طنز و مزاحمضامین

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ؟

حمید عادل

چچا غالب کہہ گئے ہیں :
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
مال مفت دل بے رحم کے مصداق اس چکر میں ہر شعبہ ٔزندگی کے لوگ شامل ہیں …فی زمانہ سیاست دانوں نے چچا غالبؔ کے اسی مصرعے کو اپنی سیاسی بازی گری کا سب سے اہم ہتھیار بنا لیا ہے … وہ تاڑ چکے ہیں کہ مذکورہ مصرعہ ہر شخص کی دلی آرزو ہوا کرتا ہے چنانچہ مفت اسکیمات کا خیال آیا…غالباًانہیں محسوس ہوا کہ جس طرح مرد کے دل کا راستہ پیٹ سے ہوکر گزرتا ہے ٹھیک اسی طرح رائے دہندوں کے دل جیتنے کا راستہ بھی پیٹ سے ہوکر گزرتا ہے …بی جے پی ہی وہ پارٹی تھی جس نے سب سے پہلے مفت اسکیمات کا اعلان کیا…مودی کی جانب سے چھوڑا گیا وہ شگوفہ شاید ہی کوئی فراموش کرپائے، جب انہوں نے چیخ چیخ کر کہا تھا ’’ ہر ہندوستانی شہری کے بینک اکاونٹ میں 14لاکھ روپئے یوں ہی مفت میں آجائیں گے ۔
جب مفت ریوڑیاں بانٹنے کی بات عدالت عظمیٰ تک پہنچی تو عدالت نے مرکزی حکومت کو اس تقسیم کا حل تلاش کرنے کی ہدایت دے ڈالی … مزے کی بات تو یہ ہے کہ عدالت نے یہ ہدایت بھارتیہ جنتاپارٹی ہی کے لیڈر ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے کی جانب سے دائر مفادعامہ کی ایک عرضی پر سماعت کے دوران دی تھی …جب کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی کا میابی ان ہی مفت اسکیموں کی رہین منت ہے لیکن جب دوسری سیاسی جماعتیں بھی مفت اسکیموں کے اعلانات کا مقابلہ کرنے لگیں تو یہ ’’ریوڑی کلچر‘‘ اور ملک کے لیے ’ ’مہلک‘‘ ہوگیا …وہکیسے؟عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے بعد بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے آزادانہ وعدوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا…جی کیا فرمایا؟ ’’چورمچائے شور!‘‘ یہ کیسی بے ہودہ باتیں کررہے ہیں آپ؟ اگر ان کی پارٹی مفت کی ریوڑیاں بانٹ رہی ہوتی تو وہ بھلا مفت کی اسکیمات کو’’ ریوڑی کلچر‘‘ کیوں کہتے اور مودی جی ! عوام سے ایسی سیاسی جماعتوں سے ہوشیار رہنے کا مشورہ کیوں دیتے ،جو انتخابات کے دوران مفت اسکیموں کا وعدہ کرتی ہیں…بہر کیف! وزیراعظم کے مذکورہ لطیفے کو سن کر چمن بیگ اپنی ہنسی نہیں روک پائے اور جو کچھ انہوں نے پیا تھا سب ایک جھٹکے سے باہر آگیا ….
فارسی مثل ہے ’’ ہر سہ برو خو عادت نہ برو‘‘ یعنی ’’ انسان ہر چیزبھول سکتا ہے لیکن عادت انسان نہیں بھولتا‘اور ہر جگہ پر وہ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبو ر ہوتا ہے….‘‘ایک مفت خورے کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جو بیٹھے کھانا کھارہے تھے، مفت خورے نے پوچھا ’’ کیا کھا رہے ہیں آپ لوگ؟ لوگوں نے جو اس کی مفت خوری سے عاجزتھے، تنک کر کہا ’’ ہم زہر کھارہے ہیں ۔‘‘ مفت خورے نے جھٹ سے کھانے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا ’’آپ لوگوں کے بعد میرے لیے زندہ رہنا، ویسے ہی حرام ہوگا، یہ زہر میں بھی آپ کے ساتھ ہی کھاتا ہوں ۔‘‘
مفت خوری کا طریقہ نہیں اچھا صاحب
ہم بھی کچھ کام کریں آپ بھی کچھ کام کریں
برق اعظمی
محکمہ پولیس کرپشن کے لیے خاصا بدنام ہے ، لیکن اس کے کچھ ایماندار عہدہ دار ایسے بھی ہیں جو مفت خوری کو کرپشن نہیں سمجھتے…مفت خوری کے اس کام میںخطاوار صرف پولیس عہدہ دار ہی نہیں، وہ لوگ بھی ہیں جو معمولی چائے، بسکٹ کہہ کر انہیں حرام خوری کا موقع فراہم کرتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ یہی لوگ لاکھوں، کروڑوں روپے کی ڈیمانڈ کرتے ہیں…ہم نے ایسے ایک مفت خورے کو بھی دیکھا ہے جو ایسے ہی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں جہاں کھانے کو خوب ملے …پروگرام کے اختتام پر جب کھانے کا دور چلتا ہے تو پھر ’’اللہ دے او ربندہ لے‘‘ موصوف ایسے یلغار کرتے ہیں کہ جیسے یا تو وہ زندگی میں پہلی بار کھارہے ہیں یا پھر آخری بار… معروف قلمکار ایم ابراہیم خان ’’مفت خوری ہے کہ بڑھتی جائے ہے ‘‘ میں رقم طراز ہیں :
’’خبر کچھ یوں ہے کہ چین میں بھکاری اب جدید ترین سمارٹ فونز اور موبائل ایپس کا سہارا لے رہے ہیں ۔ بیجنگ ، شنگھائی اور دیگر بڑے اور چھوٹے شہروں میں بھکاری اب آن لائن بھیک لے رہے ہیں ۔ وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنے سامنے کیو آر کوڈ رکھ دیتے ہیں تاکہ راہ گیر اسے سکین کرکے پیسے دینے کے لیے استعمال ہونے والی موبائل ایپس کے ذریعے انہیں بھیک دے سکیں ۔ اگر کوئی شْخص بھیک نہ بھی دے تو محض کیو آر سکین کرنے کی صورت میں بھکاری کے اکاونٹ میں کچھ نہ کچھ رقم پہنچ جاتی ہے ۔ جدید ترین طریقے اپنانے والے یہ بھکاری اگر ہفتے میں صرف 45 گھنٹے بھیک مانگیں تو ماہانہ ہزاروں روپئے تک کما لیتے ہیں جو چین میں کسی مزدور کی کم ترین ماہانہ اجرت کے مساوی ہے ۔اندازہ لگائیے کہ چین جیسے ملک میں بھی بھیک ماننگے کی لعنت نے اب تک نہ صرف یہ کہ دم نہیں توڑا بلکہ ’’ تجدید عہد وفا‘‘ کرتے ہوئے جدید ترین ٹکنالوجی کو یوں گلے لگایا گیا گویا مہارت کی دہلیز عبور کی ہے ۔ چینیوں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ بے انتہا محنتی واقع ہوئے ہیں ۔بادی النظر میں تو ایسا لگتا ہے کہ چینی معاشرے میں ان افراد کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی جو کچھ کرنے کے بجائے ایک طرف بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں ۔ کرپشن کی سزا وہاں موت ہے ۔ آئے دن خبریں آتی رہتی ہے کہ کرپشن ثابت ہونے پر سرکاری افسران و اہلکاروں کو سزائے موت دے دی گئی … ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مفت خوری کسی بھی درجے میں کرپشن نہیں ؟‘‘
(اقتباس ختم ہوا)
مفت خوری بری بات ہے لیکن کچھ ایسے انسان بھی ہیں جو اپنی سوچ و فکر سے ایسا کام کرگزرتے ہیں کہ اسے کسی طرح مفت خوری نہیں کہا جاسکتا… برطانوی نشریاتی ادارے دی سن کے مطابق فولے نامی برطانوی خاتون کوئی پیسہ خرچ کیے بغیر پرتعیش گھروں میں قیام سے لطف اندوز ہوتی ہے جس کے لیے اُس کو کرایہ بھی ادا نہیں کرنا پڑتا بلکہ الٹا لوگ خود اس کو معاوضہ ادا کرتے ہیں…فولے کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران وہ چھ مکانات میں رہ چکی ہے جن میں دنیا بھر کا عیش و آرام میسر تھا۔خاتون کے مطابق اس نے ان تین مہینوں میں کرایہ اور کھانے کے اخراجات کی مد میں ہزاروں پاونڈز کی بچت کی کیوںکہ گھر کے مالکان اکثر اس کے لیے کھانا فراہم کرتے تھے جس کے عوض وہ ان کے گھروں اور پالتو جانوروں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ فولے کے اس کام پر سوشل میڈیا صارفین نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور انہوں نے فولے سے سوال کیا کہ وہ ہمیں بھی بتائیں کہ اس طرح کی نوکری وہ کس طرح حاصل کرسکتے ہیں…اس قبیل کی نوکری حاصل کرنا کمال نہیں،اس کام کو انجام دینا کمال ہوا کرتا ہے …’’فول‘‘تو جگہ جگہ مل جاتے ہیں لیکن ہر کوئی فولے نہیں ہوسکتا…
عام زبان میں ’’مفتا‘‘ کے معنی مفت کی کھانے والا ہے، لوگ مفتا اس کھانے کو بھی کہتے ہیں جو بغیر پیسوں کے مل جائے…اسی مفتے کا ذکر پاک۔ آسٹریلیا کے درمیان حیدرآباد میں ہوئے وارم اپ میچ میں بھی ہواتھا۔جب سابق آسٹریلوی کھلاڑی میتھیو ہیڈن کو کمنٹری کے دوران مفتا یاد آگیا…انہوں نے رمیز راجہ کے ساتھ کمنٹری کے دوران کہا ’’ یقینا بہت ساری بریانی اور گوشت تھا، ہم تومفتے پر ٹوٹنے والے ہیں۔‘‘ اس پر رمیز نے بھی ہنستے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا تھا ’’ ہمیں مفتا بہت پسند ہے۔‘‘
ایک دن کسی نے مشکوک حیدرآبادی سے پوچھا: بتاؤ چائے فائدہ دیتی ہے یا نقصان ؟مشکوک برجستہ چہک اٹھے ’’ کوئی مفت میں پلا دے تو فائدہ اگر پلانی پڑ جائے تو شدید نقصان دہ ہے۔‘‘
کوئی کاروباری کچھ بھی مفت نہیں دیتا،البتہ یہ نعرہ ضرور دیتا ہے ’’ایک پر ایک مفت‘‘ہاں!کچھ مقابلے ایسے ضرور ہوتے ہیں جہاں آدمی مفت خوری کے مزے لوٹ سکتا ہے … پچھلے دنوںامریکہ کے یوم آزادی کی مناسبت سے نیو یارک میں منعقدہ مقابلے میں سینکڑوں مرد وخواتین نے شرکت کی اور مفت کے ہاٹ ڈاگز کھائے تاہم فتح صرف ایک مرد اور خاتون کے ہاتھ آئی۔ مردوں کے مقابلے میں دفاعی چیمپئن جوئے چیسٹنٹ سب سے زیادہ کھاؤ نکلے،جنہوں نے دس منٹ میں 62 گرم کتے ہمارا مطلب ہے’’ ہاٹ ڈاگز‘‘ چٹ کیے اور 16ویں مرتبہ فتح سمیٹی…
شوبز انڈسٹری کی ایک معصوم اداکارہ نے جب ریسٹورنٹ کھولا تو دوست احباب ان کے پاس اکثر مفت کھانا کھانے آنے لگے…ایک انٹرویو میں انہوں نے دل کے چھالے کچھ اس طرح پھوڑے :
’’ میں نے ریسٹورنٹ کھول لیا ہے لیکن دوستوں سے تنگ آ گئی ہوں…کیوںکہ اکثر وہ مجھ سے رابطہ کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ تمہارے ریسٹورنٹ آئیں گے اور پھر مجھ سے یہ پوچھ کر خود کو مطمئن کرتے ہیں ’’ لیکن تم ہم سے پیسے تو نہیں لو گی ناں۔‘‘ یہ سن کر میںچپ ہو جاتی ہوں اور دل ہی دل میں سوچتی ہوں کہ آپ لوگ دیگر مہنگے مہنگے ریسٹورنٹس میں تو بل ادا کرکے کھاتے ہو تو میرے ساتھ ہی ایسا کیوں، بس ایسے لوگوں کے لیے ایک ہی پیغام دینا چاہوں گی کہ آپ لوگ شرم کرو اور اب تو حد ہو گئی ہے۔‘‘
شرم سے یاد آیا…آج فیشن پرست لڑکیوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بحالت مجبوری لباس زیب تن کررہی ہیں … انہیں آزادانہ طورپر گھومتا ہوا دیکھ کر خیال آتا ہے کہ حیا کو کس بے حیائی سے انہوں نے اتار پھینکا ہے …
عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے
حسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لیے
اسرار الحق مجاز
آج کے دور میں سچ کہنا سب سے مشکل کام ہوگیا ہے، نا چاہتے ہوئے بھی منہ سے جھوٹ ہی نکلتا ہے…اور وہ بھی بالکل مفت…بندہ گھر پر ہوتا ہے لیکن فون پر کسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے میں نامپلی پر ہوں ، نامپلی پر ہوتا ہے تو کہتاہے میں گھر پر ہوں …بات بات پر جھوٹ ، جسے ہم سچ کی طرح کہتے ہیں ، دل میں کوئی ملال نہیں،اور اگر کوئی سچ کہہ رہا ہے تو کہتے ہیں ’’ زمانے کے ساتھ چلنے کا اس میں سلیقہ ہی نہیں …ہم سچ بولنے سے اس لیے بھی کتراتے ہیں کہ کہیں کوئی ناراض نہ ہوجائے …
دوستوں کا کیا ہے وہ تو یوں بھی مل جاتے ہیں مفت
روز اک سچ بول کر دشمن کمانے چاہئیں
راجیش ریڈی
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w