
محمد انیس الدین
امت مسلمہ ایک سنگین اور پرفتن دور سے گزررہی ہے اور صیہونی و طاغوتی طاقتیں جنہیں مسلمانوں سے ازلی بیر ہے ‘ اپنی بالادستی اور برتری کو قائم رکھنے کیلئے مختلف طریقوں اور بے بنیاد الزامات سے ان کو نقصان پہنچاتے رہے اور سارے عالم میں کروڑوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ لیکن مسلمانوں میں بیداری نہیں ہوئی۔ مسلمان مجازی سوپر پاورس کے سہارے ڈھونڈتے رہے ‘ کبھی کسی طاقت کے ہاتھوں کھلونا تو کبھی کسی طاقت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ جب کبھی کوئی عالمی تنازع پیدا ہوتا ہے یا قدیم تنازعات جس کے بیج صیہونی اور طاغوتی طاقتوں نے سارے عالم میں بوئے ہیں ‘ یہ نزاعات کبھی حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے کیوں کہ ان کے حل کی نام نہاد عالمی طاقتیں سنجیدہ کوشش کرنے کے بجائے ظالم‘ غاصب ‘ عیار اور جھوٹوں کی طرفدار ہوکر ان نزاعات کو مزید پیچیدہ اور لاینحل کرتے ہوئے اپنے مفادات کے تحفظ میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔
زوال امت کے اسباب کی تحریریں پڑھتے پڑھتے امت ناامید اور مایوس ہوگئی تھی لیکن کسی بھی مرد مجاہد نے نہ تو عروج امت کیلئے رہنمائی کی اور نہ امت کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کی مثال دے کر ان کی ہمت افزائی کی۔ امریکہ نے افغانستان میں طالبان پر دہشت کی لاکھوں مسلمانوں کو ہلاک کیا۔ طالبان نے صبر‘ استقامت اور بہادری اور توکل علی اللہ سے کام لیتے ہوئے امریکہ کو رسوا کرکے افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کیا اور افغانستان میں طالبان حکومت کررہے ہیں۔ میری نظر میں افغانستان میں طالبان کی جیت ان کے خالق کائنات پر کامل اعتماد کا نتیجہ ہے اور عروج امت کی یہ پہلی کرن ہے۔ اور اب فلسطین کی ایک تنظیم حماس جو پون صدی سے مسلسل صیہونی عتاب کے بعد آخر کار7؍اکتوبر2023ء کو یہودیوں کے مقدس دن ایک منظم حملہ کردیا جس سے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا پول کھل گیا اور امت مسلمہ کو ایک عرصہ کے بعد عروج امت کی دوسری کرن فلسطین میں نظر آئی۔ امت کو ان دو کرنوں سے خالق کائنات یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ مسلمانوں بیدار ہوجاؤ اور متحد ہوکر ان طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کرو۔ اگر مسلمان اس وقت متحد نہیں ہوتے تو ان کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ قربانیوں کے بغیر کھویا ہوا مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔
دنیا میں57اسلامی ممالک ہیں اور ان کی جملہ آبادی2ارب سے زیادہ ہے اور ان کی معیشت تمام یوروپی ممالک سے آگے ہے لیکن اتحاد کے معاملہ میں پیچھے ہیں۔ جب مسلمانوں کی بات آتی ہے تو سارے عالم کے ظالم ایک ہوجاتے ہیں لیکن جب مسلمانوں پر اجتماعی ظلم ہوتا ہے تو مسلمان صرف تماشائی بن جاتے ہیں۔
آج فلسطین کی غزہ پٹی پر اسرائیلی بربریت اور درندگی کا 21 واں دن ہے ۔ صیہونی فوج امریکہ کی مدد سے مسلسل جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے اور وحشیانہ بمباری ہزاروں فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔ صیہونی قابض افواج نے پے درپے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیلی فوج ایک طرف غزہ میں اور دوسری طرف لبنان میں نہتے شہریوں پر حملہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ قابض درندوں نے8000 بم غزہ پر گرائے ہیں اور ایک بم ایک ہزار ٹن وزنی ہے۔ سینکڑوں مساجد اور ہزاروں عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں لیکن فلسطینی عوام کی قوت ایمانی اور جذبہ جہاد کو ہزاروں سلام۔ یہ شہری عمارت کے ملبہ پر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن غزہ کو چھوڑ نہیں رہے ہیں۔ یہ ان کی ایمانی قوت اور مسجدِ اقصیٰ سے محبت ہے۔ فسطینی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ترک مقام کرکے سکون کی زندگی گزارسکتے ہیں لیکن وہ مسجد اقصیٰ کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ مسلم ممالک اور عرب ممالک فلسطینیوں کے اس جذبہ کا بھی احترام نہیں کررہے ہیں۔ یہ مسئلہ فلسطین سے زیادہ ساری امت کا ہے یہ بات امت کے حکمرانوں اور اکابرین کو کیوں سمجھ نہیں آرہی ہے۔ آپ یقین جانئے کہ صرف امت کے اتحادکی خبر سے صیہونی درندوں کی روح قبض ہوجائے گی۔ ابھی 21دن کی جنگ نے ان طاقتوں کے ہوش اڑادیئے ہیں۔ یہودی علماء فوج کے سامنے تورات پڑھ کر اور ان کو یہودی قوم کا واسطہ دے کر ان کی ہمت افزائی کررہے ہیں لیکن قوت ایمانی اور فلسطینیوں کے جذبہ قربانی کے آگے وہ اپنے آپ کو کمزور اور بے بس پارہے ہیں۔ فلسطین کی یہ جنگ جنگ نہیں ہے۔ جنگ دونوں جانب افواج میں ہوتی ہے۔ موجودہ فلسطینی جنگ کو ایک سوپر پاور کی کامل حمایت سے غزہ کے نہتے عوام کی نسل کشی کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔
حماس کے مجاہدین کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ’’ طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن شروع کیا گیا ‘ جس کے نتیجہ میں اگرچہ صیہونی ریاست کا بہت نقصان ہوا‘ لیکن ردعمل میں اس نے غزہ پٹی پر شدید بمباری شروع کردی اور اب تک ہزاروں معصوموں کو شہید کرچکا ہے۔ اس پر بہت سے حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آخر حماس نے ایسا کیوں کیا؟ کیا اسے دشمن کے شدید ردعمل کا علم نہیں تھا؟ یقیناً تھا ۔ تو پھر اس نے نہتے فلسطینیوں پر مظالم کا نیا باب کیوں کھلوایا؟ بعض حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کی ملی بھگت اور گٹھ جوڑ ہے۔ اس حوالہ سے فلسطین کے ایک عالم دین علامہ محمد بن محمد الا اسطل نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے ‘ اس کا ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے : ’’ میں ان لوگوں میں نہیں جو سوشیل میڈیا پر چھڑنے والی متنازعہ گفتگو کا جواب دینے کیلئے میدان میں اترتے ہیں‘ اسلئے کہ میں علمی مقام و منصب کا احترام ضروری سمجھتا ہوں اور میرا یہ ماننا ہے کہ وقت ضائع کرنے سے بچنا چاہیے۔ ایک دو دن پہلے بعض احباب کی طرف سے مجھ سے دریافت کیا گیا کہ ’ اس شخص کی رائے کے بارے میں آپ کا کیا جواب ہے جو یہ کہتا ہے صیہونی دشمن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں تاکہ اسے اتنے شدید ردعمل کا موقع نہ ملے۔ خاموشی کے اپنے اصول کو کنارے رکھتے ہوئے‘ اپنے احساسات کو سرسری طور پر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس وقت جو صورتحال ہے‘ اس میں تفصیلی جواب دینے کے لئے ذہنی یکسوئی نہیں ہے۔ میں اس ضمن میں کچھ اسباب آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
دشمن مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی‘ اسے یہودی شناخت دینے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے اپنے ایجنڈے پر ماضی کے مقابلہ میں بہت زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے۔اپنے اس ایجنڈہ کو پورا کرنے کیلئے ماضی میں دو یا تین برس میں وہ جو اقدامات کرتا تھا ‘ اب وہ دو تین ہفتوں میں کررہا ہے‘ اور ساتھ ہی اہلیان شہر القدس کو ذلیل و رسوا کرنے ‘ ہراساں کرنے اور ان کے اہل علم و فضل کو جیلوں میں بھرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ صرف یہی نہیں ‘ اس کی حرکتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اب وہ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے سے لوگوں کو روک رہاہے‘ اس کی رکاوٹوں کی وجہ سے لوگ نماز کیلئے مسجد تک نہیں پہنچ سکتے۔ مسجد کے اندر تقریباً 50علمی حلقے منعقد ہوتے تھے‘ اب برسوں سے ان پر بھی پابندی عائد ہے‘ مجاہدین کے آپریشن سے چند دن پہلے تقریباً 5ہزار صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر اس کی بے حرمتی کی۔ کئی دنوں سے ان کی یہی حرکات جاری تھیں۔ مسجد کی بے حرمتی کے ایسے مظاہرے گزشتہ 20برس میں بھی سامنے نہیں آئے تھے۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور اسے یہودی رنگ دینے کی بڑھتی ہوئی حرکتوں کے رو میں مجاہدین نے اپنے آپریشن کو انجم دیا۔ معرکہ کے نام ’’ طوفان الاقصیٰ ‘‘ سے ہی اس کا مقصود ظاہر ہوتا ہے۔
دشمن ہمیں گزشتہ پندرہ برس سے دھیرے دھیرے موت کی طرف دھکیلنے کے اپنے منصوبہ پر کاربند ہے۔ ہمارے درمیان جواونوں کی ایک پوری نسل ایسی ہے جس نے اس بحران کے درمیان آنکھ کھولی ہے‘ بیس ‘ تیس سال کی عمر کو پہنچے ہوئے اکثر نوجوان زندگی کے ہر گوشہ سے دور ‘ روزگار سے محرومی کی زندگی جی رہے ہیں۔ وہ ا پنی تعلیم پوری نہیں کرسکتے‘ شادی نہیں کرسکتے‘ گھر نہیں بساسکتے‘ انہیں کوئی روزگار بھی نہیں ملتا۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں طرح طرح کی سماجی مشکلات پھیل چکی ہیں‘ بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے‘ شادیوں کا سلسلہ رکا ہوا ہے‘ یوں سمجھیں کہ سماجی اور معاشی مسائل کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ قریبی دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے اس امید پر مغربی ممالک کی طرف ہجرت کی کوشش کی کہ انہیں زندگی گزارنے کیلئے روزگار کے کچھ مواقع میسر آئیں گے۔ وہ ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل کی طرف جانا چاہتے تھے‘ لیکن بحری راستہ میں ایسے دسیوں نہیں سینکڑوں نوجوان سمندر کا لقمہ بن گئے۔
ہمارے جو افراد دشمن کی قید میں ہیں‘ ان کے ساتھ دشمن کا رویہ وحشیانہ ہے۔ وہ اسی شدید اذیتوں کا سامنا کررہے ہیں کہ گویا ہر دن کئی کئی بار موت کی چکی میں پسے جارہے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو دیڑھ میٹر کے سیل میں13برس سے قید ہیں۔ کچھ قیدیوں کو براز و گندگی سے لت پت سیل میں ڈالا جاتا ہے۔ وہ درد و اَلم کا مارا ‘ نفسیاتی اذیت سے دوچار قیدی دو تین دن تک لگ کر اس کی صفائی کرتا ہے اس کے بعد اس میں رہ سکے‘ اس دوران اس کے کپڑے اتارے جاتے ہیں‘ اسے زدوکوب بھی کیا جاتا ہے۔ پھر جب سیل صاف ہوجاتا ہے تو اسے اسی طرح کے دوسرے گندے سیل میں منتقل کردیا جاتا ہے تاکہ اذیت کا وہی سلسلہ پھر شروع ہو۔
ظالم ‘الزام دہشت عیاری سے مظلومین پر ڈال رہا ہے۔ روس نے امریکہ کو یوکرین میں للکارا تو یہ طاقتیں یوکرین کو بچانے نہیں گئیں ۔ اگر وہ ایسا کرتے تو آنے والے سرما میں روس کی جانب سے سپلائی ہونے والی گیس کی برآمدات رک جاتیں اور یورپی ممالک بغیر گیس کے موسم سرما کی شدت سے ہلاک ہوجاتے۔ یوکرین کی جنگ نے ایسے حالات پیدا ہوچکے تھے جس سے تیسری عالمی جنگ کے خطرات ظاہر ہورہے تھے‘ اگر ایسا ہوجاتا تو سارا یوروپ خاک میں مل جاتا۔ عیار صیہونی طاغوت نے اپنی چالاکی اور اتحاد کے ذریعہ اس عالمی خطرہ کو مشرق وسطیٰ کی جانب موڑ کر نہتے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کا آغاز شروع کردیا۔ ان کو بخوبی اندازہ ہے کہ مسلم ممالک اور مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ان کو اس طریقہ سے امریکی غلامی میں لے کر ان کو امریکہ کا مجاور بنایاگیا کہ وہ اس مجاوری کو ترک کرنے تیار ہی نہیں ہیں‘ اگرچیکہ مسجد اقصیٰ بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے اور مسلمانوں کے تمام مقدس مقامات بھی خطرہ میں آجائیں اور یہودیوں کے قبضہ میں چلے جائیں‘ مال و دولت اور عیش و آرام نے ان ممالک کو بزدل کردیاہے جس کی وجہ سے وہ امریکی مجاوری کے جال سے اگر نکلنا چاہتے ہیں تو تب بھی نہیں نکل سکتے۔ مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کو اس مجاوری کے جال سے باہر آنے کیلئے صرف اور صرف ایک ہی راستہ دکھائی دیتا ہے ‘ جو تنظیمیں اور ممالک اس حق اور باطل کے معرکے میں صف اول میں آکر اپنے عقیدے اور ایمانی طاقت کے ساتھ صیہونی طاقتوں سے نبرد آزما ہوکر ملت کی بقاء اور دین اسلام کے تحفظ کیلئے بے جانی اور مالی قربانیاں دے رہے ہیں ان تنظیموں کے ساتھ پوری امت ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوجائے ‘ قسم خدا کی ا للہ کی نصرت‘ ان سب کے ساتھ ہوگی اور یہ طاقتیں آپ پناہ مانگنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ آپ اللہ کے دین کیلئے قربانی دینے کیلئے تیار ہوتے ہیں تو اللہ یقینا آپ کی مدد ابابیل اور فرشتوں سے کرے گا اور آپ کو امریکہ کی مجاوری و صیہونی درندگی سے نجات ملے گی اور دنیا میں امن قائم ہوگا۔ مسلم ممالک اگر اس موقع کا فائدہ اٹھانے میں کسی حکمت اور چال اور منافقت کی وجہ سے ایک مضبوط اتحاد میں ناکام ہوتے ہیں تو ان تمام مسلم مملک کو مستقبل میں ایسی ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا جس کا وہ اندازہ نہیں کرسکتے۔ عزت کا ایک دن ذلت کے ہزار دن سے بہتر ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰