مضامین

منی پور کی دھماکو صورت حال‘حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں گز شتہ ایک ماہ سے زائد عر صہ سے قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے دورہ منی پور کے بعد بھی حالات میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے ریاست کی سرکردہ شخصیتوں پر مشتمل تشکیل پائی امن کمیٹی کے بعض اراکین نے کمیٹی سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ ان کی مرضی کے بغیر ان کے ناموں کو کمیٹی میں شامل کر دیا گیا۔ سول سوسائٹی کے فکر مند شہری بھی منی پور کی سنگین صورت حال میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔ مرکزی حکومت پر الزام ہے کہ وہ ایک طبقہ کی طرفداری کر تے ہوئے دوسرے طبقوں کے حقوق کو چھین رہی ہے۔ 3 مئی 2023سے منی پور آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ گزشتہ ایک مہینے کے دوران ڈیڑھ سو سے زائد لوگ تشدد کا شکار ہو کر ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہزاروں افراد بے سروسامانی کے عالم میں کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا سارا نظام ٹھپ ہو چکا ہے۔ آمد و رفت کے سارے ذرائع مسدود ہیں۔ غذائی اجناس کی قلت ہو گئی ہے۔ شہریوں کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ فوجی دستوں نے پوری ریاست میں خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس کیمپ سے شر پسند عناصر نے 1,420ہتھیار لوٹ لیے ہیں۔ پولیس کا ادعا ہے کہ ان میں سے 500ہتھیار پولیس نے دوبارہ حاصل کرلئے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ پوری ریاست میں شورش پھیل جانے کے باوجود چیف آف ڈیفنس اسٹاف (CDS) جنرل انل چوہان کا دعویٰ ہے کہ منی پور میں ہونے والے تشدد کے واقعات محض نظم و ضبط (Law and Order) کے مسائل ہیں، اس کا Counter-insurgencyسے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ دراصل حقائق سے منہ چھپانے کے مترادف ہے۔ ملک کا عام شہری بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ شمال مشرقی ہندوستان کی تمام سات ریاستیں شورش زدہ ہیں ۔ ان میں منی پور بھی شامل ہے۔ ان ریاستوں میں شورش (Insurgency)کے پھیلنے کے مختلف اسباب و علل ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے یہ علاقہ حساس نوعیت کا رہا ہے۔ ان ریاستوں کے عوام کو شکایت ہے کہ دہلی میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے ان کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ اس لیے ہر تھوڑے وقفے کے بعد یہاں حالات بے قابو ہوجا تے ہیں۔ شمال۔ مشرقی ریاستوں کی پوری سیاست ،نسلی شناخت (Identity Racial )کی سیاست ہے۔ یہ علاقہ مختلف قبائل اور طبقات کا مسکن ہے۔ ان کے درمیان صدیوں سے اختلافات اور تنازعات چلتے آ رہے ہیں۔ اسی لیے آپسی ٹکراو¿ اور تصادم ہوتا رہتا ہے۔ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ وہاں کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ شمال۔ مشرق کی ان سات ریاستوں میں ارونا چل پر دیش، آسام، ناگالینڈ، میگھالیہ، تری پورہ، میزورام اور منی پور شامل ہے۔ ان سات ریاستوں کو Seven Sisters یعنی سات بہنیں بھی کہا جا تا ہے۔ ان سات ریاستوں کی الگ الگ منفرد خصوصیات ہیں۔ تہذیب و تمدن کے اعتبار سے بھی یہ ریاستیں ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے بالکل مختلف ہیں۔ملک کی آزادی کے بعد جتنی بھی حکومتیں مرکز میں تشکیل پائیں سب نے دعوی کیا کہ شمال ۔ مشرقی ریاستوں کی ترقی ان کی اولین ترجیح رہی ہے۔ لیکن اس علاقہ کی ترقی کے لئے حکومت نے کوئی ٹھوس اقدمات نہیں کئے ۔جس کے نتیجہ میں شورش بڑھتی ہی چلی گئی۔
منی پور میں اس وقت جو سنگین حالات پیدا ہوئے ہیں اس کی اصل وجہ بی جے پی کی اکثریت نواز سیاست ہے۔ بی جے پی نے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے آگ اور خون کا یہ کھیل کھیلا ہے۔ منی پور کی نصف آبادی میتی طبقہ پر مشتمل ہے۔ منی پور کی سیاست میں اسی طبقہ کو غلبہ حاصل ہے۔ سیاست میں حاوی ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں میں بھی ان کا پلہ بھاری ہے۔ 60 رکنی منی پور اسمبلی میں 40ارکان اسمبلی کا تعلق میتی طبقہ سے ہے۔ ان تمام مرا عات کو رکھتے ہوئے میتی اپنے آپ کو درج فہرست قبائل طبقہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ دس سال سے منی پور ہائی کورٹ میں ایک درخواست زیر التواءتھی۔ ریاست کی ہائی کورٹ نے اس درخواست کی سماعت کے دوران ریاستی حکومت کو ہدایت دی کی کہ وہ میتیوں کو درج فہرست قبائل (ایس ٹی ) میں شامل کرنے کے لئے مرکز کو ایک تجویز بھیجے۔ ہائی کورٹ کی اس ہدایت کے ساتھ ہی منی پور کے حالات دھماکو ہو گئے۔ منی پور کے دیگر طبقات جن میں کوکی اور ناگا شامل ہیں میتی طبقہ کو ایس ٹی کا درجہ دینے کی مخالفت کر تے ہوئے سڑکوں پر اُ تر آئے۔ 3 مئی کو ان طبقات نے مشترکہ ریالی نکالتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ کوکی اور ناگا طبقے کو شکایت ہے کہ منی پور کی بی جے پی حکومت اور مرکز ی حکومت نے مل کر ان کے خلاف سازش رچائی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ میتی پہلے ہی سے منی پور کے سارے وسائل پر قابض ہے۔ اب ان کو شیڈیول ٹرائب کا درجہ دے کر دوسروں کے ساتھ کھلی نا انصافی کی جا رہی ہے۔ میتی آبادی اپنے آپ کو ہندو مانتی ہے۔ اسی لئے انہیں عام زمرے میں رکھا گیا کیوں کہ وہ صدیوں پہلے ہندو بن چکے تھے۔ اس طبقہ نے ملک کی آزادی کے بعد بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ انہیں درج فہرست قبائل میں شامل کیا جائے۔ وی پی سنگھ کے دور حکومت میں تشکیل پائے منڈل کمیشن میں میتی طبقہ کو او بی سی کا درجہ دیا گیا۔ میتی طبقہ نے پہلی مر تبہ 2012میں شیڈول ٹرائب ڈیمانڈ کمیٹی بناکر یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ انہیں بھی ایس ٹی مانا جا ئے۔ اس کے بعد سے ہی یہ مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ اب جب کہ منی پور میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ اس نے میتیوں کے مطالبے کو قبول کرنے کی تیاری کرلی ۔ انہیں درج فہرست قبائل میں شامل کرنا دراصل ہندو طبقہ کو اپنے ہم نوا بنانے کی بی جے پی کی ایک سیاسی حکمت عملی ہے۔ منی پور کے چیف منسٹر این۔ بیرن سنگھ بھی میتیوں کے ہمدرد بن کر سامنے آگے ہیں ۔ ان کے متنازعہ بیانات نے بھی حالات کو دگرگوں کر دیا ہے۔ 3 مئی کو پھوٹ پڑنے والے تشدد پر قابو پانے کے بجائے چیف منسٹر عوام کو باٹنے کا کام کر رہے ہیں۔ اس سے زخم مندمل ہونے کے بجائے اور زیادہ ہرے ہونے لگے ہیں۔ کوکی اور ناگا طبقے کے لوگ اب حکومت سے بات چیت کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے بنائی گئی امن کمیٹی سے انہوں نے اپنے آپ کو الگ کرلیا ہے۔منی پور کے چیف منسٹر کوکی طبقہ کی ناراضگی کو ایک الگ موڑ دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں منی پور کی حکومت منشیات کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ کوکی طبقہ منشیات میں ملوث ہے۔ اس سیاسی سازش کے ذریعہ پورے کوکی طبقہ کو مجرم بتانے کی ریاست کی بی جے پی حکومت کوشش کر رہی ہے۔ ایک نسلی تنازعہ کو منشیات سے جوڑ دینا ان کی کوتاہ ذہنی ہے۔ منشیات کے کاروبار میں دیگر طبقے بھی ملوث ہیں۔ منی پور میں حالات کارخ اچانک کیوں بدل گیا۔ کیا واقعی منی پور کی ہائی کورٹ کی ہدایت نے ایک چنگاری کا کام کیا؟ اصل حقیقت یہ نہیں ہے۔ بی جے پی نے عدلیہ کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا۔ حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے منی پور میں میتی، کوکی اور ناگا کو آپس میں لڑانے کا یہ خونین کھیل وہاں کی بی جے پی حکومت ، مرکزی حکومت کی مبینہ پشت پناہی میںشروع کی ہے۔ منی پور میں تشدد کی یہ آگ بھڑکانے کی نوبت کیوں آئی؟ اس کا سیدھا اور صاف جواب یہی ہے کہ ملک کی ایک حساس ریاست میں بھی بی جے پی ” ہندوتوا "کا کارڈ کھیلنا چاہتی ہے۔ منی پور میں میتیوںسے لارڈ و پیار کی اصل وجہ یہی ہے کہ میتی ، ہندو طبقہ ہے۔ ان کے اندر "میتی پرستی "کا جنون پیدا کرکے بی جے پی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ منی پور کے اصلی باشندے میتی ہیں۔ بی جے پی میتیوںکی حمایتی بن کر ان کی شناخت، ان کے مذہب اور ان کی تہذیب کے تحفظ کی ضمانت دے کر ان کو اپنے میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ چیف منسٹر بیرین سنگھ کوکی مخالف کے طور پر ریاست میں جانے جا تے ہیں۔ بی جے پی میں شمولیت اور وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود وہ کوکی طبقہ سے کوئی ہمدرددی نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کوکیوں کے احتجاج کو "منشیات مخالف مہم "سے جوڑ دیا۔ اور وہ مسلسل ان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بی جے پی کی حکمت عملی یہ ہے کہ میتی پرستی کو فروغ دے کر "ہندو احیاءپر ستی "کی جڑوں کو پہلے منی پور میں اور بعد میں پورے شمال ۔ مشرق کی ریاستوں میں مضبوط کیا جائے۔ اس گیم پلان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج کوکی اور میتی دونوں آپس میں دست گریباں ہیں۔ بی جے پی یہ چاہتی ہے کہ ان دونوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ سابق میں منی پور کے مسلمان میتی ہندوو¿ں کے تشدد کا شکار ہو چکے ہیں۔ ٹھیک 30سال قبل 3 مئی 1993کو منی پور میں میتی ہندو شدت پسندوں نے مسلمانوں پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ یہ حملے کئی دن تک چلتے رہے۔ دو سو سے زیادہ مسلمان میتیوں کے حملے سے جاں بحق ہوئے۔ کئی مرتبہ منی پور میں ماب لینچنگ کے واقعات بھی ہوئے۔ مسلمانوں کے گھروں کو جلادیا گیا، ان کی دکانات لوٹ لی گئیں۔ اب پھر تیس سال بعد منی پور خون میں ڈوب گیا ہے۔ اس مر تبہ مسلمان نشانہ پر نہیں ہیں ۔ منی پور کے میتی، کوکی اور ناگا ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں۔ لیکن فسطائی طاقتیں اس تنازعہ کو مسلمانوں کی طرف بھی پھیر سکتی ہیں۔ اس لئے منی پور کے مسلمانوں کو بہت ہی محتاط موقف اختیار کرنا ہوگا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ منی پور کے مسلمانوں نے کشت و خون کے اس ننگے بازار میں انسانیت کی اعلیٰ قدروں کو زندہ رکھا۔ ایک ایسے وقت جب کہ پوری ریاست شورش زدہ ہو چکی ہے اور ہر طرف سے آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں منی پور کے مسلمانوں نے راحت کا کام انجام دیتے ہوئے ایک مثالی کردار دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آبادیاں چھوڑ کر فرار ہونے والوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی ۔ مختلف طبقوں کے درمیان ہونے والے تصادم کو روکا۔ امن کے قیام کے لئے متحدہ کوشش کی۔ افسوس کہ میڈیا نے منی پور کے مسلمانوں کی ان کوششوں کا کوئی تذکرہ نہیںکیا۔ کسی صحافی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ آخر اس سارے ہنگامہ میں مسلمانوں کا کتنا بہترین مثبت رول رہا۔ منی پور میں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے۔ منی پور کو مکمل ریاست کا درجہ ملنے کے بعد اس کے پہلے چیف منسٹر مسلمان ہی تھے۔ اب جب کہ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ بیرن سنگھ کی وزارت میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ منی پور میں مسلمان سیاسی، سماجی اور معاشی میدان انتہائی پسماندہ ہیں۔ بی جے پی دور حکومت میں انہیں حاشیہ پر لا دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیشیوں کو پناہ دینے کے الزام میں مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کر دیا جاتا ہے۔ میتی ہندو شدت پسند عناصر نے ریاست میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ منی پور کے حالیہ واقعات یہی ثابت کرتے ہیں کہ بی جے پی حکومت پرامن بقائے باہم کو باقی رکھنے اور ایک تکثیری سماج کے قیام میں ناکام ہو گئی ہے۔ منی پور سے اٹھنے والی شورش کی یہ گرجدار صدائیںیہی وارننگ دیتی ہیں کہ اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ملک کی سا لمیت اور یکجہتی کو خطرات لاحق ہو جائیں گے اور اس کی ذمہ دار حکومت ہو گی۔