ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
مرکز میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اپنی حکمرانی کے نو سال گز شتہ دنوں پورے کر لیے۔ بی جے پی نے پہلی مرتبہ 2014 کے عام انتخابات میں کا میابی حاصل کرکے مرکز میں حکومت تشکیل دی تھی۔ پانچ سال حکومت کرنے کے بعد ملک کے رائے دہندوں نے دوبارہ 2019 میں بی جے پی کے ہاتھوں میں اقتدار سونپا۔ دوسری میعاد کے چار سال مکمل ہو چکے ہیں۔ اس طرح مودی حکومت کو ملک پر حکمرانی کرتے ہوئے نو سال پورے ہوچکے ہیں۔ نو سال کی تکمیل پر بی جے پی قائدین حسب روایت عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش میں لگے ہیں نو سال کا یہ دور ہندوستان کی ترقی میں ایک یادگار دور رہا ہے۔ بی جے پی حکومت نے اس دوران ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کئی کارنامے انجام دیے ہیں۔ بی جے پی حکومت کا زر خرید میڈیا بھی حکومت کے معمولی کاموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے حکومت سے اپنی وفاداری ثابت کرنے میں لگا ہوا۔ مودی حکومت نے اس نو سالہ دور میں ملک کی کیا حالت بنادی ہے اور یہاں رہنے والے عوام کو جن ناقابل بیان مشکلات و مصائب سے دوچار کردیا ہے، اس سے ہر وہ شخص واقف ہے جو ان مسائل کو انگیز کر رہا ہے۔ اقتدار پر آنے سے پہلے جو کچھ وعدے کئے گئے تھے وہ خواب بن کر فضاءمیں بکھر گئے۔ ہر سال دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کاعدہ کیا گیا تھا۔ کیا واقعی یہ وعدہ پورا ہوا؟یہ وعدہ وفا کیا جاتا تو ان نو برسوں میں اٹھارہ کروڑ نوجوانوں کو روزگار حاصل ہوجاتا، لیکن افسوس کہ یہ محض وزیراعظم کی جملہ بازی رہی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں بیروزگاری کا فیصد بڑھتا جا رہا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک فوج روزگار کی تلاش میں در بدر بھٹکتی نظر آ رہی ہے۔ نو سال کے دوران عوام کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اشیائے ضرروریہ کی بھی قیمتیں اس قدر بڑھتی چلی گئیں کہ ایک اوسط خاندان بھی اپنی ضرورتوں کو پورا نہ کر سکا۔ بیرون ملک سے کالا دھن واپس لانے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن اس میں حکومت کے کوئی ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آ ئے۔ راتوں رات وزیر اعظم نے نوٹ بندی کا اعلان کر کے ملک کی معیشت کو اس قدر کنگال کر دیا کہ آج تک اس میں کوئی سدھار ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ان خوفناک مناظر کو کون بھول سکتا ہے کہ وزیراعظم کے اس اچانک فیصلے نے کئی معصوموں کی جان لے لی۔ پھر ایک مرتبہ دوہزار روپیوں کے نوٹ پرپابندی عائد کرکے ملک کی معیشت کو ایک نئی آزمائش میں ڈالا جا رہا ہے۔ حکومت کے آمرانہ فیصلوں کی سزا عوام کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔ ان نو سالوں کے دوران ملک کی سلامتی کے بڑے دعوے کئے گئے لیکن میڈیا یہ نہیں بتا رہا ہے کہ چین کس طرح ہندوستان میں داخل ہو چکا ہے۔ سرحدوں پر ہمارے سپاہی ملک کے لیے جان دے رہے ہیں لیکن ملک کے حکمران ان کی موت کے تابوت پر اپنی حکومت چلارہے ہیں۔ ان نو سالوں کے دوران ان عناصر کا معاشی فائدہ کیا گیا جن کا وزیر اعظم سے قریبی تعلق ہے۔ اپنے دوستوں کو لگاتار فائدہ پہنچانے کے سارے حربے اختیار کئے گئے۔ اڈانی گروپ کو کروڑہا روپﺅں کے پراجیکٹ دیے گئے۔ جب کہ ملک کے کسان حکومت کی ہمدردی کے مستحق نہ بن سکے۔ بی جے پی حکومت کا دونوں میعادوں کے دوران جو سب سے بڑا ” کارنامہ “ رہاوہ یہ کہ ملک کے سماجی تانے بانے کو توڑ کر رکھ دیا گیا۔ مذ ہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرکے ان کے درمیان نفرت و عناد کو پھیلانے کی مذموم کوشش ہر موقع پر کی جاتی رہی۔اس کے نتیجہ میں ملک میں فرقہ وارانہ تناو¿ بڑھتا گیا۔
بی جے پی حکومت نے اپنے اس نو سالہ دور میں مذہبی منافرت کی فضاءکو پروان چڑھا کر ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ جس ملک میں صدیوں سے مختلف مذاہب کے ماننے والے مل جل کر رہتے ہیں ان کے درمیان اپنے سیاسی مفادات کو پورا کرنے کے لیے دراڑ ڈالنے کی سعی مذموم کی گئی۔ ملک کی یکجہتی اور بھائی چارہ کو ختم کرنے کی جو ناپاک حرکتیں اس دوران کی گئیں اس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ملک کے شہریوں کے درمیان نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کردی گئی کہ اس کو منہدم کرنے کے لیے کئی دہے لگ سکتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایسے متنازعہ موضوعات منظر عام لائے جا تے رہے جس سے عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹ گئی۔ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو غدار کہہ کر جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ حکومت سے سوال کر نا ایک ایسا جرم بن گیا کہ اسے ملک سے بغاوت مان لیا گیا۔ کھاﺅں گا نہ کھانے دوں گا کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت میں کرپشن کاجو بازار گرم ہوا، اس سے صرف کارپوریٹ خاندان ہی فائدہ اٹھاتے رہے۔ سماجی انصاف محض ایک نعرہ بن کر رہ گیا۔ کاغذ پر بڑی بڑی پالیسیاں عوام کو راحت پہنچانے کے دعویٰ کے ساتھ بنتی رہیں لیکن زمین پر غریب کے لیے کوئی راحت فراہم نہیں کی گئی۔ بی جے پی حکومت کے ان نو سالوں کے اندر جمہوری اقدار کو کچلنے کا جو کام ہوا، اس کی مثال سابق میں نہیں ملتی۔طلبائ، پروفیسرس، وکلائ، سماجی جہد کار اور صحافیوں کی آواز کو نہ صرف دبایا گیا بلکہ ان پر جھوٹے مقدمات ڈال کر انہیں زنداں کے حوالے کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی پامالی میں ہماری حکومت کسی دوسرے ملک سے پیچھے نہیں رہی۔ کئی بین الاقومی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا کہ بی جے پی حکومت میں سماج کے مختلف طبقوں کے حقوق پامال کئے جا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے ذریعہ ثابت کیا گیا کہ کہاں ، کہاں انسانی حقوق کو سلب کیا گیا۔ لیکن مودی سرکار ہمیشہ یہ کہتی رہی کہ یہ ہندوستان کے خلاف محض پروپگنڈا ہے۔ دنیا اب ایک عالمی گاو¿ں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اب کسی واقعہ کو زیادہ دنوں تک مخفی نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ ان نو سالوں کے دوران خواتین، دلتوں ، اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے حقوق پر شب خون مارا گیا۔ اس سے انکار کرنا حقیقت سے منہ موڑنا ہے۔ جمہوریت میں اپوزیشن کا ایک مقام اور مرتبہ ہوتا ہے۔ جمہوریت کی کا میابی میں اپوزیشن کا رول اہم ہوتا ہے۔ لیکن مودی حکومت نے ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ جو رویہ رکھا وہ جمہوریت کے بالکل خلاف رہا۔ اپوزیشن قائدین کے خلاف ای ڈی اور سی پی آئی کا بے دریغ استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح ان کی آواز کوکچلنے کی ترکیب بی جے پی حکومت نے نکالی۔ آج بھی کئی قائدین ای ڈی کی زد میں ہیں۔ قانونی اداروں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا بی جے پی حکومت کا مزاج بن گیا۔ ملک کے دستوری اور آئینی اداروں کو جس انداز میں مودی حکومت نے اپنے کنٹرول میں لے لیا یہ بھی اس حکومت کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ الیکشن کمیشن سے لے کر سی بی آئی، ہر ایک حکومت کے اشاروں پر کام کرنے کے لیے مجبور ہے۔ حکومت کے تمام شعبوں پر حکومت کا دباو¿ اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی ایماندار آفیسرآزادانہ طور پر اپنے مفوضہ فرائض ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کو بھی اپنے قابو لینے کی کوشش جا ری ہے۔ سابق مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو کے عدلیہ کے خلاف بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کس انداز میں انتظامیہ ، عدلیہ پر حاوی ہونے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ غرض یہ کہ ملک کا کوئی دستوری اور قانونی ادارہ حکومت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے۔ اس سے جمہوریت کو جو نقصان پہنچے گا اور اس کے جو نتائج سامنے آئیں وہ کوئی خوش آئندنہیں ہوں گے۔ اس سے ملک میں آمریت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔ ملک کی نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا حالیہ دنوں میں جس انداز سے افتتاح عمل میں آیا، اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ملک کے وزیراعظم ملک کے دستوری سربراہ کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اس یادگار موقع پر صدرجمہوریہ دروپدی مرمو کو مدعو نہیں کیا گیا۔ یہ دراصل ایک فرد کی توہین نہیں ہے بلکہ اس منصب جلیلہ کی توہین ہے جس پر دروپدی مرمو فائز ہیں۔ ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت رائج ہے۔ اس طرز حکومت میں صدرجمہوریہ ، پارلیمنٹ کا حصہ ہو تا ہے۔ دستور ہند کی رُو سے صدر جمہوریہ ، پارلیمنٹ کا لازمی جز ہے۔ ہندوستانی پارلیمنٹ ، صدر جمہوریہ، راجیہ سبھا اور لوک سبھا پر مشتمل ہے۔ یہ کس قدر حیران کن بات ہے کہ صدرجمہوریہ کو نئی پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب سے دور رکھتے ہوئے خود وزیراعظم نریندرمودی نے اپنے ہاتھوں سے نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کیا۔ حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کر تے ہوئے ملک کی اہم اپوزیشن پارٹیوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا، لیکن اس کا کوئی اثر وزیراعظم پر ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ اس لیے کہ وہ جمہوریت کی نقاب ڈال کر ڈکٹیٹر شپ چلانے کے عادی ہو گئے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ پارلیمنٹ ہاو¿س کی افتتاحی تقریب کو جو مذہبی رنگ دیا گیا وہ بھی بڑا مضحکہ خیز رہا۔ پنڈتوں اور مذہبی پیشواو¿ں کی موجودگی میں وہ سارے رسوم ادا کئے گئے جو ملک کے سیکولرازم کے عین خلاف ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ملک کے قانون ساز ادارے کا افتتاح نہیں ہورہا ہے بلکہ کسی بڑے مندر کے افتتاح کی یہ تقریب ہے۔ اس موقع پر پوڈیم کے پاس سینگول کی تنصیب بھی ایک عجیب تماشا تھی۔ اس سے نریندرمودی کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ہر ایک کی سمجھ سے باہر ہے۔ بہرحال تاریخ کی ایک شاندار علامت کو ختم کر کے ایک نئی مٹی اور گارے کی عمارت عوام کے پیسے سے تعمیر کرکے مودی حکومت نے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کے لیے جس تاریخ کا انتخاب کیا گیا اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے موجودہ حکومت کے عزائم کیا ہیں۔ ہندوتوا کا نظریہ دینے والے ساورکر کی یوم پیدائش پر نئی پارلیمنٹ کا افتتاح ہوتا ہے۔ ساورکر نے تحریک آزادی کے دوران انگریزوں سے معافی چاہی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ وہ جدوجہدآزادی کی تحریک میں کبھی حصہ نہیں لیں گے۔انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ انگریزوں کے تادم حیات وفا دار رہیں گے۔ ان کے یوم پیدائش پر ملک کی پارلیمنٹ کا افتتاح ہونا، دراصل مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو فراموش کر دینے کے مترادف ہے۔ یہ کس قدر المیہ کی بات ہے کہ جن کا ملک کی آزادی میں کوئی حصہ نہیں رہا آج ان کی تعریف کے پُل باندھے جا رہے ہیں۔ ملک کے مسلمانوں کے حوالے سے اگر بی جے پی کے نو سالہ دور کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آ تی ہے یہ نو سال مسلمانوں کے لیے بڑے آزمائشی رہے۔ ان کے ساتھ مودی حکومت کا رویہ انتہائی معاندانہ رہا۔مسلمانوں کو پریشان کرنے کا ہر وہ حربہ آزمایا گیا جو ان کے پاس تھا۔ پہلی میعاد کے آغاز کے ساتھ ہی ماب لینچنگ کے نام پر مسلمانوں کو گھیر کر قتل کیا جا تا رہا۔ محمد اخلاق کے قتل سے جو سلسلہ چلا وہ اب تک جاری ہے۔ مسلم خواتین سے ہمدردی کے نام پر طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی کی گئی۔ بابری مسجد کے ملبہ پر رام مندر کی تعمیر کی گئی۔ سی اے اے اور این آر سی کے سیاہ قوانین مدون کر کے مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کی سازش رچائی گئی۔ یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ گیان واپی اور متھرا کی عیدگاہ کا مسئلہ چھیڑا گیا۔ کرناٹک میں مسلم طالبات کو تعلیم سے روکنے حجاب پر پابندی لگادی گئی۔ ملک کے مختلف مقامات پر لو جہاد اور گاو¿ کشی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو تختہ مشق بنایا گیا۔ غرض یہ کہ بی جے پی کا نو سالہ دور ، ناکامیوں اور بی جے پی کی سیاہ کاریوں سے بھرا پڑا ہے۔ اب اس دور کو ختم کرنے کے لیے متحدہ جدو جہد کی ضرورت ہے۔