مضامین

مسلم قیادت کل اور آج

محمد ضیاءالدین

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر دیکھ کر جہاں افسوس ہوا، وہیں شرمندگی بھی ہوئی کہ آخر ہم لوگ کہاں پہنچ چکے ہیں اور وہ ہماری خودداری و غیرت ملی کہاں چلی گئی وہیں یہ سوال بھی ذہن میں آیا کہ کیا مفادات اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ انسان کی خودی حمیت ہی نہیں بلکہ دین و ایمان پر بھی حاوی ہوجاتے ہیں ۔گزشتہ کچھ برسوں سے مہاراشٹر کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا اور اس بدلے ہوے منظر نامے میں یہ دیکھنے میں آیا کہ مہاراشٹر میں شیو سینا نے اپنی دیرینہ ساتھی جماعت سے علاحدگی اختیار کرلی، سبب یہ کہ جب تک مہاراشٹرا میں بی جے پی کمزور تھی وہ شیو سینا کی بیساکھیوں پر چلنے پر مجبور تھی وہیں وہ شیو سینا کے بال ٹھاکرے کی سخت و سست سننے اور بادل ناخواستہ ہر بات کو ماننے پر مجبور تھی، اس دور میں چونکہ اقتدار کی لالچ میں شیوسینا کے ہاتھوں ذلت کے گھونٹ پینے پڑے تھے اور بظاہر وہ گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوتی تھی لیکن یہ چیز اس کے قلب و ذہن میں گھر کر گئی تھی اور وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے موقع کی تلاش میں تھی اور یہ موقع اسے ملا نریندر مودی کے برسر اقتدر آنے کے بعد ۔ پہلے تو اس نے مرکز میں شیوسینا کو غیر اہم عہدے دے کر اس کی اوقات بتادی پھر ریاست میں بھی اس کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کیا اور دوسری ٹرم کے الیکشن کے بعد تو بی جے پی کی ریشہ دوانیاں دیکھ کر شیو سینا کی سمجھ میں آگیا تھا کہ بی جے پی شیوسینا کا کریا کرم کرکے رہے گی اور اس نے اپنی بقاءکے لیے ڈھائی سال کے سی ایم کا بہانہ بناکر بی جے پی کو گہر ا جھٹکہ دے کر کانگریس راشٹر وادی سے مل کر سرکار بنا لی ادھو ٹھاکرے سے ریاست کی اقلیتوں نے بھی اطمینان کا سانس لیا کہ چلو اچھا ہواکہ ایک فاشسٹ اور کٹر فرقہ پرست سرکار سے نجات ملی، یہ بھی ہے کہ ادھو ٹھاکرے کی ڈھائی سال کی سرکار ایک ذمہ دار اور سب کو لے کر چلنے والی سرکار ثابت ہوئی اور اس نے ریاست کو فرقہ واریت سے محفوظ رکھا ( جو بی جے پی کے آگ پر لوٹنے کا سبب بنا ) یہ تو ہوا سیاسی منظر نامہ لیکن یہ بھی ہے اس سے شیوسینا مسلمانوں کی ہمدرد نہیں ہوجاتی۔ مسلمانوں کو اس نے جو ذہنی اذیت پہنچائی، فسادات کے زریعہ جو جانی مالی نقصانات پہنچائے اور ریاست کے ماحول میں مسلم دشمنی کا جو زہر گھولا وہ ایک تلخ حقیقت ہے اور تو اور اس نے اپنے اس رویہ کی معافی مانگنا تو دور اس پر اظہار تاسف تک نہیں کیا، وہیں ہندو ووٹوں کے لیے اس نے مسلم دشمنی کا نہ صرف مظاہر ہ بلکہ اب تو مقابلہ بھی کرنا ہے، ایسی صورت میں ہم نے یہ شرمناک مناظر دیکھے ہیں کہ بہت سارے مسلمان (جن میں داڑھی ٹوپی والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے ) شیوسینا کے ایم ایل اے ایم پی و دیگر لیڈروں کے سامنے بچھے جارہے ہیں، چاپلوسی کی انتہا یہ کہ مسلم علاقوں میں ان کی برتھ ڈے مناکر ان کو پھولوں سے لادا جارہا ہے ، داڑھیوں ٹوپیوں والے ان کی شان میںقصیدے پڑھے جارہے ہیں، اشعار نذر کیے جارہے ہیں اور مبالعہ آمیز تعریف و توصیف کی جارہی ہے یہ بھلاکر کہ یہ وہی ناگ ہیں جو بارہا زہریلے پھن اٹھا کر فضا مین زہر پھیلاتے رہے ہیں۔ در حقیقت مسلمانوں میں ایک منافق طبقہ پہلے ہی سے موجود تھا جو اپنے مفادات کے لیے یا خوف کے سبب شیوسینا والوں سے اندرونی سانٹھ گانٹھ رکھتا تھا لیکن چونکہ عام مسلمان شیوسینا سے نفرت کرتا تھا، اس لیے یہ منافق ٹولہ کھل کر سامنے نہیں آتا تھا اب جبکہ سیاسی ماحول تبدیل ہو ا تو یہ کھل کر سامنے آگیا ۔ یہ بھی صحیح ہے کہ حالات کے اعتبار سے ہم کو ایسے لوگوں سے بھی ہاتھ ملانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے جن سے ہمیں نفرت ہے لیکن کسی کے ساتھ مفاہمت کا مطلب اس کے آگے سجدہ ریز ہوجانا اور چاپلوسی کی حدود کو پار کرنا نہیں ہوسکتا کیوں کہ تعاون اور ساتھ کی ضرورت یکطرفہ نہیں، اگر ہم کو اشرار کو روکنے کے لیے ان کا ساتھ دینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے تو ان کو بھی اپنی بقاءکے لیے ہماری مدد کی ضرورت ہے اور جو مدد چاہتا ہے اسے ہمارے پاس آنا ہوگا اور اپنے رویہ کی اگر معافی نہ بھی مانگے تو اظہار ندامت تو ضرور ہونا چاہیے، وہیں معاملہ برابری کا ہونا چاہیے، اگر ان کو ہماری مدد چاہیے تو اس مدد کے بدلے قوم کو کیا فائدہ ہوگا یہ بھی صاف ہونا چاہیے، فائدہ قوم ہونا چاہیے ،افراد کا نہیں اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہماری کوئی مضبوط قیادت ہو جو اپنی بات کو منوا سکے لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی قیادت کے نام پر وہ لو گ سامنے آرہے ہیں جو درپردہ جاکر سودے بازی کررہے ہیں اور اپنی خودداری کو نیلام کررہے ہیں۔ اگر یہ کسی فرد کا ذاتی معاملہ ہوتا تب سمجھا جا سکتا تھا لیکن افسوس کی بات یہ کہ یہ لوگ خود کو مسلم سماج کا قائد باور کرارہے ہیں اور موجودہ حالات میں سوشل میڈیا نے ہر ایک کو آزادی دی ہے کہ وہ خود کو جو چاہے سمجھے اور کہے۔ جب ایسے لوگ خود کو مسلمانوں کا لیڈر بتانے کی کوشش کرتے ہیں تب بہت تکلیف ہوتی ہے۔ آج جب ہم مسلمانوں کی لیڈر شپ کے نام پر اچھل کود کرنے والوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یاد آتی ہے ان کی جن کی ساری زندگی قوم و ملت کی فکر و نمائندگی میں گزر گئی۔ آزادی کے بعد کے پر آشوب دور میں نہایت جرات کے ساتھ سامنے آنے والی مخلص لیڈرشپ کی فہرست میں ایک نمایاں نام ہے ممتاز مسلم لیگی قائد الحاج غلام محمود بنات والا کا جن کو گزرے ہوے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، لیکن آج بھی جب مخلص جراتمند باصلاحیت اور بالغ نظر قیادت کی بات ہوتی ہے تو بنات والا کا نام سامنے آتا ہے ۔ گو کہ ملت نے بنات والا کی قربانیوں اور جدوجہد اور ان کے درجے کا خیال نہیں رکھا اور انھیں بہت جلد بھلادیا گیا تاہم یہ طئے ہے کہ وہ قیادت کے پیمانے پر کافی بلندی پر تھے۔ آج قیادت کے نام پر جو لوگ سامنے آرہے ہیں، ان کا بنات والا سے کوئی بھی موازانہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ ضرور ہے کہ آج دلی سے گلی تک جو لوگ سیاسی قیادت کے دعویدار ہیں، ان میں کسی بھی زاویے سے قیادت کی کوئی خو بو نظر نہیں آتی۔ آج سارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے ،ان کے عقائد پر، مذہبی مقامات پر حملے کیے جارہے ہیں، ایذارسانی کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ،کبھی ماب لنچنگ، کبھی لو جہاد، کبھی لینڈ جہاد، غرض کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے مسلمانوں پر مظالم ڈھاے جارہے ہیں، لیکن کہیں بھی قیادت نام کی کوئی چیز آگے نہیں آئی کہ وہ اس کا سدباب کرے، وجہ خوف ہے، حالانکہ ایسے ہی حالات ایمرجنسی کے زمانے میں بھی تھے تب بھی مخالفت کرنے والوں کو جیلوں میں ٹھونسا جارہا تھا اور تب بھی اقتدار کے بل پر من مانے فیصلے کیے جارہے تھے۔ سرکار کی ہٹلر شاہی کی شدید ضرب اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر پڑ رہی تھی۔ سرکار طاقت کے زعم میں تھی کہ اسے ایوانوں میں اکثریت حاصل تھی اور اپنی قاتلانہ اکثریت کے بل پر دستوری حقوق کا گلا گھونٹ رہی تھی اور سرکار کے تیور دیکھ کر کئی نام نہاد سورما اپنی دمیں نیچی کرچکے تھے، کئی کاغذی شیر معافی نامے پیش کر کے جان کی امان پاچکے تھے ، ان ہی حالات میں سرکار کے سر پر خاندانی منصوبہ بندی کا بھوت سوار ہوچکا تھا اور اس کے لیے ظلم وجبر کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا مردوں کی پولیس کی مدد لے کر جبری نس بندی کرائی جارہی تھی لوگ ہراساں و پریشاں، مرد گھر چھوڑکر کھیتوں اورویران علاقوں کی سمت بھاگ رہے تھے ۔ ایسے مین مہاراشٹر کی کانگریس سرکار نے مہاراشٹر اسمبلی میں لازمی نسبندی کا بل پیش کیا، کیوں کہ اسے اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی جس کے بل پر وہ آسانی سے یہ بل پاس کرا سکتی تھی۔ رہی بات اپوزیشن کی تو سرکار جان گئی تھی کہ اب ان تلوں میں تیل نہیں، سارا ماحول ایسا تھا گویا کہ سیاں بھئیے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔اسی زعم میں مہاراشٹر اسمبلی میں لازمی نسبندی بل پیش کردیا، اس توقع کے ساتھ کے کوئی اس کی مخالفت کی جرات نہیں کرے گا لیکن ان ہونی ہوگئی۔ ایک آواز اٹھی، ساری نظریں اس سمت اٹھ گئیں ، ایک دھان پان شخصیت سارے سرکاری رعب داب کو ٹھکرا کر اس بل کی مخالفت میں سینہ سپر ہوگئی۔ ایک ایسا شخص ایوان میں جس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا کہ وہ ایوان میں اپنی پارٹی کا واحد ممبر تھا، ایک طرف یہ اکلوتی آواز دوسری طرف وہ اپوزیشن جس کے پاس کچھ نہ کچھ اراکین تھے ،جن میں وہ بھی تھے جو عام حاالات میں زبان سے شعلے اگلتے تھے، لیکن سب چپ تھے۔ بنات والا کی آواز نے انھیں حیرت زدہ کردیا۔ بنات والا جانتے تھے کہ اس بل کی زد میں غریب مسلمان ہی آئے گا لیکن ان کی فراست کہ انھوں نے اسے ذات دھرم کا مسئلہ نہ بناتے ہوے انسانیت کا مسئلہ بنادیا۔ ان کے پاس قوت استدلال تھی انھوں ایوان میں طب اخلاقیات اور مذاہب کی کتابوں کا ڈھیر لگا کر بتادیا کہ سرکار کا یہ بل انسانیت کے خلاف ہے۔ بنات والاکی اس جرات کی چرچا نہ صرف ملک بلکہ ساری دنیا میں ہوئی اور بنات والا کی قوت استدلال نے سرکار کو مجرم کے کٹھرے میں کھڑا کردیا۔ گو کہ اپنی اکثریت کے بل پر یہ بل پاس کردیا گیا، لیکن اس بل کے خلاف بننے والی راے عامہ نے صدر جمہوریہ کو مجبور کردیا کہ وہ اس پر دستخط نہ کرتے ہوئے اسے واپس کردیں اور یوں ایک شخص کی جرات مندانہ قیادت نے ہزاروں غریب لوگوں کو سرکاری جبر سے بچالیا۔ یہ ہوتی ہے حقیقی قیادت۔ جب میونسپل کارپوریشن کے مدارس میں وندے ماترم پڑھنے کی پابندی لگائی گئی تو بنات والا نے کھل کر اس کی مخالفت اس بنیاد پر کی کہ اس میں شرکیہ کلمات ہیں جو مسلم طلباءکے عقائد کے خلاف ہیں، اس لیے مسلمان بچے کسی حال میں بھی وندے ماترم نہیں پڑھیں گے۔ بنات والا کی اس مخالفت پر طوفان کھڑا ہوا فرقہ پرستوں نے بنات والا کی گرفتاری کے مطالبے کیے، لیکن ان کے پائے استقلال نہیں ڈگمگاے۔ انھوں نے آج کے خوف زدگی کے عالم میں ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر یوگا کرنے والوں کی طرح کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ وہ اپنے عقیدے کے تحفظ کے لیے ڈٹ گئے قدرت نے انھیں زبردست قوت خطابت عطا کی تھی۔ وہ گھنٹوں تقریر کرتے تب بھی لوگ انھیں ہمہ تن گوش سنتے رہتے۔ پارلیمنٹ میں ان کی آواز نہایت توجہ سے سنی جاتی تھی ان کے مخالفین بھی ان کی جرات گفتار اور حق گوئی کے قائل تھے وہ پچھلی صدی کی ساتویں دھائی تھی جب سارے مہاراشٹر میں بنات والاکی تقاریر گونج رہی تھیں۔ان کے جوہر خطابت نے عام مسلمانوں کے دلوں میں آس اور امید کی جوت جگادی تھی اور ان کے دلوں سے فرقہ پرستوں کے خوف کو ختم کردیا تھا۔ یہی سبب تھا کہ اس دور میں سارے مہاراشٹر بالخصوص مراٹھواڑہ اور ودربھ میں ایک سبز لہر دوڑ گئی تھی۔ بنات والا نے مردہ دلوں میں جان دوڑا دی تھی اور ملت کو اتحاد کے دھاگے میں پرودیا تھا۔ نتیجے میں مسلم لیگ ایک تیسری طاقت بن کر ابھری تھی اور بیشتر مقامات یا تو خود کے بل پر یا دیگر پارٹیوں کی مفاہمت سے مقامی اداروں کے اقتدار پر براجمان ہوچکی تھی۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

a3w
a3w