سیکولر قوتوں کو متحد ہونا پڑے گا۔ ملک کی دیگر سیکولر پارٹیو ں کا بھی یہ خیال ہے کہ ملک سے نفرت اور خوف کے ماحول کو ختم کرنے اور دستوری و جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے عوام مخالف حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔ ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر اور بھارت راشٹر سمیتی ( بی آر ایس ) کے صدر کے۔ چندر شیکھرراو¿ ، دہلی کے چیف منسٹر اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروندکجریوال کے علاو ہ مغربی بنگال کی چیف منسٹر اور ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی ا ن قائدین میں شامل ہیں جو بی جے پی سے سخت نالاںہیں اور اس کے اقتدار کو ختم کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیںکا دعویٰ کر رہی ہیں۔ ا ن سارے خوش کن دعوو¿ں پریقین کر لیا جا ئے تو پھر بی جے پی کی اُلٹی گنتی شروع ہونے میںدیر نہیں لگے گی۔ لیکن زمینی صورت حال یہ ہے کہ ہر سیکولر پارٹی سب کو اپنے اطراف جمع کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ اسی لئے ان پارٹیوں کے درمیان مضبوط اتحاد قائم نہ ہو سکا۔ اس کا راست فائد ہ بی جے پی کو ہوتا گیا۔ ہر الیکشن سے پہلے سیکولر پارٹیاں اتحاد کی باتیں کر تی ہیں لیکن اس کو عملی شکل دینے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ اس وقت بھی سیکولر پارٹیوں کے درمیان مفاہمت کی کوششیں جاری ہیں لیکن ابھی دوریاں کم نہیں ہو ئی ہیں۔ اروندکجریوال اور کے سی آر کانگریس کے بغیر ایک تیسرا محاذ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی اپنی ریاستوں میں ان کا مقابلہ کانگریس سے ہے۔ اگر ساری سیکولر پارٹیاں کانگریس کی قیادت کو تسلیم کرلیں تو علاقائی پارٹیوں کے وجود کو خطر ہ لاحق ہو جائے گا۔ علاقائی پارٹیا ںیہ چاہتی ہیںکہ کوئی قومی جماعت ان کے علاقہ میں اپنا اثر و رسوخ نہ بڑھائے۔ اسی لئے غیر کانگریس اور غیر بی جے پی محاذ بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ لیکن آیا کانگریس کو کسی سیکولر محاذ سے دور رکھ کر کوئی بڑی کا میابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس گئی گزری حالت میں بھی کانگریس ایک قومی جماعت کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتی ہے۔ قیادت کے فقدان کے باوجود کانگریس ملکی سیاست میں اب بھی اپنا اثر رکھتی ہے۔
راہول گاندھی کی حالیہ بھارت جوڑو یاترا کے بعد کانگریس کے کیڈر میں ایک یا نیاجوش و جذبہ پیدا ہوا ہے۔ راہول گاندھی نے اس یاترا کے ذریعہ نفرت کے بالمقابل محبت کا جو پیغام دیا ہے اس سے ملک میں ایک نئی تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ کانگریس قیادت کو احساس ہو گیا کہ جب تک عوام کے درمیان نہیں جا ئیں گے عوامی تائید کاحصول ممکن نہیں ہے۔ راہول گاندھی نے تامل ناڈو کے کنیاکماری سے کشمیر کے سری نگر تک پیدل چل کر ثابت کیا کہ وہ جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنی پارٹی میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ ان کی بھارت جوڑو یاترا جہاںجہاں سے گزری عوام نے اس کا زبردست استقبال کیا۔ یاترا کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں سے ا ن کی بات چیت سے ملک اور عوام کے مسائل کو سمجھنے میں انہیں آسانی ہوئی۔ ہزارو ںمیل پیدل چلنے کا ایک اہم مقصدیہی تھا کہ عوام میں بیداری پیدا کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ قوم پر ستی کے نام پر ملک کو کس قدر بھیانک حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ بی جے پی اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے کیا کچھ حربے استعمال کر رہی ہے۔ اس یاترا کے اثرات زائل ہونے سے پہلے ہی کانگریس قیادت نے رائے پور میں اہم اجلاس رکھتے ہوئے جو پیام دیا ہے اس سے سیکولر پارٹیوں کے درمیان کچھ نہ کچھ مفاہمت کے لئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ کانگریس نے اس حقیقت کو بھی قبول کرلیا کہ وہ تنہا بی جے پی کو شکست دینے کے موقف میں نہیں ہے۔ اب تک کانگریس کو یہ زعم تھا کہ ملک پر صرف اسے ہی حکومت کرنے کا حق ہے اور وہی ملک کی فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ لیکن مسلسل انتخابی ناکامیوں کے بعد کانگریس کو یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ دوسری سیکولر پارٹیوں کا ساتھ لئے بغیر وہ قومی سیاست میں کوئی کلیدی رول ادا نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ رائے پور کے حالیہ اجلاس میں صدر کانگریس ملک ارجن کھرگے نے صاف طور پر یہ بات بتادی کہ کانگریس ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اتحاد پر آمادہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ مشکل صورت حال میں کانگریس 2004اور 2009کے تجربہ کو دوہرانا چاہتی ہے۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ اس دوران کانگریس کی زیر قیادت ایک مخلوط حکومت مرکز میں تشکیل پائی تھی ۔ دس سال کے اس دور حکومت میں منموہن سنگھ ملک کے وزیراعظم رہے تھے۔ لیکن 2014میں ہوئے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے محاذ کو کا میابی ملی اور پھر 2019میں دوبارہ بی جے پی کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔ اب جب کہ 2024کا لوک سبھا کا الیکشن سامنے ہے ۔سیکولر پارٹیوں کے درمیان ابھی کوئی ٹھوس اتحاد قائم نہیں ہو سکا۔ بی جے پی کا دس سالہ دور جو بھی رہا اس پر کسی کو اطمینان نہیں ہے۔ عام آدمی سے لے کر ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والا شخص پریشان اور بے چین ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ کے لئے روزگار کے کوئی مواقع باقی نہیں رہے۔ بی جے پی حکومت کی ساری ہمدردیاں سرمایہ دار طبقہ کے ساتھ ہیں۔ مٹھی بھر صنعتکار پوری قومی دولت پر قابض ہیں۔ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر ای ڈی اور سی بی آئی کے دھاوے ہو رہے ہیں ۔ اس لئے بہت سارے سیاست دان بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں یا حکومت کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔ 2024 کے عام انتخابات سے پہلے ملک کی بعض اہم ریاستوں کے اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ ان میں کر ناٹک، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، میزورام، راجستھان اور تلنگانہ جیسی ریاستی شامل ہیں۔ ا ن ریاستی اسمبلیوں کے نتائج ہی دراصل آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات پر اپنا اثر ڈالیں گے۔ اس لئے سیکولر پارٹیوں کو ابھی سے متحدہ پلیٹ فارم بنانا ہوگا اور انتخابی مفاہمت کے ذریعہ اپنی کا میابی کو یقینی بنانا ہوگا۔
قومی سطح پر غیر بی جے پی محاذ کے قیام کے لئے کانگریس کو پہل کرنی ہو گی۔ کانگریس کے قائدین اپنے اجلاسوں میں سیکولر محاذ بنانے کے لئے صرف قراردادیں منظور کر تے رہیں گے تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ملک میں اپوزیشن کو متحد کرنے کے لئے کانگریس کو کچھ قربانی دینے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرنا ہوگا۔ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار نے کہا کہ اپوزیشن محاذ کے قیام کے لئے کانگریس کا انتظار ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کانگریس کے قائدین ابھی بھی کسی اتحاد کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ بھارت جوڑو یاترا کی اختتامی تقریب جو سری نگر ( کشمیر ) میں منعقد ہوئی تھی اس میں کانگریس کی جانب سے دعوت دئے جانے کے باوجود نتیش کمار شریک نہیں ہو سکے ۔ اسی بات کو لے کر راہول گاندھی، نتیش کمار سے ناراض ہیں اور ان کی جانب سے کی جانے والی اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو سراہتے ہوئے نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ جب کہ نتیش کمار نے کھلے عام عوامی جلسہ میں کانگریس کو دعوت دیتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا کہ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیا ں اپنا مضبوط محاذبنانے میں کا میاب ہوجاتی ہیں تو بی جے پی 100سیٹ بھی جیت نہ پائے گی۔ نتیش کمار کی اس پیش قیاسی کو رنگ بھرنے کے لئے کانگریس کو جلد سے جلد فیصلہ کرتے ہوئے ساری سیکولر پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر اس معاملے میں دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائی جائے گی تو سب سے زیادہ نقصان کانگریس کا ہی ہوگا۔بی جے پی نے ملک سے کانگریس کو مکت کرنے کا نہ صرف نعرہ لگایا ہے بلکہ بڑی چالاکی سے اپنی سیاسی حکمت عملی بھی ترتیب دے دی ہے۔ ایسے میں کانگریس خود کو سب سے برتر سمجھتے ہوئے سیکولر پارٹیوں کی جانب سے دی جانے والی دعوت کو ٹھکرادے گی تو بی جے پی کو 2024کے لوک سبھا الیکشن میں شکست دینا ممکن نہ ہوگا۔ اسی طرح وہ سیکولر پارٹیاںجو کو کانگریس کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ،انہیں بھی اپنی اس پالیسی پر از سر نو غور کرنا ہوگا۔ ایک قومی پارٹی کو الگ تھلگ رکھ کر بی جے پی سے مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ اس لئے وہ قائدین جو غیر کانگریس اور غیر بی جے پی محاذ کی تشکیل کے لئے کوشاں ہیں وہ اس زمینی حقیقت کو اپنے سامنے رکھیں کہ ان کا یہ محاذ ایک کمزور محاذ ہوگا جو بی جے پی کی آندھی کے سامنے ٹک نہ سکے گا۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو جو کامیابی ملی وہ دراصل سیکولرووٹوں کی تقسیم کا نتیجہ تھا۔ اب بھی اگر سیکولر ووٹ تقسیم ہوتے ہیں تو اس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ کانگریس کو کسی بھی محاذ سے دور رکھنے کے خواہشمند قائدین اپنے مورچے اور محاذ بنا رہے ہیں لیکن ان کا اثر و رسوخ ان کے اپنے علاقوں تک محدود ہے۔ کے سی آر ہوں یا کجریوال، ممتا بنرجی ہوں یا نتیش کمار اپنی اپنی ریاستوں کے مقبول لیڈر ہو سکتے ہیں لیکن ملک گیر سطح پر ان کی شہرت کا گراف غیر معمولی حد تک بڑھا ہوا نہیں ہے۔ جب کہ وزیراعظم نریندرمودی نے اپنی ایک پہچان بنالی ہے۔ اپوزیشن کے پاس ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جو واقعی کرشماتی شخصیت کا حامل ہو۔ اس لئے متحدہ اپوزیشن ہی ملک کو بی جے پی کے اقتدار سے چھٹکارا دلاسکتا ہے۔ راہول گاندھی نے چار ہزار کلومیٹر کی بھارت یاترا کرکے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ راہول گاندھی کی یہ یاترا ملک کو درپیش چیلنجوں کے خلاف ایک زوردار آواز بن کر ابھری ہے۔ سماج کے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے اس یاترا کے ذریعہ یکجا ہوئے ہیں۔ ان سارے مثبت پہلوو¿ں کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ محض ایک یاترا کی کامیابی بی جے پی کے لیے ایک ایسا سنگین خطرہ بن گئی ہے کہ اب اس کا زوال یقینی ہے۔ اس لئے گانگریس ایک سیکولر محاذ کے قیام کے اپنی کوششوں کو مزید تیز کردے تاکہ ملک سے فسطائی طاقتوں کا خاتمہ ہو سکے اور ملک میں جمہوری اور سیکولراقدار بحال ہو سکیں۔٭٭