رشید پروین
جی ۲۰ کے کامیاب اور پر امن انعقاد کے بعد مرکزی سوچ و فکر کی تبدیلی بھی ایک لازمی اور فطری عمل ہی کہی جاسکتی ہے، اس لئے شاید کئی اقدامات کا زیر غور آنا کوئی غیر منطقی بات نہیں اور اس میں پہلا قدم میر واعظ کی رہائی بھی سمجھا جاسکتا ہے، آخر ۲۳ ستمبر ۲۰۲۳کو میر واعظ عمر فاروق کی خانہ نظر بندی کا اختتام ہو ا، انہیں رہائی ملی اور زائد از چار سال کے بعد وہ گھر سے باہر جامع مسجد میں نماز ادا کرنے کے قابل ہوئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ٹھیک ۲۱۲ جمعہ تک اس مسجد میں نماز ِ ادا کرنے اور اپنے عقیدتمندوں کے قرب سے محروم رہنے کے بعد پچھلی جمعہ کو اس تاریخی مسجد کے منبر پر کھڑے ہوکر پھر ایک بار اپنے چاہنے والوں سے مخاطب ہوئے، عینی شاہدین کے مطابق لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے جامع مسجد کے احاطے میں ان کا پُر جوش اور والہانہ استقبال کیااور عوام کی خوشی سے ظاہر تھا کہ مولوی عمر فاروق کے شیدائی اور فدو ی ڈاون ٹاون میں بڑی تعداد میں موجود ہیں،جنہیں اس خاندان سے عقیدت بھی رہی ہے اور اس خاندان سے پیار بھی رہا ہے، سرینگر اور ڈاون ٹاون ائریا کی روایات کے بالکل خلاف کہا جاتا ہے کہ یہاں پر نہ تو کوئی ہلڑ بازی ہوئی اور نہ اُن روایتی نعروں کی کوئی باز گشت ہی سنائی دی جو یہاں کی روایت ہوکر رہ گئے تھے، اس لحاظ اس طرز طریق کا کیا نام دیا جاسکتا ہے، اس کے بغیر کہ عوام کسی نئی جہت کی جانب اپنا سفر شروع کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک مدت کے بعد یہاں عوام سے ان کا خطاب نہ صرف اہم رہا ہوگا بلکہ ان بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں ان کا پیغام بھی اسی قدر اہم اور بہت سارے اداروں اور ارباب اقتدار کے لئے بھی بڑی افادیت کا حامل رہا ہوگا اور یقینی طور پر تمام مشنری کو اس پہلے خطبے کا انتظار بھی رہا ہوگا اور ان کی ایک ایک بات کو نئے سیاسی پسِ منظر میں بھی پرکھا جا ئے گا۔ انہوں نے جو بھی کہا اور اس بڑی مدت کے بعد جن خیالات کا اظہار کیاوہ نہ صرف دلچسپ ہیں، بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ وہ پوری طرح تیاری کر کے آئے تھے کیوں کہ ان کا ہر جملہ اور ہر لفظ نُپا تلا، مختصر،وزن دار اور مدلل تھا، وہ اپنے خطاب کے دوران نہ تو کہیں جذباتی ہوئے، نہ کسی جوش کا مظاہرہ کیا اور نہ ہی کوئی ایسی بات ان کی زباں سے ادا ہوئی جس پر حکومت وقت کو کسی قسم کی گرفت کا موقع ہی میسر رہتا، اس کے باوجود انہوں نے وہ بات کی جو اس کا موقف رہا ہے لیکن اس کے لیے مولوی نے بھی نریندر مودی کے کہے الفاظ کا حوالہ دے کر ہی اپنے مافی الضمیر کو واضح کرنے کی بہت ہی خوبصورت کوشش کی، اس سے پہلے کہ اس خاص خطاب کا مختصر سا جائزہ لیا جائے آپ کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ مولوی خاندان کی کشمیر میں اپنی ایک شاندار تاریخ ہے اور اس خاندان نے کشمیر میں علم و ادب اور مذہبی جاگرتی اور تعلیمات کی شمع صدیوں سے یہاں فروزاں رکھی ہے،اس طرح سارے کشمیر کے عوام اس خاندان سے نہ صرف جذباتی اور مذہبی طور جڑے تھے بلکہ اس خاندان کی بات اور مشورے ایک بڑی مدت تک حرف آ خر رہا کرتے تھے، شیخ عبداللہ نے بھی اپنے بچپن میں اس خاندان کے ہاں خاصا وقت گزارا ہے اور یہی وہ خاندان ہے جن کی کوششوں سے شیخ عبداللہ کو وہ عروج حاصل ہواجو کئی دہائیوں تک اپنے پورے شباب پر چھایا رہا اور آج بھی اس زمانے کی جنریشن کسی بھی صورت نہ تو تاریخ پر یقین کرتی ہے نہ اس کی زندگی کا محاسبہ کرتی ہے نہ مسلم کانفرنس سے نیشنل کانفرنس کے سفر پر تفکر کرتی ہے اور نہ اندرا عبداللہ ایکارڈنے شیخ عبداللہ پر عوام کے اندھ وشواس کو متزلزل ہی کیا ہے،، بہر حال مولوی اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور ان کے والد محترم مولوی فاروق نے تحریک موئے مقدس ۱۹۶۴ میں عوامی سطح پر سیاسی میدانوں میں اپنی انٹری لی تھی جب ان کی عمر صرف ۱۹ برس تھی اور پھر عوامی ایکشن کمیٹی کے مسلسل چیرمین رہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مولوی ڈاون ٹاون اور کئی دوسرے علاقوں میں نہ صرف ہر دلعزیز بلکہ اپنے فیملی بیک گراونڈ سے اپنا ایک الگ اور منفرد مقام رکھتے ہیں مولوی فاروق ۲۱ مئی ۱۹۹۰ کو شہادت کے درجے پر فائز ہوئے تھے، ان کی شہادت پر اگر چہ اب بھی دھند کی ایک دبیز چادر جمی ہوئی ہے لیکن یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ انہیں شہید کرنے میں کلیدی طور پانچ افراد ملوث تھے جو سب حزب المجاہدین سے بہ ظاہر تعلق رکھتے تھے لیکن کن ہاتھوں میں کھیل رہے تھے،، یہ اب بھی ایک سوالیہ نشان ہی ہے۔ آپ کو یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ مولوی فاروق کے جنازے پر اسلامیہ کالج کے سامنے بے دریغ فائرنگ ہوئی تھی، جس میں ۷۲ افراد آن سپاٹ ہی جان بحق ہو ئے تھے اس کے علاوہ چار خواتین بھی تھیں۔ یہ دور جگموہن کا تھا اور کشمیر کی تاریخ میں یہ ایک بہت بڑے قتل عام کی صورت سیاہ باب کے طور درج ہوچکا ہے،،مولوی عمر فاروق کو اپنے والد محترم کی شہادت کے بعد ۱۷ سال کی عمر میں میر واعظ کی مسند پر بٹھایا گیا، ۱۹۹۳ سے ۱۹۹۸ تک حریت کے چیرمین بھی رہے، ۲۰۱۴ میں پانچ سو بڑی شخصیات کی فہرست میں بھی جگہ پائی،ایک کشمیری امریکن لڑکی شیبا مسعودی سے بیاہ کیا ہے دو بیٹیاں، زینب، مریم اور ایک بیٹا ابراہیم ۲۰۱۷ میں پیدا ہوا تھا،، اب آئیے یہ دیکھیں کہ انہوں نے جامع مسجد کے منبر سے کن کو اور کیا پیغام دیا ہے،اور اس پیغام کو ارباب اقتدار کن سانچوں میں ڈھال کر تجزیہ کرتے ہوں گے،انہوں نے یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی کہ کچھ لوگ ہمیں غلط سمجھ کر یا ہمارے بارے میں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم علیحد گی پسند ہیں،(یہاں علاحدگی پسند لفظ پاکستانی حامیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے)، بلکہ یہ ہم پر ایک لیبل چسپاں کیا جاتا ہے جو درست نہیں،ہمارا پہلے سے اور آج بھی یہ موقف ہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ بنیادی طور پر مسئلہ انسانی حقوق سے تعلق رکھتا ہے، ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ یہ کوئی لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں جیسا کہ ارباب اقتدار دہائیوں سے سمجھتے آئے ہیں، بلکہ یہ کوئی علاقائی مسئلہ بھی نہیں بلکہ ان تمام انسانوں کا مسئلہ ہے جو وقت کے ہاتھوں مجبور و محکوم ہوکر رہ گئے ہیں بلکہ جن کے گھر، پریوار اوزمینوں کے حصے بخرے کر کے انہیں مختلف خا نوں اور جغرافیائی حدود میں مقید کیا گیا ہے،انہیں شیخ عبداللہ کے زمانے سے ہی تحریر و تقریر کی آزادی اور منصفانہ انتخابات سے محروم رکھ کر ان کے احساس اور جذبات کو قنوطیت کے اندھیروں میں دھکیلا گیا ہے،انہوں نے واضح کیا کہ یہ ان سب کا مسئلہ ہے۔ اور دیکھا جائے تو اس صدی میں جب کہ اب شخصی اور مطلق العنان حکمرانی کی کوئی گنجائش نہیں کشمیری کئی حصوں میں بٹے ہوئے ہر حصے میں اپنے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں،اور ہر جغرافیائی حد میں یکساں طور مظلوم و مجبور ہیں،، اپنے بارے میں ان چار سال کا انہوں نے کوئی تذکرہ نہیں کیا، اور نہ کسی طرح کی ناراضگی یا شکایت کا ہی کوئی خاص اظہار کیا بلکہ اس پہلو کو ہی نظر انداز کر کے ا پنے قد و قامت کو کچھ اونچا کیا، اپنے مخصوص اور بڑے خوبصورت انداز میں احادیث کی روشنی میں عوام کو بھی مشکل وقت میں صبر کا دامن تھامے رکھنے کی تلقین کی جس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ ا نہوں نے یہ پیغام دیا کہ ہم اس سارے وقت میں صبر کا دامن ہی تھامے رہے،، اور یہ پیغام ان تمام دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہے جو تب سے اب تک اور ابھی تک پابند سلاسل ہیں، مولوی عمر فاروق نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم ہمیشہ ہی مفاہمتی، اور افہام و تفہیم پر یقین کرتے آئے ہیں اور ہمیشہ یہ خواہش کی ہے کہ پر امن طور پر ٹیبل پر آکر مذاکرات کئے جائیں جو خلوص نیت پر مبنی ہوں، شاید ان کا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ ملی ٹینسی پر یقین نہیں رکھتے اور اسی لئے ڈائرکٹ یا براہ راست وہ اس دور میں بھی ملیٹنٹ اوٹ فٹوں سے ایک دوری بنائے ہوئے تھے، بہ ظاہر ایسا تھا ۔ اور ان کے ریکارڈ میں کوئی ایسا بیان نہیں جس میں انہوں نے اپنے تعلق کا اظہار کسی اوٹ فٹ سے کیا ہو۔،ان کے خطاب کا اہم ترین حصہ وہ تھا جس میں انہوں نے کہا کہ ۵ اگست کے فیصلوں میں عوامی رائے کے بر عکس لداخ کو جموں و کشمیر سے عملی طور پر الگ کیا گیا اور پھر جموں و کشمیر کو تقسیم کرکے یہاں سے ریاستی درجے کو بھی ختم کیا گیا، یہ اہم بات تھی اور یہاں اپنے ما فی الضمیر کے اظہار میں ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی بار بہت سارے مسائل اور ممالک کے بارے میں پرائم منسٹر نریندر مودی کی رائے ہے کہ امن اور مذاکرات ہی کسی بھی مسلے کا حل ہیں، ظاہر ہے کہ یہ امن اور افہام و تفہیم ہی کی طرف واضح اشارہ قرار دیا جاسکتا ہے‘جنگ ایک تو کسی مسلے کا حل نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس سینکڑوں مسائل کو جنم دیتی ہے جو ناقابل حل بن کر صدیوں پر محیط ہوجاتے ہیں، اس پس ِ منظر میں بھی اس سے پرکھا جاسکتا ہے کہ یہاں بھی مذاکرات اور پُر امن ڈائیلاگ ہی مسائل حل ہو سکتے ہیں، کیوں کہ پچھلے ۷۵ برس کا زمانہ گواہ ہے کہ کئی جنگیں بھی مسلے کو حل نہیں کر پائی ہیں اور نہ آگے تصادم اور جنگجویت سے کچھ حاصل ہونے والا ہے ۔۔ کشمیر کی لگ بھگ تمام سیاسی پارٹیوں نے میر واعظ کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے اور امید کی ہے کہ آنے والے مستقبل قریب میں اور بھی کئی ایسے اقدامات کی توقع کی جاسکتی ہے، جو ایک نئے نظام، نئے سیاسی آسمان اور نئی فضاؤں کے لئے نہ صرف ساز گارماحول تیار کریں گے،جہاں امن، تعمیر و ترقی کے خواب اپنی تعبیر پاتے ہیں، بلکہ ماضی سے سبق بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس سے بھلاکر نئے جہاں بھی تعمیر کئے جاسکتے ہیں، اگر ا نتقام گیری، تعصب، ہٹ دھرمی اور سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے انسانی اقدار کا دامن تھاما جائے، انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور اس کی آزادیء تحریر و تقریر پر قد غنیں نہ لگائی جائیں، تو اس کی سوچوں میں انقلابی تبدیلیوں کا واقع ہونا بھی ایک فطری تقاضا ہی بنتا ہے۔
٭٭٭