مضامین

خواتین کے چہرے کا پردہ

چودہ سو سال پہلے اسلام کے صاف پانی کا چشمہ مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے نکلا اور مشرق ومغرب کی طرف بہتا چلا گیا ۔ اس تمام دور میں اسلامی معاشروں میں جب بھی مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلتی تھیں تو چہرے کا پردہ کرکے نکلتی تھیں ۔

ڈاکٹر گوہر مشتاق۔امریکہ

متعلقہ خبریں
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
ایران میں خاتون کو 74 کوڑے مارنے کی سزا پر عمل درآمد
اکسپریس، پلے ویلگو بسوں میں خواتین کامفت سفر۔ احکام جاری
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر

جب چشمہ پہاڑ کے اندر سے نمودار ہوتا ہے تو اس کا پانی شفاف آئینے کی مانند ہوتا ہے لیکن جب یہی صاف پانی نیچے کی جانب میدانوں اور زمینوں کی طرف بہتا چلا جاتا ہے تو راہ میں آنے والی گندگی اور غلاظت اس پانی کو گدلا اور کیچڑ والا بنا دیتی ہے۔

جو لوگ اشیاء کو سطحی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ پانی کی آخری حالت کو دیکھ کر یہی سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ پانی ابتداء سے ہی میلا کچیلا چلا آرہا ہے۔ یہیں مثال مسلمان خواتین کے چہرے کے پردے کے متعلق بھی صادق آتی ہے۔

چودہ سو سال پہلے اسلام کے صاف پانی کا چشمہ مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے نکلا اور مشرق ومغرب کی طرف بہتا چلا گیا ۔ اس تمام دور میں اسلامی معاشروں میں جب بھی مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلتی تھیں تو چہرے کا پردہ کرکے نکلتی تھیں ۔

 تاہم جب یورپی استعماری قوتوں اور حکومتوں نے 200 سال پہلے مسلمان ممالک میں اپنے پنجے گاڑے اور مسلمان ممالک کو غلام بنانا شروع کیا تو ان مغربی آقاؤں نے مسلمان عورت کے چہرے کے پردے کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا ۔ پھرمغرب کے جنسی انقلاب نے میڈیا کی پشت پناہی میں مسلم معاشروں کو متاثر کیا۔

مغربی آقاؤں نے زبردستی مسلمان خواتین کے چہروں سے نقاب نوچا تو میڈیا نے مسلمان خواتین کی برین واشنگ کے ذریعے انہیں برضاورغبت بے پردہ ہونے پر اکسایا۔ نتیجتاً پہلے نقاب مسلمان عورتوں کے چہروں سے غائب ہوا پھر سر سے اسکارف اور دوپٹہ اترا اور آخر میں نائیٹ جینز (Skinny Jeans) کی آمد سے ڈھیلے ڈھالے عبائے اور گاؤن بھی غائب ہوگئے ۔

 آج بعض روشن خیال مسلمان مفکرین مسلم معاشروں کو سطحی نگاہ سے دیکھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں خواتین کی اکثریت اپنے چہرے نہیں چھپاتی تھی، حالانکہ یہ سراسر غلط ہے۔

 یہ روشن خیال مفکرین سمجھتے ہیں کہ اسلام کا چشمہ ہمیشہ سے میلا کچیلا تھا حالانکہ تاریخی ثبوت یہ بتاتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی عیسوی تک مسلمان خواتین کی اکثریت چہرے کا پردہ کرتی تھی اور یہ ثبوت بالخصوص ہمیں مسلمان ممالک کی سیاحت کرنے والے غیر مسلم سیاحوں کی ڈائریوں اور سفرناموں سے ملتا ہے۔

امید ہے کہ یہ ’’روشن خیال مسلمان مفکرین‘‘ اگر ہمارے مسلمان علماء کی بات کا یقین نہ بھی کریں تو کم از کم غیر مسلم عیسائی سیاحوں کی بات کو تو وہ دقیانوسی کہہ کرردنہیں کرسکتے ۔

   جب تک مغربی نوآبادکار نے مسلمان ممالک پر قبضہ نہیں کیا تھا اس وقت تک مسلم خواتین اسلامی معاشروں میں بہت وقار اور عزت کے ساتھ چلتی پھرتی تھیں۔ نقاب، مسلم خواتین کو نہ صرف مغربی نوآباد کاروں اور استعماری مردوں کی غلیظ نگاہوں سے بچاتا تھا بلکہ ان خواتین کو آزادی کا ایک احساس بھی دیتا تھا۔

غیر مسلم آقاؤں نے اس رکاوٹ کو تباہ کرنے کے لیے مسلمان خواتین کے چہروں سے نقاب اتروادیا۔ بدقسمتی سے آج اکثر مسلمان بہنوں کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ ان سے کتنی قیمتی چیز چھینی جاچکی ہے جوان کی بہت بڑی محافظ تھی۔

     امریکہ کی نیو یارک یونیورسٹی کا یہودی مفکر نیل پوسٹ مین اپنی کتاب Conscientious Objections میں لکھتا ہے:

     ’’ہردور اپنے اندر ایک مخصوص سامراجی نظام رکھتا ہے اور اسی طرح ہر فاتح بھی سامراجی عزائم رکھتا ہے۔ اٹھارہویں صدی اور انیسویں صدی میں جب برطانیہ نے اس فن میں کمال حاصل کیا تو اس وقت کسی ملک پر حملہ کرنے کے لیے وہ پہلے اپنی بحری طاقت اور پھر عام فوج بھتیجے تھے۔ اس کے بعدانتظامیہ کے لوگ بھیجے جاتے تھے اور پھر آخر میں اپنا تعلیمی نظام اس ملک پر نافذ کرتے تھے‘‘۔

     جب مغربی سامراج نے مسلمان معاشروں پر قبضہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ تقریباً تمام مسلمان خواتین جب گھروں سے نکلتیں تو اپنے چہروں کو چھپا کر نکلتیں ۔ اپنی سامراجی طاقت اور کرائے کے روشن خیال علماء یعنی "Scholars for Dollars” (مثلاً قاسم الامین مصری یا محمد عبدہ وغیرہ)کو بڑی چالاکی کے ساتھ استعمال کرکے یورپی سامراجی ایجنٹوں نے مسلمان خواتین کے چہرے سے نقاب کو اتار پھینکا ۔

مزید برآں، برطانوی سامراج نے مصر کی سیکولر حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے وہاں کی جامعہ الازہر کو ایک ماڈرنسٹ، روشن خیال اور معذرت خواہ ادارے میں تبدیل کردیا ۔

یہ کام حکومت مصر نے یونیورسٹی کی اہم پوزیشنوں بشمول شیخ الازہر کی پوزیشن کے لیے مغرب زدہ اور بعض حالات میں کرائے کے علماء (Scholars for Dollars)  کو متعین کرکے کیا اور یہ چیز آج بھی وہاں پائی جاتی ہے۔

ایسے’’ازہری‘‘ اسکالر حضرات اپنی داڑھیاں شیو کرتے ہیں یا انتہائی چھوٹی داڑھیاں رکھتے ہیں پبلک میں برملا موسیقی کی تعریف کرتے ہیں اور نقاب اور پردے کے خلاف فتوے دیتے ہیں یا عورتوں مردوں کے آزادانہ اختلاط کی اجازت دیتے رہتے ہیں۔

     حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی سے پہلے تمام مسلمان ممالک میں خواتین گھر سے باہر نقاب لیاکرتی تھیں ۔ وہ کسی ایک ملک یا خطے تک محدود نہ تھا۔ اندلس (مسلم اسپین) جہاں کے مسلمان کئی لحاظ سے بہت ماڈرن تھے لیکن اسلامی عالم ابوحیان توحیدی اندلس میں مسلمان عورتوں کے حجاب کے متعلق لکھتے ہیں:۔

’’اور اسی طرح ملک اندلس کی خواتین کا یہ معمول ہے کہ ان کے جسم پر سے ان کی آنکھ کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہوتا۔‘‘

آج سے تقریباً دو سو سال پہلے یورپی سیاحوں کو مشرق وسطیٰ پہنچ کر بہت مایوسی ہوا کرتی تھی کیونکہ تقریباً سبھی مسلمان خواتین چہرے کا پردہ کیا کرتی تھیں ۔ مزید  برآں مسلمانوں کے گھر یا پبلک مقامات پر کہیں بھی یورپی سیاحوں کے لیے یہ ممکن نہ ہوتا تھا کہ وہ مشرق کی خواتین کے حسن کو دیکھ سکیں۔

 یورپین سیاحوں کے مسلمان خواتین کے متعلق مشہور فرضی قصوں پر یہ ایک زور دار چوٹ تھی ۔ مثال کے طورپر پر فرانسیسی مورخ لیون مچل (Leon Michel)لکھتا ہے:

’’ ہر یورپین مرد یہ سمجھتا ہے کہ جب وہ افریقہ ( کے مسلمان ممالک) میں جائے گا تو اسے وہاں پر خوبصورت محل دکھائی دیں گے جب کہ بالکونی سڑک کی طرف کھلتی ہوگی جہاں پر ایک پرکشش قیدی( مسلمان عورت) کھڑی اس بات کا انتظارکررہی ہوگی کہ کوئی بہادر فرانسیسی گھڑ سوار چمکیلی زرہ پہنے ہوئے آکر اس کو آزادکروا دے گا ۔

یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے حرم ( زنان خانے) بہت محفوظ ہوتے ہیں اور بالکونی پر لگی ہوئی لکڑی کی موٹی جالی( جسے عربی میں شناشیل یا مشربیہ کہتے ہیں) اس بات کو نا ممکن بنا دیتی ہے کہ باہر سے اندر کسی کی نظر پڑے یا گھر کے اندر کی عورت کو دیکھاجاسکے۔‘‘

کینیڈین نومسلم محقق خاتون کیتھرین بلوک (Katherine Bullock) نے اپنی کتاب Rethinking Muslim Women and the Veilمیں یہ واضح کیا ہے کہ یورپ میں عورت اپنی قیمت کھو چکی تھی کیونکہ اس کا چہرہ کھلا تھا ہر کوئی دیکھ سکتا تھا ۔ اس کے برعکس اپنے چہرے پر نقاب ہونے کی وجہ سے مسلمان عورت ’’ ایک قابل دید شئے اور قیمتی متاع‘‘ کے طورپر دیکھنے والوں سے ابھی محفوظ تھی، اس وجہ سے کیتھرین بلوک اپنی کتاب میں لکھتی ہیں:

’’ نقاب او راس کو پہننے والی عورتیں پورے مشرق کی علامت بن گئیں اور وہ سب کچھ جو یورپی لوگوں کے لیے پرکشش تھا یا جس سے وہ خوفزدہ تھے۔‘‘ چونکہ نقاب ان لوگوں کو مسلمان خواتین کے چہرے دیکھنے کے راستے میں رکاوٹ تھا اس لیے بعض یورپی سیاحوں نے نقاب کو اپنے غضب کا نشانہ بنایا کیونکہ وہ ان کی شہوت بھری نگاہوں (Lustful Eyes)کی راہ میں رکاوٹ تھا ۔

بریڈ لے برٹ (Bradley Birt)نامی ایک یورپی مصنف اپنی کتاب”Through Persia”میں برقعے اور نقاب پر ان الفاظ میں اپنا غصہ نکالتا ہے: ’’ یہ ( برقعہ اور نقاب) سب سے زیادہ ناشائستہ اور نا پسندیدہ لباس ہے جو سب سے زیادہ غیرت والے خاوندوں نے ایجاد کیا ہے ۔ کوئی بھی اجنبی مرد ایرانی مسلمان خاتون کو نہیں دیکھ سکتا اور اس خوبصورتی کو نہیں دیکھ سکتا جو ان برقعوں اور نقابوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔‘‘ 

برطانوی سیاح چارلس ڈاؤٹی (Charles Daughty) کو مسلمان خواتین کے نقاب سے اس لیے نفرت ہےکیونکہ اس وجہ سے وہ مسلمان خواتین کے چہرے نہیں دیکھ سکتا تھا جن کے متعلق اس نے اپنے سفرنامے میں لکھا:۔

     ’’عورتوں کے چہرے جنہیں خدا نے اس لیے تخلیق کیا تھا کہ دنیا کے لوگ انہیں دیکھ کر لطف حاصل کریں ‘‘۔

دو صدیاں قبل چہرے کا پردہ مسلمان معاشروں میں اتنا عام تھا کہ یورپین سیاح خواتین کا چہرہ دیکھنے کے لیے سرپٹخ کر رہ جاتے تھے جب انہیں راہ چلتی مسلمان خواتین کے چہرے دیکھنے میں کامیابی نہ ہوتی تو ہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے مکرو فریب کا راستہ اختیار کرتے اور مختلف چالیں چلتے۔ مثال کے طور پر مسٹر ڈیولا فوائے (Dieulafoy) اور اس کی بیوی جین ڈیولا فوائے (Jane Dieulafoy) نے 1980ء کی دہائی میں مشرق وسطیٰ کا سفر کیا۔ اپنے سفر نامے میں جین بیان کرتی ہے کہ اس نے اور اس کے خاوند نے اس مسئلے کا حل ڈھونڈا:۔

     ’’گھر کے صحن کے وسط میں گھر کا سربراہ بیٹھا ہوا دو جوان خواتین سے گفتگو میں مشغول تھا اور اس میں شک نہیں کہ وہ دونوں اس کی رشتہ دار تھیں۔ چونکہ ان (مسلمان) خواتین کو اس کا علم نہ تھا کہ انہیں دیکھا جارہا ہے اس لیے انہوں نے اپنے چہرے کھلے رکھے تھے۔ میں دیوار کے پیچھے کھڑی ہو کردیکھ رہی تھی۔

میں نے اپنے خاندان سے کہا کہ جلدی سے مجھے کیمرہ پکڑائے تاکہ میں جلد از جلد ان کی تصویر کھینچ سکوں۔ میں اس بات پر خوش تھی کہ میں نے کیمرے میں گھروں کے اندر کی اس (انسانی )خوب صورتی کو محفوظ کرلیا ہے جس کی مشرقی حلقوں میں نہایت غیرت مندی کے سبب سے حفاظت کی جاتی ہے‘‘۔

     رابرٹ برٹن (Robert Burton) ایک معروف برطانوی سیاح گزرا ہے جس کا سب سے مشہور کام اس کا مکہ اور مدینہ کا سفر نامہ ہے جو اس نے مسلمان کا بھیس دھار کر ان دومقدس مقامات کے سفر کے بعد لکھا۔

     اس سفر نامے میں برٹن نے سرزمین عرب کے مسلمانوں کی نسلی جغرافیہ سے متعلق تحقیق کی، اگرچہ اپنے بعض مشاہدات میں برٹن اسلام کے خلاف اپنے ذاتی تعصب کو چھپانہ سکا۔

 چونکہ مشرق وسطیٰ میں مسلمان خواتین چہرے کا پردہ کرتی تھیں اور پبلک مقامات پر مردوں عورتوں کا آزادانہ اختلاط بھی نہیں ہوتا تھا اس لیے برٹن نے ایک ’’حکیم‘‘ کا روپ دھارا جو کہ حج کے غرض سے مصر کے دارالخلافہ قاہرہ سے مکہ اور مدینہ کے لیے سفر کرنے والا تھا۔ یہیں سے اس کا سفرنامہ شروع ہوتا ہے۔

 اپنے سفر نامے میں برٹن بتاتا ہے کہ اس نے ’’ایک مسلمان حکیم‘‘ کا روپ اس لیے دھارا کیونکہ اس بھیس میں اس بات کی گارنٹی تھی کہ وہ بعض مسلمان خواتین سے ملاقات کرسکے گا اور ان کےچہرے بھی دیکھ سکے گا، کیونکہ مجبوری کی وجہ سے ان کو مرد حکیم کے پاس آنے کی اجازت مل جائے گی۔

 اگرچہ برٹن کا سفر نامہ باپردہ مسلمان خواتین کے متعلق نفرت آمیز کلمات سے بھرا پڑا ہے جو برٹن کے خبیث باطن کا مظہر ہے لیکن برٹن نے ایک مقامی شیخ کے گھر قیام کیا لیکن برٹن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اسے گھر کی خواتین کو دیکھنے کا کبھی موقع نہ مل سکا۔

     چارلس ڈاؤٹی(Charles Doughty) ایک اور برطانوی سیاح تھا جس نے سرزمین عرب کے بدوؤں کے ساتھ دو سال قیام کیا اور اپنے مشاہدات کو اپنی کتاب Travels in Arabia Desert میں محفوظ کیا ۔

 مسلمان خواتین جو کہ پبلک مقامات پر اور گھر سے باہر نقاب کیا کرتی تھیں ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ڈاؤٹی نے عر ب نام ’’خلیل‘‘ اختیار کیا اور ’’حکیم ‘‘ کا روپ دھارا۔ڈاؤٹی نے وہی حربہ استعمال کیا جو اس کے ہم وطن برٹن نے تقریباً 27 سال پہلے کیا تھا۔

 ڈاؤٹی کو مسلم معاشرے میں غیرمخلوط محفلوں اور عورتوںکے چہرے کے پردے سے شدید نفرت تھی ۔اسلام کے چہرہ چھپانے کے حکم کے بارے میں اس نے جابجا اپنے سفرنامے میں نہایت گھٹیا اعتراضات کیے ہیں ۔