مذہب

قتل کا بدلہ قتل اور خوں بہا

: اے لوگو جو ایمان لائے ہو،تمہارے لئے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے،آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے،غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کیلئے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا ادا کرے،یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر جو بھی زیادتی کرے اس کیلئے دردناک سزا ہے۔

مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ Cell:9849099228

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي۝۰ۭ اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بِالْاُنْـثٰى۝۰ۭ فَمَنْ عُفِيَ لَہٗ مِنْ اَخِيْہِ شَيْءٌ فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْہِ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـۃٌ۝۰ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ (سورۃ البقرہ آیات ۱۷۸)

ترجمانی: اے لوگو جو ایمان لائے ہو،تمہارے لئے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے،آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے،غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کیلئے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا ادا کرے،یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر جو بھی زیادتی کرے اس کیلئے دردناک سزا ہے۔

جہاں اللہ تعالیٰ ارض و سماء کا خالق، مالک و رزاق ہے، وہیں ایک بہترین دستور ساز عادل و منصف بھی ہے۔

دنیا کی تمام چیزوں کے منجملہ ہم اولاد آدم بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں انسانوں کا امتحان لیتا ہے اور اس کا بڑا ہی فضل و کرم ہے کہ وہ نیکی اور بدی کو کھول کر بیان کرنے کیلئے اپنے احکام نازل فرماتا رہا اور صرف احکام ہی نہیں بلکہ اس کی تعلیم دینے کیلئے انبیاء علیہ السلام کو انسانوں ہی میںسے بہترین افراد کا انتخاب فرماتے ہوئے اٹھاتا رہا اور اس کا سلسلہ معلم اعلی، امام الانبیاء ختم المرسلین، رحمت للعالمین،حضرت محمد مصطفیؐ کی ذات اقدس پر ختم فرمادیا گیا۔ اب قیامت تک کیلئے آپ کی لائی ہوئی تعلیمات حرف آخر ہیں اولاد آدم کیلئے دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے جہاں پر کئی قوانین و احکام نازل فرمائے ہیں اس میں ایک قانون قاتل کی سزا کا بھی نازل فرمادیا گیا ہے۔ دنیا میں کئی طرح سے برائیاں ہوتی ہیں جن میں ایک بہت بڑی برائی یہ بھی ہے کہ کسی انسان کو نا حق قتل کردیا جائے اور اس کے جواب میں صرف قاتل سے بدلہ لینے کے بجائے قاتل کے علاوہ اس کے افراد خاندان و برادری و قبیلہ کے لوگوں سے بھی بدلہ لیاجاتا ہے۔ اس طرح کے اعمال اللہ رب العزت کو سخت ناپسند ہیں۔

ایام جاہلیت: اسلام سے قبل ایسا ہوا کرتا تھا کہ جب کوئی آدمی کسی کو قتل کر بیٹھتا تو اس کے جواب میں مقتول کے ورثہ کا یہ عمل ہوا کرتا تھا کہ صرف قاتل کو قتل کرکے بدلہ کی آگ کو ٹھنڈا نہیںکیا جاتا تھا بلکہ قاتل کے متعلقہ افراد خاندان و قبیلہ کے لوگوں کے کئی قتل ہوا کرتے تھے۔ اور اس کے رد عمل کے طور پر مزید خون ریزیاں ہوا کرتیں تھیںاس طرح اولاد آدم کا خون یوں ہی ضائع ہوا کرتا تھا۔

حدود اللہ: اس طرح ناحق خون ریزی کے سدباب کیلئے حکمت والے اللہ تعالیٰ، اہل ایمان سے خطاب فرماتے ہوئے یوں حکم فرما رہے ہیںکہ دیکھو’’اے ایمان والو‘‘ اب قاتل کی سزا مقرر کردی گئی ہے لہٰذا چاہئے کہ قتل کے مقدموں میں ان احکام پر عمل کیاجائے یعنی ایام جاہلیت کے خود ساختہ طریقے چھوڑ دیئے جائیں آگے،وضاحت کے ساتھ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اگر آزاد آدمی کسی کے قتل کا مجرم ہو تو صرف اسی آزاد آدمی کو سزا دی جائے اگر اس جرم کا ارتکاب کسی غلام نے کیا ہو تو صرف اسی غلام کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اگر کوئی عورت اس جرم کی مرتکب ہوئی ہو تو صرف اسی عورت سے بدلہ لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ اپنے کلام میںکئی جگہ یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حد سے تجاوز مت کرو۔ حد سے تجاوز دو طرح کا ہوتا ہے پہلا یہ کہ اللہ نے حدود قائم کردیئے ہیں اس سے آگے نکل جانا۔ دوسرا یہ کہ جو ’’حدود اللہ‘‘ ہیں اس میں کمی کرتے ہوئے اپنی رائے کو دخل دینا وغیرہ۔

حدود اللہ کو پامال کرنے کے مظاہر: موجودہ دور میں ہر طرف جرائم کی جو کثرت پائی جارہی ہے اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ارباب اقتدارنے ’’حدود اللہ ‘‘ کو پس پشت کرتے ہوئے طبع ذات قوانین و ضوابط کو اولاد آدم پرنافذ کردیئے ہیں۔

کیونکہ آئے دن اخبارات کے جرائم کے کالم میںیہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں اور ریڈیوٹیلی ویژن پر اس طرح کی خبریں سننے اور دیکھنے میںآتی ہیں کہ فلاں جگہ فلاں مقام پراتنے لوگوں کو ناحق قتل کردیا گیا ہے۔ فلاں جگہ کسی لڑکی کا زنا بالجبر کیا گیا اور اس کے بعد قتل کرکے کسی جھاڑی میںپھینک دیا گیا اور یہ بھی آتا ہے کہ فلاں مقام پر کچھ لوگوںنے اپنے کسی آدمی کے قتل کئے جانے کا بدلہ قاتل کے پورے خاندان سے لیا اور ان کو موت کی نیندسلادیا وغیرہ وغیرہ اس طرح کے واقعات یہ سب کہ سب ’’حدود اللہ ‘‘ کو پامال کرنے کے مظاہر ہیں جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔

فطری قوانین نہ ہونے کا نتیجہ : ’’حدود اللہ ‘‘ کو توڑنے کی سزا خود ان ارباب اقتدار کو بھی بھگتنی پڑتی ہے یعنی جب صاحب اقتدار لوگ اپنے اقتدار کے نشہ میں ’’حدود اللہ‘‘ کو توڑتے ہوئے کمزور عوام پر ظلم ڈھاتے ہوئے نا حق طور پر ظالمانہ انداز میں قتل کرواتے ہیں تو ان حالات میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں رہتاکہ ان قتل کے مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچاکر مقتولین کے ورثہ کے جوش انتقام کو یکسر ختم کرسکے۔ فطری قانون،اسلامی قوانین کے نافذ نہ ہونے کی بناء پر اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ مظلوم لوگ بدلے کی آگ میں کچھ اس طرح کارد عمل کربیٹھتے ہیں کہ، صاحب اقتدار قاتلین کے قتل کی صورت میںہمارے سامنے آتا ہے، پھر اس کا رد عمل شروع ہوتا ہے اور کئی ہزار بے گناہ افراد کو قتل کیا جاتا ہے جس کا اس معاملہ سے کوئی تعلق بھی نہیںرہتا۔ اس طرح ہر وقت دنیا میں بدامنی بے چینی کی کیفیت برقرار رہتی ہے اور انسان برابر قتل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

فطری قوانین کے بہترین نتائج: قانون انسانی فطرت کے عین مطابق ہو جیساکہ آیت مبارکہ کے ابتدائی حصہ میں بیان کیاگیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی احکام آئے ہیں یہ سارے کے سارے فطرت انسانی کے عین مطابق ہیںجس میںیہ بھی ایک ہے کہ ’’قتل کا بدلہ قتل‘‘ اگر اس طرح کا قانون صاحب اقتدار لوگوں نے نافذ کردیا تو آدمی کسی کو ناحق قتل کرنے سے قبل ہزار بار غور کرے گا کہ اس کا انجام کیاہوگا۔ اور کوئی شخص کسی عورت کا زنابالجبر یا کسی لڑکی کی عصمت دری کاارادہ رکھتا ہو تو موت اس کے آنکھوں کے سامنے آجائے گی اور وہ اس جرم سے اجتناب کرے گا۔

اولاد آدم اور قصاص: آیت مذکورہ بالا میںیہ بات بھی بتائی جارہی ہے کہ اگر مقتول کے ورثہ اپنے بھائی پر(اولاد آدم کی بنیاد پر) کچھ نرمی کیلئے تیار ہیں تو معروف طریقے سے خون بہا کا تصفیہ کیاجاسکتا ہے۔

یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہئے کہ قتل کے سلسلہ میںخوں بہا کی بات قاتل کو راحت پہنچارہی ہے اور اس کے نتیجہ میں مالدار اور صاحب اقتدار لوگ کسی کا بھی خون کرتے رہیںگے اور خوں بہا دے کر قصاص سے بچ جائیں گے بات دراصل یہ نہیں ہے بلکہ خوں بہا کے تصفیہ کی بات دراصل مشروط ہے فرمایا گیا اگر مقتول کے ورثہ کچھ نرمی کرتے ہوئے خوں بہا پرراضی ہوتے ہوں تو اس کا عمل کیا جاسکتا ہے۔ اس فقرے سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہورہی ہے کہ خوں بہا کے سلسلہ میں مقتول کے ورثہ کو اس بات کا حق دیا جارہا ہے کہ یا تو خوں بہا لے کر قاتل کو چھوڑ دیا جاسکتا ہے یا پھر ’’حدود اللہ‘‘ کے عین مطابق اس کی سزا دی جائے یعنی ’’قتل کا بدلہ قتل‘‘

خوں بہا کی ادائیگی: آیت مبارکہ کے آخر میں ایک تاکید کی جارہی ہے کہ خون بہا کے تصفیہ کی صورت میںقاتل کو چاہئے کہ بلا کسی چوں چراخوں بہا ادا کردے کیونکہ یہ محض اللہ کی طرف سے رحمت ہے کہ خوں بہا کی صورت میں تیری جان بچ گئی، اگر خوں بہا کی ادائیگی میںٹال مٹول سے کام لیا گیا یا پھر دوسری جانب خوں بہا لے کر بھی قاتل کو قتل کردیا گیا تو عنداللہ دردناک سزا ہوگی۔

فطرت کی آواز: دنیا میں جہاں کہیںبھی قتل و غارت گری کے سنگین جرائم ہوتے ہیں تو اس وقت حکومتوں کے ایوانوں میں بعض سنجیدہ ممبران’’فطرت انسانی‘‘ کا اظہار بے ساختہ طور پر یوں کرتے ہیںکہ ’’سنگین جرائم کی بہرحال عبرتناک سزائیں ہونی چاہئے لیکن اس طرح کے ممبران کی تعداد آٹے میں نمک برابر رہتی ہے اور ان کی آواز وقتی و جذباتی ہوکر رہ جاتی ہے۔ حالیہ دنوں دہلی میں ہوئے دل دہلا دینے والے واقعہ نے ہر نرم دل انسان کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے، کیونکہ اس وقت زنا بالجبر اور قتل و غارت عام ہوگیا ہے، اب جہاں پر لڑکے لڑکیوں کے لئے حیا کی تعلیم ضروری ہے وہیں پر عبرتناک سزائوں کا دیا جانا بھی اشد ضروری ہے۔ ارباب اقتدار اس پر غور کریں۔

حاصل کلام: افسوس ہے ان حضرات پر جو فلسفیانہ انداز میںیہ کہتے ہیںکہ جرم کو ختم کیاجائے نہ کہ مجرم کو‘‘ حالانکہ جرائم کے ختم کئے جانے یا بڑی حد تک کم کئے جانے کا اصل دارو مدار عبرتناک سزاوں میںمضمر ہے۔

مختصر یہ کہ سماج کے خطرناک مجرموں کو کڑی و عبرتناک سزائیں دینادراصل نسل انسانی کی حفاظت کرنا ہے تا کہ انسانی معاشرے میں امن و سکون قائم ہوجائے۔ دنیا کو قتل و غارت گری سے بچانے کا اب واحد راستہ یہی ہے کہ فطرت انسانی کے تقاضوں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے عین مطابق قوانین نافذ کئے جائیںاس کے بغیر یا اس سے رہنمائی حاصل نہ کرتے ہوئے جتنے بھی قوانین بنائے جائیں گے وہ سب کے سب ناکام ہوتے رہیں گے۔
٭٭٭