سیاستمضامین

منی پور کی ان عورتوں کیلئے بولیے …

رویش کمار

ہندوستان کے ناظرین اور قارئین!
عین ممکن ہے کہ آپ میں سے بہت سے لوگوں نے منی پور کی وہ ویڈیو نہ دیکھی ہو، جس میں بہت سے مرد کوکی خواتین کو برہنہ کرکے ان کے اعضاء کو دبوچ رہے ہیں۔ مردوں کا ایک ہجوم برہنہ خواتین کو لے جا رہا ہے۔ ہجوم کے قاتل ہاتھ ان خواتین کے جسموں سے کھیل رہے ہیں۔ بے بس خواتین رو رہی ہیں۔ مردوں کا ہجوم لطف اندوز ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا سائٹس جلد ہی اس ویڈیو کو کمیونٹی کے شرافت کے اصولوں کے تحت بلاک کر دیں گی، لیکن واقعہ حقیقی ہے۔ اس کی تفصیل صرف وہی ہے جو لکھی گئی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس ویڈیو کے بعد ان خواتین کے ساتھ کیا ہوا؟ انہیں بھیڑ کہاں سے لا رہی تھی، کہاں لے جا رہی تھی۔ اس ویڈیو میں کوئی ابتدا اور انتہا نہیں ہے، تھوڑا سا حصہ ہے، اسے دیکھا نہیں جاتا لیکن اس ویڈیو سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا۔ آج آپ خاموش نہیں رہ سکتے۔
آج ہمیں مردوں کے ہجوم میں گھری ہوئی ان برہنہ عورتوں کے لیے بولنا ہے۔ آپ جہاں بھی ہیں بولیے۔ اگر آپ بازار گئے ہیں تو وہاں کے دکاندار سے بولیے۔ رکشہ والے سے بولیے۔ اولا اوبر ڈرائیوروں سے بولیے۔ اگر آپ نے اپنے والد کو فون کیا ہے تو سب سے پہلے انہیں یہی بتائیے۔ اگر آپ کو اپنی گرل فرینڈ کا فون آیا ہے تو سب سے پہلے یہ بتائیں۔ اگر آپ کلاس روم میں ہیں تو وہاں کھڑے ہو کر اپنے ٹیچر کے سامنے بولیں، اگر آپ کسی ریسٹورنٹ میں دوستوں کے ساتھ مزے کر رہے ہیں تو وہاں کھانا بند کریں اور ان خواتین کے لیے بولیں۔ اگر آپ بس میں ‘ٹرین میں ہیں، ایئرپورٹ پر ہیں، تو وہیں بتا دیں کہ منی پور سے ایسی ہی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں ہجوم خواتین کو برہنہ کرکے ان کے جسموں سے کھیل رہا ہے۔ یہ واقعہ اس ملک میں پیش آیا ہے جہاں ہر روز یہ جھوٹ دہرایا جاتا ہے کہ خواتین کو دیوی کی طرح پوجا جاتا ہے۔ پھر اپنی ہی گاڑی کے پیچھے بیٹی بچائو لکھواتا ہے۔ اگر آج آپ اس ہجوم کے خلاف نہیں بولیں گے تو ان کا جسم، ان کا دماغ ہمیشہ کے لیے ننگا ہو جائے گا۔ آپ کا نہ بولنا آپ کو اسی ہجوم میں شامل کرتا ہے۔ اسی بھیڑ کی طرح آپ کو حیوان بناتا ہے جو اُن عورتوں کو ننگا کرکے ان کے جسم سے کھیل رہا ہے۔ تو فون اٹھائیے، بولیے، لکھیے اور سب کو بتائیے کہ منی پور کی خواتین کے ساتھ ایسا ہوا ہے، ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ آپ اپنی انسانیت کو بچائیں۔ منی پور واقعہ کے خلاف بولیں۔ کوئی نہیں سن رہا ہے تو اکیلے بند کمرے میں ان عورتوں کے لیے رو لیجئے۔
میں جانتا ہوں کہ منی پور کی ان خواتین کی بے بسی آپ تک نہیں پہنچے گی کیونکہ آپ ان کی فریاد سننے کے قابل نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ جو اخبار پڑھتے ہیں، جو چینل آپ دیکھتے ہیں، اس نے آپ کی حساسیت کو مار ڈالا ہے۔ آپ کے اندر کی خوبیوں کو ختم کردیاگیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان خواتین کی آواز گوڈی میڈیا میں اٹھے گی یا نہیں، مجھے نہیں معلوم کہ وزیر اعظم یہ منظر دیکھ کر دہاڑیں مار کر روئیں گے یا نہیں، مجھے نہیں معلوم کہ وزیر بہبود خواتین اسمرتی ایرانی دکھاوے کے لیے ہی سہی روئیں گی یا نہیں، لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ بھیڑ کس نے بنائی ہے، کس طرح کی سیاست نے بنائی ہے۔ اس سیاست نے آپ کو حیوان بنا دیا ہے۔ گوڈی میڈیا نے اپنے ناظرین اور قارئین کو آدم خور بنا دیا ہے۔
ذات پات، مذہب، زبان، جغرافیہ کے نام پر شناخت کی سیاست نے انسان کو آدم خور بنا دیا ہے۔ منی پور کی عورتوں کے گرد رقص کرنے والے مردوں کا ایک ہجوم بھی آپ کے ارد گرد بن گیا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کے انکلوں سے خبردار رہیے۔ ان رشتہ داروں سے ہوشیار رہیں جو اپنے گھروں میں دن رات زہر بوتے ہیں۔ جا کر ان سب کو بتائیں کہ نفرت اور شناخت کی سیاست نے عوام کو کس طرح کے ہجوم میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ خواتین منی پور کی نہیں ہیں۔ وہ کوکیز نہیں ہیں۔ وہ اور کچھ نہیں ہیں۔ وہ صرف خواتین ہیں۔ اگر یہ واقعہ آپ کو بے چین نہیں کرتا، اگر اس سے آپ کی ریڑھ کی ہڈی میں کپکپی نہیں آتی، تو آپ کو اپنے آپ کو مردہ قرار دینا چاہیے۔
لیکن آخری سانس لینے سے پہلے ان خواتین کے لیے بول دیجئے۔ لکھ دیجئے۔ کسی کو بتادیجئے کہ ایسا ہوا ہے۔ اس ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈھائی ماہ تک امن کی اپیل نہیں کی۔ وہاں جا کر نفرت اور تشدد کو روکنے کی اپیل نہیں کی۔ ریاست نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ان کے جانے یا اپیل کرنے سے تشدد رک جاتا، لیکن اس خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس خاموشی کو جائز کہا جا سکتا ہے؟ وزیراعظم کی خاموشی کو چھوڑیے، آپ اپنی خاموشی توڑیے۔ بولیے۔

a3w
a3w