مفتی محمد صادق حسین قاسمی
القلم فاؤنڈیشن کریم نگر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق جو اعمال انجام دئیے جاتے ہیں اس میں خیر وبرکت ہوتی ہے۔سیرتِ طیبہ میں انسانی زندگی کے مختلف امور کے لئے بہترین رہنمائی موجود ہے۔ حیات ِ انسانی کے ہر شعبے میں تعلیمات ِ رسولؐ رہبری کرتی ہیں،اسوہ ٔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش ِ نظر رکھ کر انسان اپنے اعمال کو بہتر کرسکتا ہے اور زندگی کا حقیقی لطف بھی حاصل کرسکتا ہے۔نکاح بھی اسلام کا ایک اہم ترین عمل ہے،دنیا کی دیگر قومیں اس سلسلہ میں بے بہرہ ہوسکتی ہیں لیکن مسلمانوں کو نکاح کے سلسلہ میں گراں قدر تعلیمات سے نوازا گیااور بیش قیمت ہدایات عطافرمائی گئیں۔
نکاح کو اسلام میں بہت اہمیت دی گئی اور اس کو دین کا ایک اہم حصہ قراردیا گیا ،جو لوگ بے نکاح ہیں ان کے نکاح کرنے کا حکم دیا گیااو ر بے شمار فوائد وبرکات نکاح کے بتائے گئے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا: وانکحوا لایامی منکم والصلحین من عبادکم وامائکم ان یکونوافقرا یغنھم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیم۔( النور:۳۲)’’تم میں جن (مردوں یا عورتوں ) کا اس وقت نکاح نہ ہو،اُن کا بھی نکاح کراؤ،اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں جو نکاح کے قابل ہوں ،اُن کا بھی۔اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے اُنہیں بے نیازکردے گا۔اللہ بہت وسعت والاہے،سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قراردیتے ہوئے اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ارشاد فرمایا: النکاح من سنتی فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی۔ (ابن ماجہ: ۱۸۴۶) کہ’’ نکاح میری سنت ہے جو شخص میری سنت پر عمل نہیں کرتاوہ میرے طریقے پر نہیں۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو تمام نبیوں کی سنت قرار دیا، ارشاد فرمایا: اربع من سنن المرسلین الحیاء والتعطروالسواک والنکاح۔ (ترمذی:۹۹۶)’’چارچیزیں رسولوں کی سنت ہیں۔ (۱) حیا (۲) خوشبولگانا (۳) مسواک کرنا(۴) نکاح کرنا۔
‘‘نکاح کرنے سے بندہ اپنے دین کے آدھے حصے کوپورا کرلیتا ہے،چنانچہ آپؐ نے فرمایا: اذا تزوج العبد فقد کمل نصف الدین ،فلیتق اللہ فی النصف الباقی۔ (شعب الایمان:۵۰۶۹) ’’جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو اس کا آدھا دین مکمل ہوجاتا ہے،پس باقی آدھے دین میں وہ اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘نوجوانوں کو نکاح کرنے کا حکم بھی دیااور نکاح کے ذریعہ جو فائدہ حاصل ہوگا اس کو بیان بھی کیا۔ یا معشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج۔ (بخاری: ۱۹۰۵) کہ اے نوجوانوں کی جماعت!تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہے وہ ضرور نکاح کرلے ،اس لئے کہ نکاح بدنگاہی اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک تعلیمات میں نکاح کو دین کے نصف حصے کے پورے کرنے کا ذریعہ قراردیا،اور قرآن کریم میں بے نکاحوں کے نکاح کرنے کاحکم دیا گیا،اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ نکاح کی اہمیت شریعت اسلامی کس قدر ہے،اور اسلام نے نکاح کو عبادت کی طرح قراردیا۔
نکاح کو بھی دین کا اہم ترین حصہ سمجھنے کی ضرورت ہے،اور جب وہ نبی کی تعلیمات کا اہم جز ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات وتعلیمات کا اہم عنوان ہے تو پھر اس کو انجام دینے میں بھی نبیؐ کے اسوہ کو دیکھنا ضروری ہوگاکہ کس طرح آپؐ نے اس عمل کو انجام دیا۔جس طرح نماز پڑھنے کے لئے نبیؐ کی تعلیمات کو دیکھا جاتا ہے،اور وہی نماز قابل ِ قبول ہوگی جس میں نبیؐ کی سنتوں کا اہتمام کیا گیا ہوگا۔اگر کوئی اپنی مرضی سے نماز کے اعمال وارکان میں تبدیلی کردے یا ممنوع اوقات میں نماز پڑھنے لگے،تو وہ نماز قبول نہیں ہوگی۔روزہ رکھنے والا اگر روزہ اپنی خواہش کے مطابق رکھنا شروع کردے،کھانے پینے سے بچنے کے بجائے کھاتے پیتے روزہ رکھنے کو جائزسمجھے تو ہرگز وہ روزہ نہیں کہلائے گا۔
اسی طرح بے شمار اعمال ہیں جن کی شریعت میںتعلیم دی گئی ہے اگر کوئی ان تعلیمات سے ہٹ اپنی مرضی سے اعمال وعبادات کوانجام دینے کی کوشش کرے گا تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا،اور نہ ہی ان عبادتوں کی برکات حاصل ہوںگی۔اسی طرح نکاح ہے جس کا عملی نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا،اسی میں انسانوں کے لئے برکتیں اور رحمتیں ہیں ،اس سے ہٹ کر کریں گے تو وہ نکاح جیسے عظیم عمل کی برکات سے محروم ہوجائے گا۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں: اساس الخیر متابعۃ النبیﷺ فی قولہ وفعلہ۔ (الفتح الربانی مجلس ۵۹ بحوالہ سنت کی عظمت:۳۷) یعنی ساری خوبیوں کی جڑ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہے آپ کے قول میں بھی اور آپ کے فعل میں بھی۔ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں: لاتصح متابعتک للرسول ﷺ حتی تعمل بماقال۔(حوالہ سابق) تیری متابعت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صحیح نہیں جب تک کہ تو اس شریعت پر عمل نہ کرے جس کا آپؐ نے تجھے حکم دیا ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ فرماتے ہیں: سنت کی مخالفت کرکے سلامتی حاصل نہیں ہوسکتی ،اور اللہ تعالی کو ناراض کرکے مخلوق کی رضا حاصل نہیں کی جاسکتی ۔( اسلاف کے سنہرے اقوال:۱۱۱)
نکاح کے سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ارشادات ہیں،لڑکی کے انتخاب سے آخر آپؐ نے امت کی رہنمائی فرمائی ہے۔اس موقع پر نکاح سے متعلق ایک اہم چیز کی طرف توجہ دلانی ہے کہ نکاح کو آسان اور کم خرچ والا بنایا جائے ،کیوں کہ مسنون نکاح کا ایک اہم حصہ نکاح کو’’ آسان‘‘ بنانا ہے،فضول خرچی اور اسراف سے بچتے ہوئے حد ِ اعتدال میں رہتے ہوئے نکاح کو انجام دینا ضروری ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان اعظم النکاح ایسرہ مؤنۃ۔ ( مسند احمد:۲۴۰۰۷) یعنی زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس کا خرچ کم سے کم اور ہلکا ہو۔‘‘ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: خیر النکاح ایسرہ ۔( ابن حبان :۴۰۷۲) یعنی سب سے زیادہ خیروالا نکاح وہ ہے ،جو آسان ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں متعدد نکاح فرمائے ،کہیں پر بھی آپ نے تکلف اور فضول خرچی نہیں فرمائی ،بلکہ آسانی کے ساتھ جو میسر تھا،اسی کے ذریعہ اپنا ولیمہ فرمایا۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب ؓ کے برابر کسی بیوی کا ولیمہ نہیں کیا،اس میں ایک بکری سے ولیمہ کیا تھا۔( بخاری:۵۱۶۸ ) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی کا ولیمہ حضرت زینب ؓ کے ولیمہ سے زیادہ یا بڑا نہیں کیا۔حضرت ثابت بنانی ؒ نے حضرت انس ؓ سے عرض کیا کہ یہ ولیمہ کس چیز سے کیا؟حضرت انس ؓ نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت زینبؓکے )ولیمہ میں روٹی اور گوشت کھلایاتھا،یہاں تک کہ کھانے والوں سے کچھ کھانا بچ بھی گیا۔( مسلم:۱۴۲۸ )
احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر ولیموں کی تفصیلات بھی موجود ہیں کہ کس طرح آپؐ نے نہایت سادگی اور آسانی کے ساتھ نکاح فرمایا،تاکہ امت کو اس سلسلہ میں تعلیم ملے کہ نکاح یا شادی کوئی بوجھ نہیں ہے کہ جس کے لئے بڑے خرچے کئے جائیں ،اور جب تک اس کا انتظام نہ ہوبے نکاحی کی زندگی گزاریں۔آپؐ کے اسی طرز ِ عمل کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ کرام ؓ نے نکاح کو بوجھ نہیں سمجھا ،جب ضرورت اور تقاضا ہوا ،خاموشی اور سادگی کے ساتھ نکاح کرلیا۔صحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کا واقعہ اس سلسلہ میں کافی مشہور ہے کہ :حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے،جن پر ( زعفران کا)کچھ پیلا رنگ لگاہواتھا،ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رنگ کے بارے میں معلوم کیا ؟تو حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے جواب میں عرض کیا کہ میں نے انصار کی ایک عورت سے نکاح کرلیا ہے،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:کہ تم نے اس کوکتنا مہرادا؟حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے عرض کیاکہ گٹھلی کے برابر سونا،پھر رسول اللہ ؐ نے ان سے فرمایا کہ تم ولیمہ کرو،اگرچہ ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو۔( بخاری:۲۰۴۸) اسی طرح دیگر صحابہ کے بھی واقعات ہیں کہ جنہوں نے خاموشی کے ساتھ نکاح کو انجام دے لیا۔
جب شادیاں آسانی کے ساتھ ہوں گی اور اس میں اسراف وفضول خرچی سے اجتناب ہوگا وہ پھر اس کی بے شمار برکتیں ظاہر ہوں گی ،اور شادی شدہ جوڑا خوشگوار زندگی بسر کرے گا۔موجودہ دور میں نکاح کو کس قدر مشکل بنالیا گیا ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے اب سے بہت پہلے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا تھا :’’اسلام نے نکاح کو اتنا آسان اس لئے کیا کہ نکاح انسانی فطرت کا ایک ضروری تقاضا جائزطریقے سے پوراکرنے کا بہترین ذریعہ ہے،اور اگر اس جائز طریقے پر روکاوٹیں عائد کی جائیں ،یا اس کو مشکل بنایا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ بے راہ روی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے،جب کوئی شخص اپنی فطری ضرورت پوری کرنے کے لئے جائز راستے بند پائے گا تو اس کے دل میں ناجائز راستوں کی طلب پیداہوگی ،اور اس طرح پورا معاشرہ بگاڑکا شکار ہوگا۔
لیکن اسلام نے نکاح کوجتنا آسان بنایاتھا،ہمارے موجودہ معاشرتی ڈھانچے نے اسے اتنا ہی مشکل بناڈالاہے،نکاح کے بابرکت معاہدے پرہم نے لامتناہی رسموں ،تقریبات اور فضول اخراجات کا ایسا بوجھ لادرکھا ہے کہ ایک غریب ،بلکہ متوسط آمدنی والے شخص کے لئے بھی ایک ناقابل عبور پہاڑبن کر رہ گیاہے،اور کوئی شخص اس وقت تک نکاح کا تصور نہیں کرسکتا،جب تک اس کے پاس( گری سے گری حالت میں بھی) لاکھ دو لاکھ روپے موجود نہ ہوں۔یہ لاکھ دولاکھ روپے نکاح کی حقیقی ذمہ دایاں پوری کرنے کے لئے نہیں بلکہ صرف فضول رسموں کا پیٹ بھرنے کے لئے درکار ہیں۔( ذکر وفکر:۲۶۸)
نکاح کو مسنون اور آسان بنانے سے وقت مقررہ پر لڑکے اور لڑکیوں کی شادیاں آسانی سے ہوجائیں گی،زیادہ پیسے جمع کرنے کی فکر میں نہ لڑکے کی عمر ضائع ہوگی اور نہ ہی لڑکی گھر میں بیٹھی رہے گی،ایمان کی بھی حفاظت ہوگی اور اخلاق کی بھی،غیر ضروری بلکہ غیر شرعی رسموں کا سلسلہ ختم ہوجائے گا،اورسنتوں کے مطابق نکاح کو انجام دینے کی توفیق ملے گی،سنت کی رعایت کے ساتھ کی جانے والی شادی میں اللہ تعالی برکت عطا فرمائے گااور زوجین میں خوب محبتیں پیدافرمائے گا۔مال ودولت کی حرص ولالچ کے بغیر نکاح کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی دونوں خاندانوں میں الفت عطاکرے گا،اورکوئی کسی سے شکوہ وشکایت نہیں کرے گا،نہ ہی لڑکیوں کو باربار طعنے سننے پڑیں گے
۔مال کو ضائع کرنے سے،ریاکاری ودکھاوے جیسے مذموم عمل سے انسان محفوظ رہے گا،تکبر وگھمنڈ سے حفاظت ہوگی ،اور اپنوں پیسوں کو ضروری اور اپنی اور ملت کی تعمیر میں خرچ کرنے کا موقع ملے گا۔غرض کہ مسنون نکاح خوبیوں اور فوائد کا مجموعہ ہے۔رحمتوں ،برکتوں کا ذریعہ ہے۔معاشرہ میں نکاح کو مسنون بنانے کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ہر فرد کو آگے بڑھنا ہوگا،اور اس کے لئے جو حضرات فکر وکوشش کررہے ہیں ان کا ساتھ دینا ہوگا،تاکہ ہمارے معاشرے میں نکاح واقعی مسنون ہوجائے ۔
اس کے لئے گذشتہ دنوں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی صدارت میں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے زیر اہتمام ’’المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد‘‘ میں علماء وذمہ داران کا اجلاس ہوا،جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء بھی شریک ہوئے ،جس میں ریاست بھر میں بالخصوص ’’مسنون نکاح‘‘ کی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔اس تحریک کو بھی کامیاب بنانے کے لئے ملت کے فرد کو بھرپور ساتھ دینے کی سخت ضرورت ہے،تاکہ ہمارے معاشرے سے فضول تقریبات کا خاتمہ ہو،مشکل نکاحوں کا سلسلہ رکے،جہیز،جوڑے کی رقم جیسے چیزیں ختم ہوں،اور سنت وشریعت کے مطابق شادیاں انجام پائیں۔ان شاء اللہ اس کے نتیجہ میں فائدے ہر فردِ ملت کو محسوس ہوں گے۔
٭٭٭