سیاستمضامین

فروغ نفرت کیلئے کارپوریٹ گھرانوں کی گودی میڈیا کو رقوم کی فراہمی

محمد انیس الدین (سابق بینکر و این آر ائی )

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے موجودہ اور سابق پروفیسرس نے جرأت مندانہ اقدام کرتے ہوئے اور جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ہوکر ملک کے کارپوریٹ گھرانوں کو ایک کھلا خط تحریر کرکے ان کو متنبہ کیا کہ فروغ نفرت کیلئے گودی میڈیا کی مالی اعانت اور سرپرستی سے ملک میں تشدد کے واقعات اور داخلی صیانت کو بھی سنگین خطرات لاحق ہیں۔
غلط خبروں کے پھیلاؤ اور بھڑکاؤ بھاشن کو روکنے کیلئے رقمی تعاون سے اجتناب کرنے کی درخواست کی۔ یہ خط شخصی طو رپر تحریر کیا گیا اور اس پر دستخط کرنے والوں کے نام درج ذیل ہیں:
ہیما سوامی ناتھن‘ انوبھا دھس مانا ‘ ارپتا چٹرجی‘ بی کے چندرشیکھر‘ دیپک ملگھان‘ کرشنا ٹی کمار‘ مالے بھٹا چاریہ‘ میرا بکھرو‘ پی ڈی جوش‘ پرائیک راج‘ راگھون سرینواسن‘ راج لکشمی وی مورتی‘ ریتوک بنرجی ‘ شالیک ایم ایس‘ ایم ایس سوہم ساہو‘ سرینواسن مرلی‘ ونود وائیسولو۔
مندرجہ بالا پروفیسر صاحبان نے اپنے مکتوب میں حسب ذیل خیالات کا اظہار کیا:
’’ گزشتہ چند برس سے ملک میں کھلے عام اقلیتوں کے تعلق سے سیاسی گفتگو ٹیلی ویژن چینلس پر خبروں کی شکل میں اور سوشیل میڈیا پر اظہارِ نفرت ایک عام بات ہوگئی ہے اور ایسی غیر انسانی ‘ شیطانی زبان کا استعمال اقلیتوں کے تعلق سے ہورہا ہے اور یہ کیفیت پرتشدد نفرت کے جرائم تک پہنچ گئی ہے۔ ان منصوبہ بند انتہا پسند گروپس کی اقلیت مخالفت عروج پر ہے۔
حالیہ فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس اور سیکورٹی فورسس کی نااہلی اور ان مجرمین کا بری ہونا اور معافی جو عصمت دری اور قتل عام کی وارداتوں میں ملوث رہے اور اس کے ساتھ ذمہ داروں کی خاموشی اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت عجلت سے خاطر خواہ حرکت میں نہیں آئی۔‘‘
گودی میڈیا کی جانب سے اس قسم کے رجحانات کا فروغ اور کارپوریٹ گھرانوں کی مالی سرپرستی سے ملک میں پرتشدد واقعات میں نہ صرف اضافہ کے امکانات ہیں بلکہ یہ صورتحال اقلیتوں کی نسل کشی کی جانب بڑھ سکتی ہے۔
مکتوب میں مزید لکھا ہے کہ بھارت کی ایک تاریخ ہے جس میں مختلف عقائد کے افراد صبروتحمل اور پرامن باہمی وجود سے رہتی ہیں اس لئے بڑے پیمانے پر تشدد یا نسل کشی کے امکانات مختصر ہیں لیکن پھر بھی ان خطرات کو صفر کے قریب نہیں سمجھا جائے گا لیکن شہریوں میں بڑھتا ہوا انتہا پسندی کا رجحان ایک بڑے تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔
کارپوریٹ سیکٹر کو نفرت اور غلط اطلاعات کے پھیلاؤ کے خاتمہ کے لئے ایک اہم کردار ادا کرنا ہے‘ اسی لئے مکتوب میں یہ گزارش کی گئی ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر Stop Funding Hate اور اپنی آواز کو ملک میں فروغ بھائی چارگی کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔
آئی آئی ایم بی کے دانشوروں نے اپنے مکتوب میں چار نکات پر کارپوریٹ سے اپیل کی ہے کہ جن کو اختصار کے ساتھ شامل مضمون کیا جارہا ہے ۔ تفصیلات کے خواہشمند انٹرنیٹ کے ذریعہ اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔
(1) نفرت کے لئے رقمی اعانت ختم کی جائے۔
(2) ذمہ دار Stake Holders(متعلقین) کو سہارا دیا جائے۔
(3) اطلاعات کو منظم کرنے Work Culture قائم کیا جائے۔
(4) آواز کو فروغ بھائی چارہ کیلئے استعمال کیا جائے۔
بھارت میں نفرت کی سنگین صورتحال کا حقیقی ذمہ دار سنگھ پریوار ہے‘ انہوں نے اپنے خفیہ مقاصد کی تکمیل اور ملک میں ہٹلر شاہی کے فروغ کیلئے نفرت کا ہتھیار ملک کی اقلیتوں میں بالخصوص مسلمانوں کو اس کا نشانہ بنایا اور اب تو دیدہ دلیری اور بلڈوزر کے سہارے ملک میں نفرت کا ایک سونامی برپا کردیا اور یہ نفرت کا وائرس ‘ بے لگام ملک میں پھیلتا ہی جارہا ہے۔ اس تعلق سے آئی آئی ایم بنگلور کے پروفیسرس کا ضمیر جاگا اور انہوں نے ضمیر کی آواز پر ایک کھلے مکتوب کے ذریعہ گودی میڈیا کی کھل کر اور بے باکی سے سرزنش کی اور ان کے کارپوریٹ آقاؤں تک یہ پیغام پہنچایا کہ ملک کی حقیقی ترقی کیلئے کیسے کارپوریٹ کردار کا وقت تقاضہ کررہا ہے جبکہ کارپوریٹ طبقہ حکمرانوں کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے ملک میں نفرت کے فروغ کیلئے سرمایہ اور اپنی توانائیاں صرف کررہا ہے اور یہی سرمایہ کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھ لگ رہا ہے اور کارپوریٹ گھرانے اس سرمایہ کو گودی میڈیا پر نچھاور کررہے ہیں اور گودی میڈیا ملک میں نفرت کے ڈھول پیٹ کر ملک کے بھائی چارہ کی فضاء کو نفرت سے مسموم کررہا ہے۔
ذرا غور کیجئے کہ بنگلور کے دانشور مسلمانوں کی فکر میں عملی اقدام کرتے ہوئے اپنی صدائے فکر بلند کئے ہیں لیکن مسلمان غفلت کا ثبوت دیتے ہوئے آپسی انتشار اور خون خرابے میں مصروف ہیں۔ جوش اور جذبے اور آپسی انتقام کی آگ اور حسد ان کو خاک میں ملارہاہے۔
پون صدی کے ظلم و ستم اور بربادی بھی ان کو خواب غفلت سے بیدار نہیں کرسکی‘ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے سروں پر ظلم‘ دہشت اور نفرت کی تلوار معلق ہوگئی لیکن اس کے بعد بھی بیداری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بربادی ان کا مقدر ہوچکی ہے۔
پروفیسرس کے مکتوب کی طرح ملک کے دوسرے حصوں کے دانشور بھی ملک میں پھیلائی گئی نفرت اور دہشت کے خلاف آواز اٹھاتے تو حق انسانیت ادا ہوتا۔ ملک کی سیاسی جماعتیں تو اپنے مفادات کے تحفظ میں اور گروپ بندیوں اور سیٹوں کی تقسیم میں سرگرم ہیں۔ ان کو فکر ہی نہیں ہے کہ ملک میں جمہوری حکومت کی ‘ کشتی میں نفرت اور دہشت کی چھید پڑگئی اور اس کشتی کے ڈوبنے کے آثار نمایاں ہیں۔ ملک تیز رفتاری سے آمریت اور فسطائیت کی سمت جارہا ہے۔ اس غرق ہوتی ہوئی کشتی کو صرف بیلٹ پیپر کے استعمال اور ایک مضبوط مفادات سے عاری اتحاد ہی اس کو ساحل سے قریب کرکے دستور اور جمہوریت کو بچاسکتا ہے۔ایک بات جس پر ملک کی مظلوم اقلیتیں غور کرنے پر مجبور ہیں کہ بھارت کو وشوا گرو بننے کیلئے کیا مظلومین کے خون کی ضڑورت ہے۔ کیا بھارت نفرت اور دہشت کا وشواگرو بن کر ہی عالم میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا چاہتے ہے۔ ایسا ہی خواب ہٹلر نے بھی دیکھا تھا‘ اس کا جوعبرت ناک انجام ہوا اس سے بھی ساری دنیا واقف ہے۔ نفرت کی آگ‘ آگ لگانے والے کو بھی اپنے زد میں لے لے گی اور اس میں سارے ملک کا نقصان ہوگا۔ آئین اور سب مل کر وطن عزیز کو نفرت اور دہشت اور ہٹلر کے چیلوں سے پاک کرنے کا عزم مصمم کریں تاکہ خالق کی اس سرزمین پر انسان پرسکون اور امن و بھائی چارگی‘ دوستی اور محبت سے زندگی گزارتے ہوئے جیو اور جینے دو کے فلسفہ پر عمل کرسکے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w