طنز و مزاحمضامین

موسم کی ادا!

نصرت فاطمہ

ساون کبھی برسات کبھی تپتی دھوپ
موسم کی ادا جان وفا تم پر کیوں ہے
جس شاعر نے بھی یہ شعر تصنیف کیا ہوگا اور جس موڈ میں یہ شعر موزوں ہوا ہوگا ہم ان کے جذبات و احساسات پوری طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شاید ان کے ہاں بھی کچھ ایسا ہی موسم رہا ہوگا (اور بیچارے موسم کے ساتھ ساتھ شاید ”جان وفا“ کے ہاتھوں بھی ستائے ہوئے رہے ہوں گے)
ان دنوں ہمارے شہر کا موسم بھی بالکل کسی محبوب کی اداو¿ں جیسا ہوگیا ہے۔ پل میں کچھ اور پل میں کچھ اور..
یوں کہ آپ موسم کی ادا دیکھ کر کہیں جانے کا پلان ملتوی کردیتے ہیں کہ بارش میں کہاں خوار ہوتے پھریں(اور سڑکوں کا حال دیکھیں تو پھر یہ ڈر بھی کہ مین ہول پر پیر پڑ گیا تو پھر گھر والے ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے.)
اور جونہی آپ سارے ارادے بدل کر ہاتھ میں ٹی وی کا ریموٹ تھامے چینل بدلنا شروع ہی کرتے ہیں پتہ چلا کہ باہر تو بڑی سہانی سی دھوپ نکل آئی اور کبھی یوں بھی ہونے لگا ہے کہ دن بھر چبھتی، تپتی دھوپ اور رات…. رات آپ پنکھا چلائے کمبل پھینک کر مزے سے سوئے۔پھر آپ کی بہتی ناک اور بوجھل ہوتے سر نے نیند میں آپ کو خبردار کیاکہ موسم کی سازش کو سمجھو نادانو!
چاہے بدلتا مزاج ہو کہ بدلتا موسم دونوں ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ تب آپ اس پھینکے ہوئے کمبل کو گویادوبارہ منالیتے ہیں۔
اب وہ بچپن کا دور تو رہا نہیں کہ بارش میں جان بوجھ کر بھیگ جایا کرتے تھے اور مزے کی بات کہ بیمار بھی نہیں ہوتے تھے۔ اب تو جگجیت سنگھ صاحب کی آواز سے آواز ملا کر بس گنگنا لیتے ہیں
” یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو ….بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی …. مگر مجھ کو لوٹادو وہ بچپن کا ساون ….وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی“
برسات بے موسم کی ہو تو شاید اسی طرح عاجز کردیتی ہے جیسے ہم آج مجبور ہوئے موسم کے ہاتھوں.. اسی موسم کی مہربانی کہ بچے، بڑے سب ہی اس موسم کا شکار ہورہے ہیں۔ فلو، بخار اور ایسی ہی علامتوں نے تقریباً سبھی کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ حفاظتی اقدامات کے طور پر موسم کا(بھی) اعتبار نہ کیجئے۔ ( دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے امان میں رکھے)
صبح کی چمکیلی دھوپ سے یہ ہرگز اندازہ نہ لگائیں کہ پورا دن میاں سورج اپنے جلوے بکھیریں گے۔ ہم تو کئی مرتبہ اس دھوکہ سے دوچار ہوئے۔ یہ سوچ کر کہ چلو آج کپڑوں کی( ہی سہی) دھلائی کرلیں۔ ہم نے جونہی اپنا کام شروع کیا، برستی بوندیں گرج کر برس پڑیں اور ہم مرزا غالب کی طرح
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
کے مصداق کبھی اپنی واشنگ مشین کو تو کبھی برستی بارش کو دیکھتے رہ گئے۔
موسم کے ذکر سے ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک بادشاہ نے اپنے بہنوئی کی سفارش پر ایک شخص کو موسمیات کا وزیر لگا دیا۔ ایک روز بادشاہ شکار پرجانے لگا تو روانگی سے قبل اپنے وزیرِ موسمیات سے موسم کا حال پوچھا۔ وزیر نے کہا کہ موسم بہت اچھا ہے اور اگلے کئی روز تک اسی طرح رہے گا۔ بارش وغیرہ کاقطعاً کوئی امکان نہیں۔ بادشاہ مطمئن ہوکر اپنے لاوٓلشکر کے ساتھ شکار پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں بادشاہ کو ایک کمہار ملا۔ اس نے کہا حضور! آپ کا اقبال بلند ہو‘ آپ اس موسم میں کہاں جا رہے ہیں؟ با دشاہ نے کہا شکار پر۔کمہار کہنے لگا‘ حضور! موسم کچھ ہی دیر بعد خراب ہونے اور بارش کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ بادشاہ نے کہا‘ ابے او برتن بنا کر گدھے پر لادنے والے ‘ توکیا جانے موسم کیا ہے ؟ میرے وزیر نے بتایا ہے کہ موسم نہایت خوشگوار ہے اور شکار کے لیے بہت موزوں اور تم کہہ رہے ہو کہ بارش ہونے والی ہے؟ پھر بادشاہ نے ایک مصاحب کو حکم دیا کہ اس بے پرکی چھوڑنے والے کمہار کو دو جوتے مارے جائیں۔ بادشاہ کے حکم پر فوری عمل ہوا اور کمہار کو دو جوتے نقد مار کر بادشاہ شکار کے لیے جنگل میں داخل ہو گیا۔
ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گھٹا ٹوپ بادل چھاگئے۔ ایک آدھ گھنٹہ بعد گرج چمک شروع ہوئی اورپھربارش۔ بارش بھی ایسی کہ خدا کی پناہ۔ ہر طرف کیچڑ اور دلدل بن گئی۔ بادشاہ اور مصاحب کو سارا شکاربھول گیا۔ جنگل پانی سے جل تھل ہو گیا۔ ایسے میں خاک شکار ہوتا۔ بادشاہ نے واپسی کا سفر شروع کیا اوربرے حالوں میں واپس محل پہنچا۔ واپس آکر اس نے دوکام کیے۔ پہلا یہ کہ وزیر موسمیات کو برطرف کیا اوردوسرا یہ کہ کمہار کو دربار میں طلب کیا، اسے انعامات سے نوازا اور وزیر ِ موسمیات بننے کی پیشکش کی۔ کمہار ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا‘ حضور! کہاں میں جاہل اوران پڑھ شخص اور کہاں سلطنت کی وزارت۔ مجھے تو صرف برتن بنا کر بھٹی میں پکانے اور گدھے پر لاد کربازار میں فروخت کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا۔مجھے موسم کا رتی برابر پتہ نہیں۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ جب میرا گدھا اپنے کان ڈھیلے کر کے نیچے لٹکائے تو اس کا مطلب ہے کہ بارش ضرور ہو گی۔ یہ میرا تجربہ ہے اورکبھی بھی میرے گدھے کی یہ پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی۔
یہ سن کر بادشاہ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کمہارکے گدھے کو اپنا وزیرِ موسمیات مقرر کر دیا۔ مو¿رخ کا کہنا ہے کہ گدھوں کو وزیر بنانے کی ابتدا تب سے ہوئی۔ (معذرت کے ساتھ)