طنز و مزاحمضامین

ماہ جون کی ظلمتیں

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

دن مہینے سال یہ انسانوں کی بنائی گنتی ہے جس سے اس فانی دنیا میں گزرتے وقت اور ڈھلتی عمر کا احساس ہوتا ہے۔ آخری زمانے میں وقت کی بے برکتی کا یہ عالم ہے کہ اب دن مہینے سال پر لگا کر ایسے اڑ رہے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا پہلے گھروں میں مینار کیلنڈر سال کے ختم پر شوق سے خریدا جاتا تھا اور اس میں ہر ماہ دودھ کا حساب شادی کی تاریخیں ‘مختلف قسم کے اعراس وغیرہ کا حساب دیکھا جاتا تھا اب تو فلیٹ کی زندگی میں نہ کیلا مارنے کی اجازت ہے نہ کیلنڈر لگانے کی توفیق جو کیلنڈر تحفے میں دئیے جاتے ہیں وہ ایسے ہی پڑے پڑے سال کے گزر جانے کے بعد کاٹ کر گھر کے خانوں یا روٹی کے ڈبوں میں بچھائے جارہے ہیں۔ شدید گرمی کے بعد ماہ جون کی آمد کے ساتھ مرگ لگنے اور موسم برسات کا انتظار کیا جاتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے ہندوستان میں21جون سال کا طویل ترین دن ہوتا ہے، لیکن جب 21کو الٹ کر دیکھا جائے تو جو تاریخ12جون کی بنتی ہے وہ متوسط طبقے کے لیے ہیبت کا باعث بنتی ہے،کیوں کہ ہمارے ہاں12جون نئے تعلیمی سال کے آغاز مدارس کی کشادگی اور گھر کے شرارتی بچوں کو پھر سے اسکولوں میں بھیجنے کی شروعات کی ہوتی ہے، لیکن جس گھر میں چار سے چھ بچے اسکول میں پڑھ رہے ہوں اور باپ کی اوسط کمائی اور خواہش بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھانے کی ہو تو انہیں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہی خانگی اسکولوں کے انتظامیہ کی جانب سے فیس‘ڈریس اور کتابوں کی خریداری اور پتہ نہیں نئے نئے قسم کے اخراجات کی فکر ہوتی ہے۔ اسکول انتظامیہ کا کام ہے بچوں کو پڑھانا لیکن خانگی اسکول اب کاروبار کا مرکز بن گئے ہیں۔ لازمی کردیا جاتا ہے کہ تعلیمی سال کے آغاز پر اسپیشل فیس ادا کی جائے، اسکول سے ہی کتابیں ورک بک اور پن پنسل خریدا جائے، اسکول سے ہی ڈریس خریدا جائے ڈریس بھی جمعہ کا الگ عام دنوں کا الگ۔ سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک لطیفہ گشت کر رہا ہے کہ والدین اسکول انتظامیہ سے پوچھتے ہیں کہ جب کتابیں کاپیاں ڈریس اور سب کچھ آپ کے اسکول سے ہی لینا ہے تو آپ کچھ اچھی تعلیم کی بھی گیارنٹی دیں۔ تب اسکول انتظامیہ کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آپ کا بچہ پڑھنے میں کمزور ہے اسے مزید ٹیوشن کی ضرورت ہے۔ بچوں کے بارے میں خانگی مدراس درست ہوتے ہیں یہ ہمارا اجتماعی شعور گزشتہ بیس سال سے بنا ہے ورنہ 1980کی دہائی میں ہم نے دیکھا تھا کہ سب بچوں کو سرکاری اسکول میں مفت داخلہ دلایا جاتا تھا۔ جہاں کی معیاری تعلیم کا یہ عالم کے اس وقت کا اردو میڈیم کا طالب علم بھی انگریزی میں اس قدر ماہر ہوتا تھا کہ بعد میں وہ دنیا بھر میں اچھی ملازمتوں کے حصول سے اپنا اور ملک کا نام روشن کرتا تھا۔ سرکاری اسکولوں سے والدین کی ناپسندیدگی اس وقت شروع ہوئی جب سرکاری ملازم جس کی نوکری اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو بھاری تنخواہ پکی ہوتی تھی وہ معیار تعلیم کو بلند کرنے سے پیچھے رہنے لگے۔ اور زمانے کے تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہ کرنے کے سبب پیچھے ہوتے گئے اور والدین خانگی اسکولوں کی ظاہری چکا چوند سے متاثر ہونے لگے۔ تو بات چل رہی تھی ماہ جون کی ظلمتوں کی۔ اب خانگی اسکولوںنے والدین کی جیب ہلکی کرنے کے ایک سے ایک ایسے طریقے نکال لیے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ تعلیم دے رہے ہیں یا کاروبار کر رہے ہیں۔ عام طور پر ہمارے ہاں چھٹی جماعت سے سرکاری نصاب پڑھانے کا سلسلہ ہے تو پہلی تا پانچویں جماعت نصابی کتابیں ہر اسکول انتظامیہ اپنی مرضی سے منتخب کرتا ہے اور ایک تھیلی میں کتابیں کاپیاں ورک بک اور پینٹنگ کا ساز و سامان رکھ کر پانچ تا دس ہزار وصول کرتا ہے۔ کچھ خانگی اسکول مفت داخلوں کا اشتہار لگاتے ہیں لیکن جب والدین اسکول انتظامیہ سے اپنے بچے کی داخلے کی کاروائی کرتے ہیں تو ان کی ایسی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ مفت میں داخلے کے چکر میں ہزاروں روپے سالانہ فیس دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ کچھ اسکول مالکین آفر بھی دیتے ہیں کہ اگر آپ سال بھر کی فیس یک مشت دے دیں تو اتنا ڈسکاﺅنٹ دیا جائے گا، والدین یہ نہیں دیکھتے کہ سال بھر کی فیس ادا ہوجانے کے بعد سال بھر کتنی تعلیم دی جائے گی۔ بچے بھی اتنے معصوم ہوتے ہیں کہ کمرہ جماعت میں ٹیچر جب انہیں فیس ادا کرنے کے لیے کہتی ہے تو بچے گھر آکر اس قدر ضد کرتے ہیں کہ ماں باپ بیچارے قرض لے کر بچوں کی فیس ادا کرنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ فیس وصول کرنے کا نیا حربہ یہ نکالاگیا ہے کہ کوئی بھی امتحان ہو ہال ٹکٹ کے نام پر ہال ٹکٹ روک لیا جاتا ہے۔ہال ٹکٹ کسی دوسرے اسکول میں لکھے جانے والے سرکاری امتحان میں داخلے کے لیے ہوتا ہے، اپنے ہی اسکول میں اپنے ہی طلباءکو امتحان لکھنے کے لیے کیسا ہال ٹکٹ؟ بہرحال ہال ٹکٹ روکنے کا والدین پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی کر فیس بھر کے مصداق بچے کی فیس بھرنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ حیدرآباد میں کچھ خانگی اسکول ایسے ہیں جن میں ابتدائی کے جی طلباءکی سالانہ فیس ایک تا دو لاکھ روپے ہے اور اس طرح کے اسکولوں میں نو اڈمیشن کے بورڈ سال بھر آویزاں رہتے ہیں، جب اسکول انتظامیہ سے دریافت کیا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ حیدرآباد میں اس قدر بھاری فیس دینے والے والدین موجود ہیں۔ لیکن کیا ہوگا ان غریب والدین کا جو چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اچھے اسکول میں پڑھے۔ اسکولوں کے سالانہ جلسوں کی دھوم دھام اور گریجویشن تقریب کی دھوم دھام سے سماج میں ایک عدم توازن قائم ہوگیا ہے اور والدین نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کو ان خانگی اسکولوں میں شریک کرانے اور فیس کی وصولی کے نام پر سال بھر ٹارچر سہنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ماہ جون کی ظلمتیں سہنے کے بجائے ایسے والدین جو معاشی طور پر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ سرکاری مدارس میں اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کروائیں اب تو ہماری ریاست میں اقامتی مدارس کا ایک جال پھیل گیا ہے جہاں بچوں کو مفت تعلیم اور رہائش کا انتظام ہے اور بچے اس قدر ترقی کر رہے ہیں کہ ناسا کے پروگراموں میں شرکت کر رہے ہیں۔ ماہ جون کی ظلمتوں سے بچیں ۔ اچھی تعلیم کے نام پر دکھاوے اور قرض سے بچیں اور دستیاب سرکاری وسائل کو استعمال کریں۔

a3w
a3w