مضامین

کیا لڑکوں کی تعلیمی پسماندگی واحساس کمتری کے لیے مدارس اور گھر والوں کا رویہ ذمہ دار ہے؟

محمد ضیاءالدین

یہ ایک سماجی رفاہی ادارے کی میٹنگ تھی، اس میں ایک صاحب اچانک بھڑک گئے (موصوف ایک متحرک سماجی و سیاسی قائد ہیں۔ سماجی و ملی تڑپ کے حامل ہیں۔ ملی معاملات میں پیش پیش رہتے ہیں، لیکن ہیں ذرا شارٹ ٹمپر۔ذرا ذرا سی بات پر بھڑک جاتے ہیں،لیکن ان کے خلوص میں دو رائے نہیں) انھوں نے طیش میں آکر کہا کہ ہمارے لڑکوں کی تعلیمی پس ماندگی کے لیے خود ہم ذمہ دار ہیں، اسکول ذمہ دار ہیں، اساتذہ ذمہ دار ہیں اور تو اور خودماں باپ ذمہ دار ہیں۔ سب ان کاچہرہ دیکھنے لگ گئے جو غصے سے لال ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ ایک تو گھروں میں لڑکوں سے باہر کے کام لیے جاتے ہیں دوسرے ، تعلیم میں کمزور ہونے پر گھر کی لڑکیوں سے ان کا تقابل کر کے ان کی توہین و تذلیل کی جاتی ہے۔مدارس میں بھی یہی حال ہے۔ کو ایجوکیشن ہے۔ لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہیں ۔اساتذہ کے سوالات کے جواب اگر لڑکوں کی طرف سے نہ آئیں اور لڑکیوں کی طرف سے آئیں تو بیشتر اساتذہ انھیں لڑکیوں کے سامنے شرمندہ کرتے ہیں۔ یہ ان کے سامنے لڑکیوں کی غیر ضروری تعریف کرتے ہیں جس کے سبب لڑکے اوروں کے لیے مذاق کا موضوع بن جاتے ہیں اور تعلیم سے ان کا دل اچٹ جاتا ہے اور تعلیم سے بد دل ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف لڑکیاں ہیں، انھیں باہر کا کوئی کام نہیں۔ یہ تعلیم کے لیے زیادہ وقت دیتی ہیں، اس لیے وہ قدرے آگے ہوتی ہیں، اس لیے وہ اچھے نمبرات سے پاس ہوتی ہیں جب کہ لڑکے بد دلی کے سبب اچھے نمبرات نہیں لاسکتے تب ماں باپ لڑکیوں کی تعریف و توصیف بھی کرتے ہیں اور انھیں آگے کی تعلیم کے مواقع اور وسائل فراہم کرتے ہیں جبکہ لڑکوں کی تعلیم کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے وہ مخالف نہیں، لیکن انھیں اس تفریق پر اعتراض ہے جو لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے لیے ماں باپ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر لڑکیوں کی تعلیم یا اعلیٰ تعلیم کے جنون میں ماں باپ لڑکوں کے حصہ کا خرچ بھی لڑکیوں پر کرتے ہیں۔ اگر لڑکیاں اچھے نمبرات لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالجوں میں جاتی ہے تب بھی غنیمت ہے لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکی کے مارکس کم ہیں اور والدین کی خواہش ہے کہ لڑکی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ان کا نام چمکائے۔ اب چونکہ لڑکی گورنمنٹ کالج میں داخلہ نہیں پا سکتی ہے لیکن خواہش ہے کہ وہ نام چمکائے پھر اس کے لیے سماجی و رفاہی اداروں سے مدد مانگی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ سماجی و رفاہی ادارے کسی لڑکی کو پرائیویٹ کالج میں داخلے کے لیے مدد دینے سے رہے، کیوں کہ اتنی ہی رقم سے گورنمنٹ کالج کے کئی طلباءکی مدد کی جاسکتی ہے تب وہ ان کو لعن طعن کرکے دوسرے راستے تلاش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس کے لیے اپنی جمع پونجی و گھر تک داﺅ پر لگادیتے ہیں، اس کا خیال کیے بنا کہ اس رقم پر لڑکوں کا بھی تو حق ہے ، انھوں نے کہا کہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور ہے بھی لیکن یہیں سے وہ مسائل پیدا ہوتے ہیں جو ملت کے لیے مضرت رساں ثابت ہورہے ہیں ۔ پرائیویٹ کالجوں کے لیے لڑکیوں کو گھروں سے دور جانا پڑتا ہے، وہاں مسلم لڑکے یا تو ہوتے ہی نہیں یا برائے نام ہوتے ہیں، تب یہ لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ربط میں آتی ہیں ، چونکہ وہاں روک ٹوک کرنے والا کوئی ہوتا نہیں اس لیے معاملات دور تک جاکر بات مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادیوں اور ارتداد تک جا پہنچتی ہے اور ایسے بے شمار واقعات نظروں کے سامنے سے گزرے اور گزر رہے ہیں اور یوں ماں باپ اتنا سارا خرچ کرکے خود بھی رسوا اور ذلیل ہوتے ہیں اور ملت کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے ان خیالات سے میٹنگ میں موجود ایک محترمہ کو خیال گزرا کہ یہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں سو وہ بپھر کر میدان میں آگئیں اور انھوں نے کہا کہ اگر لڑکے بجائے پڑھنے لکھنے کے آوارہ گردی کرتے پھریں، دیر رات تک نکڑوں پر بیٹھے رہیں، فضول مشاغل میں مصروف رہیں، رات رات بھر موبائیل میں لگے رہیں تو اس میں لڑکیوں کا کیا قصور ،لڑکیاں اگر یکسوئی کے ساتھ پڑھتی ہوں اور انھیں ماں باپ پڑھاتے ہوں تو اس میں غلط کیا ہے چونکہ وہ بھی تیز و تند لہجے میں گفتگو کر رہی تھیں جس سے دیگر شرکاءکو خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں بات مزید آگے نہ بڑھے، اس لیے سمجھا بجھا کر گفتگو ختم کرادی گئی۔ میٹنگ کی حد تک تو یہ گفتگو ختم ہوگئی، لیکن کیا یہ و قت کی ضرورت نہیں کہ اس پر کسی چھوٹی سی میٹنگ کی بجائے پورے سماج میں گفتگو ہو، کیوں کہ یہ ہمارے سماج کا ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جسے سماج نے کبھی اہم سمجھا ہی نہیںاور سماج کی یہ سمجھ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ کن اور کیسے مسائل کو اہم سمجھتا ہے۔ خیر درپیش مسئلہ ہے مسلم نوجوانوں کے تعلیمی میدان میں پچھڑے ہونے کا اور یہ وہ مسئلہ ہے جو سماج میں بے شمار مسائل پیدا کررہا ہے۔ راقم الحروف کا یہ مشاہدہ ہے کہ علاقہ مراٹھواڑہ کے زیادہ تر تعلقہ جات ، ٹاون پلیس اور بڑے گاﺅوں کے اردو مدارس میں لڑکیوں کی تعداد اسی فیصد جبکہ لڑکے بیس فیصد وہ بھی انتہائی ایوریج۔ اس کی تحقیق پر پتہ چلا کہ لڑکیوں کو محض اسکولی تعلیم دینی ہوتی ہے ( یہ صورت حال اب بدل رہی ہے، اب چھوٹے مقامات پر بھی مسلم لڑکیاں کالجوںمیں پڑھ رہی ہیں اور دیگر کورس بھی کر رہی ہیں) دوسرے اغیار کے مدارس میں نہیں بھیجنا ہے جبکہ لڑکوں کوایک تو اس لیے مراٹھی میڈیم کے مدارس میں بھیجا جاتا ہے کہ انھیں نوکریاں ملیں (جو ملتی نہیں ہیں ) دوسرے یہ شکایت بھی عام ہے کہ اردو کے مدارس میں سب ہوتا ہے ،لیکن تعلیم نہیں ہوتی ۔ بچے میٹرک میں آجائیں تب بھی وہ لکھنا پڑھنا تو دور انھیں نام بھی لکھنا نہیں آتا تب انھیں کیوں اردو مدرسے میں ڈالا جائے ۔
گو کہ یہ مسئلہ ایک سیدھا سادھا مسئلہ دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ ہے نہیں۔اس کاحل ڈھونڈنے سے پہلے اس کی وجہ تلاش کرنے کے لیے ایک تفصیلی سماجی مطالعہ کی ضرورت ہے (جو کہ ہم سے ہوتا نہیں ) اگر ہم کو سماج میں مسلم لڑکوں کی تعلیمی پسماندگی کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہے تو ہمیں اپنے سماج کے مختلف طبقات کی زمرہ بندی کرنی ہوگی۔ اس لحاظ سے دیکھا جاے تو ہمارا سماج عام طور پر چار طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ ایک تو وہ طبقہ ہے جس کی معقول آمدنی ہے اور خرچ جس کے لیے مسئلہ نہیں ہے (ان میں وہ نو دولتیہ طبقہ بھی شامل ہے جس نے جائز ناجائز طریقے سے بے حساب دولت کما لی ہے اور آج کل ہنس کی چال چل رہا ہے ) دوسرا طبقہ متوسط یا مڈل کلاس ہے، یہ وہ طبقہ ہے جس کی آمدنی اور ذرایع آمدنی محدود لیکن خواہشات اور حرص لامحدود ہے۔ اس کے فوری بعد والے طبقہ کو لور مڈل کلاس بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ بھی پیر پھیلاتے ہوئے کبھی چادر نہیں دیکھتا اور آخری اور چوتھا طبقہ ہے لوور کلاس جو عام طور پرمزدور پیشہ اور چھوٹے موٹے پیشے کرنے والوں کا ہے جن کی آمدنی خرچ سے تھوڑی کم ہی ہوتی ہے۔ اب اگر ان طبقات کے لڑکوں کی تعلیمی حالات کا جائزہ لیا جاے تو ہم دیکھتے ہیں کہ چوتھے طبقے میں (جو شہروں میں عام طور پر مضافاتی جھگی جھونپڑیوں اور کچی بستیوں میں رہتا ہے ) وہ چاہے شہروں کا ہو یا دیہات کا، یہاں لڑکوں کی اوسط تعلیم کا اوسط نہایت کم ہوتا ہے کیوں کہ اس طبقہ کی ترجیح پیٹ کو بھرنا ہوتی ہے۔ یہاں کے بچے بمشکل پرائمری تک پڑھ لیتے ہیں، وہ بھی تعداد کے لیے اساتذہ کی جانب سے کی جانے والی دھڑپکڑ اورمڈ ڈے میل کی لالچ اور مفت کتابوں کے حصول کے سبب۔ جیسے ہی یہ بچے بارہ چودہ سال کے ہوجاتے ہیں ،ماں باپ انھیں کام کے لیے روانہ کردیتے ہیں یا یہ خود ماحول کے زیر اثر کام پر چلے جاتے ہیں اور ایک بار یہ کام پر چلے جائیں، ان کے ہاتھ میں چارپیسے آجائیں اور باہر کی ہوا لگ جائے تو پھر یہ کبھی بھی لوٹ کر نہیں آتے۔ افسوس کی بات یہ کہ سماج میں ان کا تناسب کم نہیں ہے۔ اسی طرح روایتی بیوپار پیشہ لوگ جیسے باغبان قصاب اور ایسے ہی چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے طبقہ کے لڑکے بھی ماحول کے زیر اثر بچپن ہی سے دھندے کاروبار میں لگ جاتے ہیں اور پھر اسکول کا منہ نہیں دیکھتے ۔ مذکورہ بالا دونوں طبقات کے لڑکے مڈل سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ معدودے چند ہی ہوتے ہیں جو میٹرک یا انٹر کرپاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم میں خال خال نظر آتے ہیں ۔ دوسرا طبقہ لوور مڈل کلاس ہے جس میں چوتھے درجے کے ملازم اور اسی سطح پر کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ یہاں بھی لڑکوں کی تعلیم کا فیصد ۶۰ سے کم ہوتا ہے۔ جو سمجھدار لوگ ہوتے ہیں، اچھی سوسائٹی میں جن کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے، وہ اپنے بچوں کو کسی طرح میٹرک تک پڑھا لیتے ہیں۔ ان کی ترجیح اور ضرورت روزگار ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے بچوں کو فوری ملنے والے روزگار کے کورسس کراتے ہیں۔ یہاں اعلیٰ تعلیم پانے والے بچوں کا فیصد بمشکل دس سے پندرہ ہوتا ہے۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے چالیس فیصد لوگ وہ ہوتے ہیں جن کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ نہیں ہوتا اور ان کی اولاد بھی اسی ڈھنگ اور اسی راہ پر چلتی ہے۔ مڈل کلاس یا متوسط طبقہ جس کی ایک خاصی تعداد معاشرے میں ہے، یہ بھی دو طرح کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو صاحب سمجھ اور باشعور ہوتی ہے ۔حالات حاضرہ سے واقف ہوتی ہے اور باوجود اپنے محدود وسائل کے اپنی اولاد کی تعلیم کی طرف توجہ دیتی ہے۔ جو ماں باپ سوجھ بوجھ والے ہوتے ہیں، وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہیں اور ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی طبقے کے سبب سماج میں تعلیم کی روشنی نظر آتی ہے۔ اس طبقے سے بہت سارے بچے اچھے نمبرات سے کامیاب ہوتے ہیں اور اعلی تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں حالانکہ یہ تعداد بہت زیادہ تو نہیں، لیکن بہر صورت غنیمت ہے ، لیکن یہ بھی ہے کہ اسی طبقہ میں ایک تعداد ایسی بھی ہے جن کے لڑکے بے راہ روی اور آوارہ گردی کا شکار ہیں اور یہی ہیں جو سماج کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں ۔ رہی بات دولت مندوں یا خوش حال طبقے کی، ان کے لڑکوں کی تعلیم ماں باپ کے رویے اور سوجھ بوجھ پر مبنی ہوتی ہے اورنو دولتیہ طبقہ وہ ہے جو ہر کام کی نمائش چاہتا ہے، اسی لیے ان کے لڑکوں کی تعلیم بھی ایک فیشن شو ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ دولت مند طبقہ ہو یا نو دولتیے ان کی اولاد کی تعلیم کا معاملہ ناریل کے درخت کی طرح ہوتا ہے۔ اگر ہم لڑکوں کی تعلیم کو اس زمرہ بندی کے آئینے میں دیکھیں تو پھر نہ ہم طیش میں آئیں گے نہ ہی بحث و تکرار کریں گے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کا اوسط لڑکوں سے زیادہ ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔
٭٭٭

a3w
a3w