مضامین

معاشرہ میں بڑھتی جہالت اور خونی رشتوں کا جنازہ

سید فاروق احمد سید علی

محترم قارئین کرام! گزشتہ دہائی سے ہم اپنے اطراف خصوصاً اغیار میں بیٹیوں کو پیدا ہونے سے پہلے رحم ِ مادر میں ماردینے کی خبریں سنتے اور دیکھتے تھے۔ ان خبروں سے بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ دل خون کے آنسو رونے لگتا تھا۔ لیکن جوں جوں معاشرہ ترقی کررہا ہے، انسان بڑی بڑی ڈگریاں حاصل تو کررہا ہے لیکن اسی رفتار سے جہالت میں بھی اضافہ ہووہا ہے۔ دنیا میں آنے سے پہلے بچی کا قتل کردینے کی خبریں اب اتنا کرب نہیں دیتیں کیوں کہ اب ننھے منے غنچوں کو خود باغ کے مالی کے ہاتھوں مسل کر اس کا وجود ختم کرنے کے ہوش ربا واقعات بھی رونما ہورہے ہیں۔ ستم بالائے ستم!—- اور یہ جرم اغیار اور غیر ایمان والوں میں ہی نہیں بلکہ مسلمانوں میں بھی انجام دیا جارہا ہے۔ اس جرم میں غیر تعلیم یافتہ افرادکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سب سے زیادہ افراد تو تعلیم یافتہ ہیں۔ جی ہاں!— اس دین کے ماننے والے جو کیڑے مکوڑے چرند پرند سے بھی رحمدلی سے پیش آنے کا سبق دیتا ہے۔ ان دنوں اصلاح معاشرہ اور دینی کاموں کی تعلیمات کی سمت کاوشیں زوروں پر ہیں، کوچہ کوچہ میں سماجی خدمات انجام دینے والی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں ،پھر بھی ملت میں یہ مذموم واقعات۔ چہ معنی دارد؟ یہ واقعات ہمارے ذہن کے دریچے پر دستک دیتے ہیں۔ خود احتسابی کی دعوت دیتے ہیں۔ اولاد جو ماں باپ کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے سب سے بڑا انعام اور تحفہ ہے، وہی ماں باپ اپنی جہالت پر اتر آئے ہیں۔۔ایک طرف جہاں والدین کئی کئی سالوں تک اولاد کے لیے ترستے ہیں، کیا کیا جتن کرتے ہیں، کون کون سے علاج نہیں کرواتے ہیں، لیکن وہیں دوسری طرف معاشرہ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ گھریلو جھگڑوں، بے راہ روی، غربت، بیروزگاری‘ مہنگائی اور معمولی معمولی باتوں پر اپنے ہی اپنوں کا قتل کرنے لگے ہیں اور ایسے واقعات میں گزشتہ چند دنوں میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھنے کوملا ہے۔ مختلف وجوہات پر ماں باپ کی طرف سے اپنے بچوں کو قتل کرنے کے متعدد ایسے دلخراش واقعات رونما ہو چکے ہیںکہ جنہیں سوچ کر دل دہل اور کلیجہ پسیج جاتا ہے۔ جنہیں دیکھ کر سن کر انسان ایسی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا خونی رشتے بھی قابلِ اعتبار نہیں رہے؟اورکیا ماں جیسا مقدس رشتہ بھی اب بھروسہ کے قابل نہیں رہا۔ہمارے شہر اورنگ آبادمیں بھی ایک ایسا دلسوز واقعہ پیش آیا کہ روح کانپ اٹھی۔ایک شقی القلب ماں نے اپنے ہی جگرکے ٹکڑوں خوبصورت بیٹا اور بیٹی کو صبح کی اولین ساعتوں میں منہ اور گلادبا کر قتل کردیا۔نماز جنازہ میں شامل ایسا کوئی شخص نہیں تھا جس نے اپنی آنکھوں سے آنسو نہ ٹپکائے ہوں۔وجہ قتل تو اب تک نہیں پتہ چل پائی کہ آخر ایسی کیا خطرناک اور حل نہ ہونے والا مسئلہ در پیش تھا جس کے باعث اس ماں نے یہ آخری قدم اٹھایا۔کیسے اس ممتا کے اندر اچانک درندگی جاگھسی تھی کہ اس نے ایک معصوم کو ختم کرنے کے بعد دوسرے لاڈلے کو بھی ختم کرڈالا!۔اسی طرح دوسرا واقعہ پمپری میں بھی پیش آیا جہاں ایک ماں نے غریبی سے تنگ آکر پہلے اپنے جگر کے تینوں ٹکڑوں کو پے درپے ختم کیا اور پھر خود کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔
آخر یہ کیا ہوگیا ہے ہماری ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں کو کہ وہ آخری قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ضرور کوئی خطرناک وجہ رہی ہوگی لیکن ایسی بھی کیا وجہ ہوگی جو حل نہ ہوتی ہوگی۔۔۔افسوس صد افسوس۔۔۔آخر ان معصوموں کی کیا غلطی تھی۔وہ کمسن بچے جنہوں نے زندگی کے کچھ برس ہی گزارے تھے۔جنہیں ابھی اسکولوں کالجوں میں پڑھنا تھا،جنہوں نے زندگی میں ابھی کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہیں کیا تھا۔ جنہیں شاید ابھی لفظ موت اور قتل سے واقفیت بھی نہ تھی۔ جنہیں ابھی دنیا کی درندگی کا اندازہ بھی نہ تھا۔ جن کی عمر کھیلنے کی تھی۔ اور ابھی وہ ماں کی ممتا میں خوشیوں کے متلاشی تھے، جس ماں کی گود میں کھیلنا تھا جس کے ہاتھوں سے غذا کے لقمے کھانے تھے، انہیں ہاتھوں نے نہ جانے کیسے گلا اور منہ دبایاہوگیا۔۔۔۔ کہاں سے اکٹھا کی ہوگی اتنی ہمت۔۔۔۔اگلے جہاں میں بیٹھے یہ معصوم بچے ضرور افسردہ ہوں گے اور اپنے رب سے گلہ بھی کریں گے۔ اے خدایہ یہ کیا ہوا ماں تو بچوں کے لیے جان قربان کرسکتی ہے۔ماں کے بغیر بچوں کا تصور ناممکن ہوتا ہے نا۔ اے خدا!ماں کے قدموں تلے تو جنت ہوتی ہے نا۔اے ہمارے رب خداوند ہم اپنی جنت کہاں تلاش کریں۔آخر ہماری ہی جنت نے ہمیں لہولہان کردیا۔آخر ہمارا کیا قصور تھا۔وہ ماں جو بچے کے جسم پر ایک خراش دیکھ کر تڑپ جاتی ہے، وہ والدہ جس نے تکالیف سہہ کر کئی مہینے اسے اپنے پیٹ میں رکھ کر جنم لینے کے قابل بنایا اورپھر راتوں کو جاگ جاگ کر اس کی ضرورتوں کا خیال رکھا۔ وہ خود اس کی گیلی کی ہوئی جگہ پر سوگئی اور اسے آرام اور راحت دی۔ اس کی گندگیوں کو صاف کیا، اس کو نہلایا دھلایا خود نہیں کھایا لیکن اس کی خوراک بہم پہنچائی۔اس کو ہنستا کھیلتا دیکھنے کے لیے خود کی خوشیوں کو درکنار کیا اور پھر آخر ایسا کیا ہوگیا کہ اپنے ہی جگر پاروں کو قتل کردیا۔
قارئین کرام! آخر تربیت میں کہاں کمی رہ گئی کہ قوم کی بیٹیاں اس طرح کے اقدام اٹھانے پر مجبور ہورہی ہیں۔دینی تعلیمات،اصلاحی جلسے جلوس،بے باک تقاریریں گھر گھر دینی تعلیم کا بول بالا ہے، پھر بھی مسلم معاشرہ طلاق ،خلع، جھگڑوں، اقدام خود کشی کے معاملوں میں بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ ترقی کے نام پرننگا پن عام ہوگیا ہے۔فحاشی عریانیت بے ہنگم زندگی کو لوگ اچھا سمجھ رہے ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ برسوں پہلے، جب ٹیکنالوجی عام نہیں تھی،گاڑیوں کا شور و دھواں نہیں تھا۔ روپے کی اتنی فراوانی نہیں تھی۔شہروں کی حدود بھی اتنی بڑی نہیں تھیں۔شہر بھی آباد نہیں تھے۔البتہ بجلی گیس نام کی کوئی چیز نہیں تھی،اگر تھی بھی تو مخصوص حلقوں تک تھی۔لوگ کنوﺅں سے پانی بھر کر پیتے تھے۔آسانیاں نہیں تھیں بلکہ ہر کام کے لیے بڑی محنت درکار تھی۔روزگار اور خوراک کے لیے اچھی خاصی محنت درکار تھی۔ان سب کے باوجود بھی معاشرہ پر سکون تھا۔لوگ مطمئن تھے،شکر کے کلمات ادا کئے جاتے تھے۔مکان کچے تھے، مسجدیں کچی تھیں۔جدت کے لحاظ سے زمانہ آج سے بہت پیچھے تھا۔سائنسی علوم سے لوگ بہت کم شناسائی رکھتے تھے۔ اخلاقی علم سے مالا مال تھے۔ آپ کی تعلیمات کا گہرا اثر تھا ،ان لوگوں پر،آپ کی تعلیمات کو سینے سے لگا کر رکھنے والے لوگ تھے۔حسن اخلاق ،عزت و احترام اور احساسات جیسی کئی خصوصیات ان میں موجود تھیں۔جو واقعی ان سادہ مگر صاف دل لوگوں نے آپ کی حیات مبارکہ کے مطالعہ سے ہی سیکھی ہوں گی۔زمانہ سست تھا، مگر سکون و لطف سے بھرپورتھا۔ ایک دوسرے کا احساس اتنا کہ جتنا آج کے خونی رشتے بھی نہ رکھتے ہوں۔لوگ خالص تھے۔کوئی بھی گلہ شکوہ ہوتا تو کھل کر بیان کر دیتے، دل میں غصہ نہ رکھتے۔شاید اسی لیے برائیاں بہت کم تھیں، معاشرہ قاتل نہیں تھا۔چوری چکاری بہت کم تھی۔قتل و غارت جیسی واردات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اگر کوئی قتل جیسا بڑا سانحہ ہو بھی جاتا تو پورا معاشرہ سوگ میں مبتلا ہو جاتا۔سوگ دور دراز کے علاقوں ، دیہاتوں کو بھی غمگین کر دیتا تھا۔یہاں تک کہ فضائیں اور بادل بھی سوگ میں برابر کے شریک ہوتے۔آندھیاں و طوفان برپا ہوجاتے جس سے دور دراز کے لوگ بھی آگاہ ہو جاتے کہ کوئی بڑی پریشانی نے دستک دی ہے۔ سوگ میں غمگین یہ لوگ اپنے رب سے رحمت و سلامتی کی دعا کرتے۔ایسی انہونی کبھی کبھار ہوتی، اسی لیے لوگ اسے مہینوں تک نہ بھول پاتے اور غمگین رہتے تھے۔آج کا معاشرہ قاتل کہلانے کے لائق ہوچکا ہے کیونکہ روز بروز بڑی بے دردی سے لوگ قتل ہو رہے ہیں، مگر کسی کو کوئی احساس نہیں۔روز بروز کی بدعنوانیوں نے ہمارے احساسات کو ختم کر دیا ہے۔احساسات کی جو تھوڑی بہت رمق باقی ہے، وہ بھی نہیں رہی، یہاں دوسروں کے قتل پر افسردہ ہونے کی بجائے لوگ اپنے خونی رشتوں کو بھی قتل کر رہے ہیں۔
پھر زمانہ بدلتا گیا،وقت گزرا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہروں کی حدود دیہاتوں سے لگنے لگیں اور دن رات محفلیں جمنے لگیں۔ٹیکنالوجی نے زندگی ہی بدل دی، زندگی سہل ہوگئی۔ انسان محنت سے عاری ہونے لگا۔ انسان آسانیوں کے اس دور میں غافل ہونے لگا۔اللہ اور اس کے احکامات کو بھولنے لگا۔رسول اکرم کی تعلیمات کو فراموش کرنے لگا۔دنیا کی رنگینیوں میں رنگنے لگا۔ اختلافات بڑھنے لگے، قتل و غارت روز کا معمول بن گئی۔معاشرے کا توازن بگڑ گیا۔باہمی مفادات ختم ہوگئے ،ذاتی مفادات نے ترجیح لے لی۔ظاہری رنگین محفلوں والا پرکشش معاشرہ، انسان کو ذہنی الجھنوں میں پھنسانے لگا۔انسان اتنی چہل پہل افراتفری میں بھی ذاتی مفادات تک،تنہا ہونے لگا۔معاشرہ دن بدن ٹوٹنے لگا۔ انسانی سوچیں بڑھنے لگیں۔انسان مادہ پرست ہو گیا۔ پریشانیاں بڑھنے لگیں۔معاشرہ بے ہنگم ہو گیا،لوگ چکرا گئے۔ سخت قوانین ہونے کے باوجود بھی انسانی درندگی ہوس و بدعنوانی بڑھنے لگی۔معاشرے کا بھائی چارہ تو ختم ہوا مگر خونی رشتے بھی مدھم ہوکر ختم ہونے لگے۔نفسیاتی بیماریاں بڑھنے لگیں۔نفسیات پر کنٹرول ختم ہو گیا، انسان کا خود پر قابو ختم ہوگیا۔معاشرہ بظاہر بڑا رنگین ،درحقیقت ایک قاتل و کھوکھلا معاشرہ بن کر رہ گیا۔نشہ،زنا،ڈرگس،طلاقیں خلع عام بات ہوچکی۔یقین مانئے جب سے ہوش سنبھالا ، حالات دن بدن سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔بے حسی و بدعنوانیوں کی ایسی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں جیسے انسانوں کے معاشرے میں نہیں کسی اور مخلوق کے معاشرہ میں رہ رہے ہیں۔دشمنوں و اندرونی دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوموں ،بوڑھوں اور جوانوں کا قتل ہونا تو اب معمول بن گیا ہے لیکن افسوس تو اس بات پر ہے کہ بھائی ، والد اور چچا کے ہاتھوں بہنوں بیٹیوں کا بھی قتل ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے اور سب سے خطرناک او ردل دہلادینے والی بات تو یہ ہے کہ ماں جیسا مقدس رشتہ بھی اب شک کے دائرے میں آچکا ہے کیوں کہ وہ بھی اب قاتل اور ڈائن بن چکی ہے۔ جس نے رشتوں کے کم ہوتے اعتبار کو مکمل ہی ختم کر دیا ہے۔اس سے آگے اب کچھ نہیں ،یہ انتہا ہے۔ یہ معاشرہ قاتل ہے قاتل ہے۔وہ قاتل معاشرہ جس میں ماں نے اپنے شوہر سے جھگڑے کے بعد اپنے ہی بچوں کا گلا کاٹ کر انہیں ذبح کر دیا۔ایک ماں نے دونوں جگر پاروں کا منہ اور گلا دبا کر قتل کردیا اور ایک ماں نے اپنے تینوں بچوں کو پے درپے قتل کیا اور پھر خود بھی موت کا نوالہ بن گئی۔اس سے زیادہ بے حسی ، بدعنوانی اور اخلاقی گراوٹ کی کیا مثال دی جاسکتی ہے کہ ماں ہی اب قاتل بن گئی ہے۔یہ تمام باتیں برادران وطن میں بہت عام ہیں لیکن ہوش کے ناخن اس لیے لینے ہیں کیوں کہ یہ جہالت اور درندگی اب مسلمانوں میں پنپ رہی ہے۔

a3w
a3w