مضامین

قوم کے معمار بھی اب نفرت کے سوداگر!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک میں نفرت اور عناد کی جو آندھیاں چل رہی ہیں، اس نے ملک کے تعلیمی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گزشتہ دنوں اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر کے تھانہ منصور پور علاقے کے ایک اسکول میں مسلم طالب علم کے ساتھ جو نفرت انگیز واقعہ پیش آیا اس سے یہی حقیقت عیاں ہو تی ہے کہ ملک میں نفرت پھیلانے کا جو سلسلہ ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے چل پڑا ہے، اس سے ہندو سماج کا طبقہ بڑی حد تک متاثر ہوتا جارہا ہے۔ اسے کوئی اتفاقی حادثہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ترپتی تیاگی نامی ٹیچر نے کلاس روم میںایک معصوم طالب علم التمش کو دوسرے مذہب کے طلباءسے تھپٹر رسید کروائے۔ اُ س بیچارے کا قصور صرف یہی تھا کہ اس نے ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ اس پر اسے اتنی کڑی سزا دی گئی کہ ٹیچر کے حکم پر ہر بچہ آتا اور اس کے گال پر ایک طمانچہ مارتا۔ اس روتے بلکتے بچے کا ویڈیو دیکھ کر آنکھ میں آنسو آگئے۔ لیکن ٹیچریہ کہتی سُنی گئی کہ زور سے مارو۔ اس سارے واقعہ کی ویڈیو وائرل ہونے پر مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے اس سانحہ پر غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اترپردیش کی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ترپتی تیاگی کو گرفتار کیاجائے اور اسے سخت سزا دی جائے۔ ریاستی حکومت اس سنگین معاملہ کی پردہ پوشی کرنے میں لگی ہوئی ہے اور کسی طرح خاطی کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یوپی میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس لئے اس بات کے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ 25 اگست کو نہا پبلک اسکول میں ہوئے اس دردناک سانحہ پر یوپی کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کوئی ٹھوس کارروائی کر یں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم طالب علم کے ساتھ جو ہتک آمیز سلوک کیا گیا اور اس کے ہم جماعت ساتھیوں کے بیچ اسے ذلیل و رسواءکیا گیا اس کی پاداش میں اس ٹیچر کو جو اس اسکول کی پرنسپل بھی ہے، ایسی عبرتناک سزا دی جاتی کہ دوسرے اس سے سبق لیتے، لیکن افسوس کہ اس پر معمولی دفعات لگا کر کیس کو کمزور کر دیا گیا۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس پر دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانے کا جرم عائد کرکے سنگین دفعات لگائی جاتیں تا کہ بے قصور طالب علم کو انصاف ملنے کی امید ہوتی۔ سماج کا کوئی اور فرد اس قسم کا جرم کرتا تو اس پر اس قدر غم اور افسوس نہ کیا جاتا۔ مقدس پیشہ سے وابستہ ایک خاتون ٹیچر کا یہ انتہائی مذموم اور شرمناک عمل پوری اساتذہ برادری کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑا کردیتا ہے۔ استاد ، قوم کے معمار کہلاتے ہیں ، اگر ان کے ذہن مذہبی تعصب سے پراگندہ ہو جائیں تو پھر سماج میں سدھار کی ساری کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔ گزشتہ چند برسوں سے تعلیمی اداروں میں مذہبی جنون کو ہوا دینے کی جو مذموم مہم چلائی گئی، اسی کا نتیجہ ہے کہ تعلیمی اداروں کا ماحول بھی زہر آلود ہو گیا۔ ٹیچرس اور پروفیسرس اپنے طلباءمیں اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے کے بجائے ان میں مذہبی منافرت کو فروغ دے رہے ہیں۔ منفی سوچ رکھنے والے اساتذہ اپنی مسلسل زہر افشانی کے ذریعہ نوخیز نسل کے ذہنوں کو مسموم کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نفرت کے اس پرچار سے آنے والی نسلوں پر اس کے جو مضر اثرات پڑیں گے، اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ چند حقیر سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے ملک میں زہریلی فضاءکو منظم انداز میں پنپن©ے دینا یہ ملک اور قوم کی خدمت نہیں ہے بلکہ بد خدمتی ہے۔ مذہبی منافرت کے اس زہر کو پھیلانے کی پہل ان سیاستدانوں نے کی جن کے پاس ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی مثبت ایجنڈا نہیں ہے۔ وہ مختلف فرقوں میں ٹکراو¿ پیدا کرکے اپنے سیاسی اقتدار کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف مذہبی نفرت اور امتیازی سلوک کاجو بدترین واقعہ مظفر نگر ضلع کے ایک اسکول میں دیکھنے میں آیا، ایسے کئی بدبختانہ واقعات ملک میں ہوتے رہتے ہیں لیکن سوشیل میڈیا میں وائرل نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگ انہیں جان نہیں سکتے۔ یہ تو اتفاق کی بات ہے کہ ٹیچر جب یہ حرکت کر رہی تھی تو کسی نے اس کا ویڈیو بنالیا ورنہ یہ معصوم بچہ اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے ظلم کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت بھی ہوجاتا تو کسی کو اس کی خبر نہ ہوتی۔ ایک معصوم اور بے گناہ بچے سے ٹیچر کے دل میں آخر اتنی نفرت کیوں؟ اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی خاص مذہب کے افراد سے اس قدر متنفر ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہر ٹیچر پر نسلوں کی تعمیر کی ذ مہ داری ہوتی ہے، وہ اگر اس قسم کی فرقہ پرستی کا کھلے عام ثبوت دیتی ہے تو پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس کے ذہن کو کس نے اس درجہ پراگندہ کر دیا کہ اس کی عقل ماو¿ف ہو گئی؟ کیاایسی ٹیچر کو ملازمت میں بر قرار رکھنا نسلوں سے کھلواڑ نہ ہوگا؟ آئندہ بھی پھر وہ ایسی گھناو¿نی حرکت کر سکتی ہے۔ اس ٹیچر کی جگہ اب اسکول نہیں بلکہ جیل ہے۔ حکومت کی ذ مہ داری ہے کہ اسے سزائے قید دے تا کہ وہ عمر بھر جیل میں سڑتی رہے اور اسے معلوم ہو کہ اس نے ایک ننھے بچے پر ظلم کرکے کتنا بڑا جرم کیا ہے۔ التمش کیا اس دل سوز سانحہ کو اپنے دل سے نکال سکتا ہے؟ جس انداز میں بھری کلاس میں اس کی اہانت کی گئی وہ اسے بُھلا سکتا ہے؟ یہ ناقابل یقین حادثہ التمش کی زندگی کی ایک پرچھائی بن گیا۔ اس صدمے سے یہ ہو سکتا ہے کہ یہ معصوم بچہ ذہنی مریض بن جائے اور ایک انجانے خوف کا شکار ہو کر اپنی زندگی کے دن پورے کرے۔ اسکول جیسے پاک و صاف مقام پر ترپتی تیاگی نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا بدترین مظاہرہ کرکے تعلیمی اداروں کی عظمت اور اس کے وقار کو ہمیشہ کے لیے گھٹادیا۔ اس عورت کا وہاں مزید رہنا فرقہ پر ستی کی جڑوں کو اور مضبوط کر ے گا۔عجیب بات ہے کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ترپتی تیاگی اپنے غیر انسانی رویہ پر محض معافی کے چند بول ادا کردیتی ہیں اور اپنے کئے ہوئے جرم پر احساس ندامت کرنے کے بجائے اس کی کئی تاویلات پیش کر تی ہیں ۔ گاو¿ں کی پنچایت اور پولیس بھی معاملے کو رفع دفع کرنے میں لگ جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے اُ س بچے پر جو یوکے جی کا طالب علم ہے اس سے آخر ایسی کون سی بھیانک غلطی ہو گئی تھی کہ اسے ٹیچر نے سارے بچوں سے پِٹوادیا۔ بچے کے بلک بلک کر رونے پر بھی ٹیچر کو رحم نہیں آیا۔ ان کی ممتا کیا اس لئے مرگئی تھی کہ یہ بچہ مسلمان تھا؟ ان کا ضمیر کیا اس لیے مردہ ہو گیا تھا کہ وہ ہندوو¿ں کے اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں؟ برہمنی ذہنیت نے انہیں کیا مسلم طالب علم پر اپنی فرقہ پرستی کا کوڑا چلانے پر اُ کسایا تھا؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جس کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے۔ ایک سمجھ داراور تعلیم یا فتہ استاد ہرگز یہ حرکت نہیں کر سکتا ، چاہے اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو۔ ہمارے ملک میں ہزاروں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں غیر مسلم اساتذہ نے مسلم بچوں کی تعلیم و تربیت میں کلیدی رول ادا کیا۔ کئی مسلم اساتذہ نے لاکھوں غیر مسلم طالب علموں کو مسلم طالب علموں سے زیادہ محبت دی۔ تعلیم کے شعبہ میں ماضی قریب تک مذہبی بھید بھاو¿ کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ لیکن سیاست کی گلکاریوں نے ذہنوں کو اتنا آلودہ کر دیا کہ اساتذہ بھی فرقہ پر ستی کی دوڑ میں ایسے شامل ہو گئے جیسے کہ محلے کے غنڈے اس میں حصہ لیتے ہیں۔ ترپتی تیاگی کی ایک مسلم طالب علم کے ساتھ یہ مجرمانہ حرکت سماج کے غنڈوں کی حرکت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اسکول اس لیے بھیجتے ہیں کہ اسکول میں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہوتی ہے۔ اسکول میں اگر ایک طالب علم کو ٹیچر اپنی نگرانی میں دوسرے طالب علموں کے ہاتھوں زد وکوب کرواتی ہے تو یہ اسکول کہلائے گا یا مقتل؟ اس کا فیصلہ حکومت کو کرنا ہے تا کہ تعلیمی ادارے فرقہ پرستی سے محفوظ رہ سکیں۔
اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں تعلیم کے وہ گہوارے ہو تے ہیں جہاں بلالحاظِ مذہب و ملت، ذات و علاقہ یا زبان و جنس سب کو انسانیت کی اعلیٰ قدروں کے تحفظ کی تعلیم دی جا تی ہے۔ ملک کا مستقبل سنوارنے والے اور قوم کو ترقی کی راہوں پر گامزن کر نے والے علم کے ان مراکز میں فرقہ پرستی کے زہر کی فصل اُگائی جا تی ہے تو ایسے تعلیمی اداروں کو بند کر دینا بہتر ہے تاکہ ایسے اساتذہ کو اپنی زہر افشانی کا موقع نہ ملے۔ تعلیم انسان کو تہذیب و تمدن سیکھاتی ہے ۔ استاد تو اخلاق و کردار کا اعلیٰ نمونہ ہوتا ہے۔ اس کا اندرون اپنے طلباءکے لیے جذبہ محبت سے سرشار ہوتا ہے، لیکن بعض واقعات کے سامنے آنے کے بعد ایسا معلوم ہو تا ہے اب استاذ بھی سماج کے بُرے اثرات کو عام کرنے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ وہ جس منصب پر فائز ہے اس کا کام سماج سے بُرے کاموں اور بُرے خیالات کی بیخ کنی کرنا ہے لیکن افسوس کہ وہ خود اس کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ سماج دشمن اور انسانیت دشمن عناصر کا وہ آلہ ِ کار بن کرتعلیمی اداروں میں ان کی ترجمانی کر رہا ہے۔ ایک مظفرنگر کا واقعہ نہیں ایسے بہت سارے واقعات سے پورا سماج جوجھ رہا ہے۔مظفر نگر کے واقعہ کے دوران ہی گجرات کے ایک اسکول کے ذ مہ داروں کا مسلمانوں کے تئیں تعصب کا مظاہرہ سامنے آیا۔ وہاں کے ایک اسکول میں ایک مسلم طالبہ نے سالانہ امتحانات میں 87فیصد نمبر حاصل کرکے سارے اسکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کو امید تھی کہ یوم آزادی کے موقع پر منعقدہ خصوصی تقریب میں اسے اعزاز سے نوازا جائے گا۔ لیکن اسے اس وقت حیرت ہوئی کہ اس موقع پردوسرے نمبر پر آنے والی غیر مسلم طالبہ کو اعزاز سے نوازا کیا۔ اسے محض مسلمان ہونے کی وجہ سے اس یادگار موقع پر نظرانداز کر دیا گیا۔ شُکر ہے کہ غیر مسلم لڑکی اور اس کے والدین نے اسکول انتظامیہ کے اس کھلے تعصب کو پسند نہیں کیا۔ جب مسلم طالبہ کے والدین نے اس پر احتجاج کیا تو انہیں یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ مسلم طالبہ کو پرنسپل اپنے دفتر میں انعام دیں گے۔ لیکن والدین نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔ اس لیے کہ یہاں انعام کی اہمیت نہیں ہے بلکہ اسکول انتظامیہ نے جس جانبداری سے ایک مسلم طالبہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی وہ قابلِ مذمت ہے۔ یہ کارستانیاں ان کی جانب سے ہو رہی ہیں جو نئی نسل کے مستقبل کو سنوارنے کے دعوے کرتے ہیں۔ ان کی یہ گھٹیا حرکتیں کیاواقعی نسلوں کی تعمیر کا حصہ بنیں گی۔اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جارحانہ فرقہ پرستی کے اتنے واقعات سامنے آ رہے ہیں کہ اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ بدبختانہ داستانوں کو بیان کرنے سے مسائل حل نہیںہو تے۔ اس ضمن میں مسلم تنظیموں کو بھی اپنی ذ مہ داری محسوس کر نی ضروری ہے۔ ظلم کے خلاف محض قراردادوں کی منظوری اور حکومتوں سے نمائندگی اب کارگر ہونے والی نہیں ہے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے حکومتوں کو اس کا علم ہے، لیکن اس کے باوجود خاطیوں کے خلاف کوئی قرارواقعی کارروائی نہیں ہو تی۔ اس سے گمان ہو تا ہے کہ کہیں نہ کہیں حکومت کی سرپرستی ان عناصر کو حاصل ہے۔ مسلمانوں کو ذہنی و جسمانی اذیت دینا ان کا مشغلہ ہوگیا ہے۔ کل تک فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کی جان و مال ، ان کی عزت و آبرو کو لوٹا جا تا تھا۔ پھر مسلم نوجوانوں کو بیجا مقدمات میں ماخوذ کرکے جیلوں میں بند کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اب ان انسانیت دشمن عناصر نے مسلمانوں کے معصوم بچوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا بہیمانہ رویہ اختیار کرلیا ہے۔ التمش کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کچھ لمحوں کی سزا نہیں ہے بلکہ زندگی بھر وہ اس کوفت میں مبتلا رہے گا کہ بغیر کسی قصور کے اس کی ٹیچرنے اسے وہ سزا دی جس کا وہ زندگی میں کبھی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے اسے انصاف دلانے کے لیے انصاف کے علمبرداروں کوآگے آنا ہوگا تا کہ ملک میںکوئی اور ہونہار طالب علم مذہب کی بنیاد پر ظلم کا شکار نہ ہو۔