سیاستمضامین

ملائیشیا میں اسلامی قوانین کی مخالف جماعتوں کو شکستاس بار انور ابراہیم کے ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی یقینی

سلیم مقصود

ملائیشیا پر ایک وقت ایسا آچکا تھا جب اس کی معاشی‘ صنعتی‘ تجارتی ‘ سیاحتی اور بیرونی سرمایہ کاری کی صورتحال بہت خراب ہوچکی تھی۔ اور ملائیشیا انڈونیشیاء سے بھی زیادہ غیر ترقی یافتہ غیر خوشحال اور مفلس ملک بن چکا تھا۔ اس وقت اس کی امن و ضبط کی صورتحال بھی آج کے دور کی طرح بگڑئی تھی۔ ایسے دور میں مہاتر محمد نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ مہاتر محمد کے آباء و اجداد کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ مہاتر محمد نے ملائیشیاء کی معاشی صورتحال کو طویل عرصے تک سخت جدوجہد کے بعد ترقی کے راستے پر گامزن کردیا۔ ملائیشیاء میں عصری تعلیم‘ عصری تعمیرات‘ عصری صنعتوں کے قیام اور بہترین پالیسیوں کے سبب خوش حالی آنے لگی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری اور سیاحت میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ بیرونی ممالک سے اعلیٰ عصری تعلیم کے لئے کئی طلباء ملائیشیاء آنے لگے۔
بیری وین نے مہاتر محمد کے حیرتناک کارنامے دیکھ کر ان کے متعلق ایک کتاب ’’ ملائیشیاء کا جنونی ‘ مہاتر محمد‘ مصائب کے دور میں‘‘ نامی کتاب لکھی۔ انہوں نے تحریر کیا کہ ’’ مہاتر کے دور میں ملائیشیاء میں امریکی اور یوروپی سرمایہ کاری کو چیلنج کیا جانے لگا۔ ایشیائی اقدار کو انہوں نے یوروپی سرمایہ کاروں کے اندھے اور ا نفرادی تقابل پر غالب کردیا‘‘ 22 سال ان کے اقتدار نے ملائیشیاء کی تقدیر ہی بدل ڈالی۔ 2003ء میں انہو ںنے اپنے قابل فخر اقتدار کے غلبے کے بعد ا پنی خدمات سے سبکدوشی اختیار کرلی۔ انہوں نے 1997ء سے ایشیائی ممالک کی خطرناک معاشی پستی کی اصلاح شروع کی تھی۔ انہوں نے اپنے دور میں ملائیشیاء اسلامی پارٹی (PAS) کو انتہا پسند جماعت قراردیا تھا اور جم کر اس کی مخالفت کی تھی ۔ ان کی جماعت یو ۔این۔ ایم۔ او۔ (UNMO) نے عوامی مقبولیت حاصل کرلی تھی۔
2013ء میں انہوں نے انڈرویو کوہین کو ایک طویل انٹرویو دیا تھا۔ مہاتر نے ایشیائی صورتحال پر انگریزی میں ایک کتاب بھی لکھی تھی ۔ مہاتر محمد لمبے عرصے تک شدید جدوجہد کرکے تھکن محسوس کرنے لگے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس میں ان کا شاگرد بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔ اس کے لئے مہاتر نے ابراہیم عبدالرحمن اور چی یان حسین کے فرزند انور ابراہیم کو منتخب کیا۔ ا نور ابراہیم کی والدہ چی یاں حسین اور ان کے والد عبدالرحمن دونوں کا تعلق پی ننگ علاقے کی برطانوی حکومت کی مخالف تحریک سے تھا۔ انور ابراہیم 1947ء میں پیدا ہوئے۔ سیاسی پس منظر کا حصہ ہونے کے باعث انہوں نے اپنے تعلیمی دور میں سیاسی میدان میں قدم رکھنا شروع کردیا تھا۔ وہ 1970ء کی دہائی تک ایک برسراقتدار یونائٹیڈ ملائیس قومی تنظیم (UMNO) کے خلاف ایک تحریک شروع کردی۔ 1971ء میں انہوں نے نوجوانوں میں اے۔ بی۔ آئی۔ ایم۔ اسلامی تنظیم کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ طلباء کے احتجاج میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لینے کے سبب انہیں 20 ماہ کی جیل ہوگئی ۔ ابتداء میں انہوں نے اس تحریک کی شدید مخالفت کی تھی لیکن بعد میں وہ ڈاکٹر مہاتر کے ساتھ UMNO میں شامل ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا سیاسی مقام مسلسل بڑھتا رہا۔ اور وہ 1980ء کی دہائی سے مختلف وزارتی عہدوں میں شامل ہونے لگے۔ وزیر مالیات بننے کے بعد 1990ء کی دہائی میں وہ مہاتر محمد کے نائب وزیراعظم بھی بن گئے۔ انہیں مہاتر محمد کی کابینہ کا نائب وزیراعظم اور ملائیشیاء کے سب سے زیادہ برسراقتدار لیڈر کا جانشان سمجھا جانے لگا مگر اس عرصے میں ان کے اور مہاتر محمد کے درمیان معاشی ا ور دیگر مسائل پر اختلافات ہوگئے۔ ان کا خیال تھا کہ یو ۔ ایم۔ این۔ او کے طویل دور حکومت میں ملک میں سیاسی مسائل بہت زیادہ پیدا ہوچکے ہیں ان کی فوری اصلاح کی جانی چاہیے۔ انہوں نے اپنے ہی استاد اور مربی مہاتر محمد کی قیادت پر ن کتہ چینی شروع کردی۔ انہوں نے مہاتر محمد پر اقرباء پروری اور اپنے دوست احباب پر نوازشات کا الزام لگایا جس سے مہاتر محمد اور انور ابراہیم کے تعلقات میںدراڑ پیدا ہوگئی۔ ان کی مسلسل مخالفت سے بدظن ہوکر مہاتر نے انہیں1998ء میں نائب وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کردیا ان پر رشوت ستانی اور ہم جنسی کے خطرناک الزامات لگادیئے گئے اور مزید الزامات پر انہیں جملہ 15 سال کی سزا بھگتنی پڑی۔ حالانکہ انور ابراہیم نے ان الزامات کی تردید بھی کی تھی۔ اور انہیں سیاسی ہتھکنڈے قراردیا تھا۔ مہاتر محمد نے اپنے اس عزیز شاگرد کو معاف بھی کردیا تھا اور دونوں میں ایک سمجھوتہ بھی ہوگیا تھا۔ اور 2020ء میں انہیں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ بھی سونپ دیا گیا تھا مگر ان دونوں کے اختلافات میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی جس کی وجہ سے سارے ملک میں ایک بار پھر عدم استحکام پیدا ہوگیا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سابق وزیراعظم محی الدین اور نجیب رزاق کے سبب 2018ء میں بدعنوانی کے جو اسکینڈل پیدا ہوچکے تھے وہ انور ابراہیم کی جیل سے رہائی کے بعد بھی ختم نہ ہوسکے۔
انور ابراہیم نے ملائیشیاء میں جو اصلاحات کی تحریک چلائی ہے اس کے ذریعہ رشوت ستانی‘ افراطِ زر اور معاشی مساوات کے مسائل کے حل کا جودعویٰ وہ کررہے ہیں اس میں کامیابی کی صورت میں ہی انہیں ان کا کھویا ہوا مقام حاصل ہوسکتا ہے انور ابراہیم پر اب مہاتر کی کوئی روکاٹیں اور دباؤ وغیرہ نہیں پائے جاتے اس لئے شاید وہ اپنے ملک سے بدعنوانی کے خاتمے ‘ اقلیتوں کے تحفظ کا عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کرسکیں گے۔
2018ء سے 2022ء تک ملائیشیاء کے سیاسی حالات بے حد خراب رہے ہیں ۔ اس دوران قومی اتحاد نیشنل الائنس کے قائد محی الدین یسین سمیت مزید 3قائدین وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ قومی اتحادی پارٹی کو222 سیٹیوں میں سے غیر متوقع طور پر 73 نشستیں حاصل ہوئیں ۔ اس کی اتحادی جماعت پان ملائشین اسلامک پارٹی نے دیگرپارٹیوں کے مقابلے میں 49 سیٹ جیت لی ہیں۔ اس کی اس قدر کامیابی سے جو پارٹیاں اور جو رائے دہندے ملائیشیا کی تین ریاستوں میں شرعی قوانین کے نفاذ کی مخالفت کررہے تھے انہیں ان کے کھلے مخالفانہ روے کے سبب سخت مایوسی ہوگئی ۔ ویسے انور ابراہیم کو 112 نشستوں کی ضرورت لاحق ہے ۔ انور ابراہیم کے ا تحادی گروپ کو اقتدار حاصل ہے لیکن 19دسمبر کو پارلیمان میں اکثریت ثابت کرنا ایک سخت امتحان سے کم نہیں ہے۔