مسلم باپ کا کمسن بچوں کوماں کی تحویل سے لینا اغواکے مترادف نہیں
آندھراپردیش ہائی کورٹ نے محمد آصف احمد اورریاست اے پی کے درمیان ایک کیس میں مشاہدہ کیاکہ اگرکوئی مسلم باپ‘ 7 سال سے زائد عمر کے نابالغ مرد بچے کو ماں کی تحویل سے لے کر جاتاہے تو اس کواغواتسلیم نہیں کیاجائے گا
حیدرآباد: آندھراپردیش ہائی کورٹ نے محمد آصف احمد اورریاست اے پی کے درمیان ایک کیس میں مشاہدہ کیاکہ اگرکوئی مسلم باپ‘ 7 سال سے زائد عمر کے نابالغ مرد بچے کو ماں کی تحویل سے لے کر جاتاہے تو اس کواغواتسلیم نہیں کیاجائے گا کیونکہ مسلم لاء کے تحت باپ‘ قانونی اعتبار سے سرپرست ہوتاہے۔
عدالت العالیہ کے سنگل جج جسٹس کے سرینواس ریڈی نے باپ کے خلاف اغوا کے کیس کوخارج کرتے ہوئے مشاہدہ میں یہ بات کہی۔ ایک قانونی سرپرست یقینی طورپر قانون کے تحت جائز سرپرست ہے۔ اگر وہ (مسلم باپ)نابالغ بچے کوماں کی تحویل سے جو یقینی طورپرقانوناً اور فطری سرپرست نہیں ہے‘ لے جائے تو اسکو اغواکے جرم کا ارتکاب نہیں کہاجاسکے گا ہاں البتہ کم عمربچے کومحضوص عمر تک ماں کی تحویل میں رکھناضروری ہوتا ہے۔
اس موجودہ کیس میں بنچ نے کہاکہ فریقین محمڈن لاء پرعمل کررہے ہیں۔اس لئے مرد بچے کی کم عمری کے دوران باپ‘ اس کا قانوناً سرپرست ہے اورماں اس جیسے بچے کوصرف 7 سال کی عمرتک اپنی تحویل میں رکھنے کی دعویدار ہوسکتی ہے۔ریاستی ہائی کورٹ‘ آئی پی سی کے تحت اغوا کے جرم میں 2022 میں باپ کے خلاف درج ایف آئی آر کوکالعدم قرار دینے کی ایک عرضی کی سماعت کررہی تھی۔
باپ پرالزام عائد کیاگیا تھا کہ وہ دیگر 4 افراد کے ساتھ مل کر اس کے دونوں بچوں جن کی عمریں 8اور10سال بتائی گئی ہیں کا اغوا کیاتھا یہ دونوں بچے‘ماں کی تحویل میں تھے۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ اگران الزامات کوسچ بھی مان لیاجائے تب بھی اغوا کا جرم ثابت نہیں ہوگا کیوں کہ درخواست گزار سنی مسلمان ہیں اوروہ سنی مسلک سے وابستہ ہے۔
اس کے مطابق باپ کو 7 سال عمر کے بچوں کے اغوا کے جرم میں ماخوذنہیں کیاجاسکتا کیوں کہ وہ (باپ) محمڈن لاء کے تحت ان بچوں کا قانونی طورپرسرپرست ہے۔ وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ بچوں کا باپ اور اس کے چچانے ان 8اور 10سال عمر کے دونوں بچوں کوان کے نانا اورنانی سے چھین لیاہے تھا۔
اس طرح والد کے ذریعہ بچوں کو حاصل کرنا(لے جانا) کسی بھی طرح سے اغواکے مفہوم ومعنیٰ میں نہیں آئے گا۔ اس کیس میں عدالت نے نوٹ کیاکہ اگر چیکہ دونوں بچے نابالغ ہیں لیکن ان کی عمریں 7 سال سے زائد تھی۔محمڈن قانون کے مطابق ماں‘ بچے کی جنس کے مطابق مخصوص عمرتک بچے کو اپنی تحویل میں رکھنے کی حقدار ہے اور یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ماں‘فطری طورپر بچوں کی سرپرست نہیں ہے دوسری جانب‘ باپ اکیلاہی فطری طورپرسرپرست ہے۔
اگر اس کیس میں باپ فوت ہوجائے توایسی صورت میں سنی مسلک کے مطابق اس کی وصیت کردہ شخص ہی (ایکسکیوٹر) ہی ان بچوں کاقانوناً سرپرست رہے گا۔عدالت نے نوٹ کیا کہ پولیس کودی گئی رپورٹ کے مطابق بچے ماں کے والدین (نانانانی) کے ساتھ رہتے تھے جبکہ ماں‘ حیدرآباد میں برسر روزگار ہے۔ عدالت نے کہاکہ ایسے حالات میں اگر باپ جوبچوں کاقانونی سرپرست ہے‘ نانا نانی سے ان بچوں کوچھین لے تواس کایہ اقدام اغوا کے دائرہ میں نہیں آئے گا۔
سنگل جج نے مشاہدہ کیا کہ بچوں کی کفالت کے متعلق ماں کاحق مطلق نہیں ہے اوریہ حق سرپرست باپ کے حق سے بالاتر نہیں ہے اس لئے عدالت نے باپ کے خلاف اغوا کے کیس کی کارروائی کو کالعدم قراردے دیا۔