مضامین

بدگوئی: نیکیاں کھا جانے والا فعل، ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا اظہار خیال

خطیب و امام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بدگوئی کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے بتلایا کہ کہتے ہیں کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلا ہوا جملہ واپس نہیں آسکتے۔

حیدرآباد: خطیب و امام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بدگوئی کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے بتلایا کہ کہتے ہیں کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلا ہوا جملہ واپس نہیں آسکتے۔ ایک اور مثل مشہور ہے کہ زبان کا گھاؤ تیر کے وار سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ اسی لئے بدگوئی کو عام طور پر انسانی معاشروں میں ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ یوں تو کسی کی عزت پر حملہ کرنے اور اسے اذیت پہنچانے کے کئی طریقے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ بدگوئی ہی ہے۔ بدگوئی کا مفہوم ہے کسی کے منہ پر اسے برا بھلا بولنا یا کوئی ایسی بات کردینا جس سے اسے اذیت پہنچے۔

متعلقہ خبریں
گستاخِ نبیؐ کا ہر دور میں بدترین انجام :مفتی محمد وجیہ اللہ سبحانی کا خطاب
ورک ورلڈ آرگنائزیشن فار ریلیجس اینڈ نالج تلنگانہ چیاپٹر کی عوامی خدمت
حمیرہ بیگم کو بغیر کسی کوچنگ کے سرکاری ملازمت حاصل کرنے پر نواب شیوا کمار گوڑ دی مبارکباد
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ کا یوم ولادت: جامعہ نظامیہ میں خصوصی جلسہ
مئیر نے شہریوں کو دسہرہ کی مبارکباد دی

قرآن کریم میں بدگوئی کی ممانعت: قرآن میں سورہ الحجرات کی آیت میں واضح طور پر اس رویے کو بُرا سمجھا گیا اور اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے اور باز نہ آنے والے لوگوں کو ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔ مفہوم: ’’اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب لگاؤ اور نہ (ایک دوسرے کو) بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا بُرا ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں۔‘‘ (الحجرات) اسی طرح بدگو انسان کو سورہ الھمزہ میں ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے، مفہوم: ’’ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔‘‘ (الھمزہ) سورہ القلم میں بھی طعنہ دینے والے شخص کے لیے وعید آئی ہے۔

حدیث میں بدگوئی کی ممانعت: قرآن کے علاوہ احادیث میں بھی بَدگوئی کی واضح طور پر مذمت کی گئی ہے چناں چہ ایک حدیث میں خوش خلقی کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو تم سب میں زیادہ بااخلاق ہو۔‘‘ (صحیح بخاری) اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان ہوتا ہے۔ ’’جو شخص اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ ( صحیح بخاری) اسی طرح ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ بندے کو سب سے اچھی چیز کیا عطا کی گئی؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: خوش خلقی۔ (سنن ابن ماجہ)

بدگوئی کے مختلف انداز: گالی دینا، گالی کا مطلب کوئی دشنام، بدزبانی یا کوئی فحش بات بولنا ہے۔ بدگوئی کی سب سے سنگین صورت حال یہی ہے کہ مخاطب کو گالی دی جائے۔ گالی دینے کے کئی انداز ہیں جیسے کسی جانور سے منسوب کرنا، کسی غلط کردار سے موسوم کرنا، کسی فحش فعل سے نسبت دینا، کسی کے گھر کی خواتین کے بارے میں غلیظ زبان استعمال کرنا، کوئی فحش بات کہہ دینا وغیرہ۔ گالی کسی صورت میں بھی انسانی سماج میں گوارا نہیں اور اس کی ہر مہذّب فورم میں مذّمت ہی کی جاتی ہے۔ گالی دینے کا بنیادی مقصد مخاطب کی توہین کرنا، بے عزت و ذلیل کرنا اور ایذا پہنچانا ہوتا ہے۔ حالاں کہ گالی دینے والے شخص کو جواب میں خود اس بے عزتی کے عمل سے گزرنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آخرت میں اس کے اعمال سے نیکیاں مخاطب کے کھاتے میں بھی منتقل ہونے کا خدشہ بھی موجود ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق یعنی گناہ ہے۔ ایک اور مقام پر نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ دو شخص جو ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں، وہ دونوں شیطان ہوتے ہیں جو بکواس اور جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد) اسی طرح آپؐ نے منافق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت یہ بتائی ہے کہ جب بھی وہ کسی سے اختلاف کرے تو گالیاں بکے (صحیح بخاری) آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن میری امّت کا مفلس وہ آدمی ہوگا جو نماز روزے زکوۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائی سے پہلے ہی ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس آدمی کو جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘

لعنت کرنا: بدگوئی کا ایک اور پہلو لعنت کرنا ہے۔ لعنت کرنے کا مطلب کسی کو خدا کے عذاب کی یا خدا کی رحمت سے محروم کرنے کی بَددعا دینا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ اﷲ تجھے برباد کرے یا خدا تجھے غارت کرے وغیرہ۔ یہ لازمی طور پر ایک سنگین بَددعا ہے جس سے مخالف کے بارے میں ہمارے عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص پر بلاجواز لعنت کی جارہی ہے تو یہ ایک سنگین گناہ ہے۔ اسی لیے حدیث میں لعنت کرنے کو مومن کے قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ (بخاری)

لعنت کرنے والوں کے بارے میں نبی کریمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی جانب پروان چڑھتی ہے اور آسمان کے دروازے اس پر بند کردیے جاتے ہیں پھر وہ زمین کی جانب اترتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں پھر دائیں بائیں جگہ پکڑتی ہے جب کہیں کوئی داخلے کی جگہ نہیں ملتی تو جس پر لعنت کی گئی ہے اس کی طرف جاتی ہے اگر وہ اس لعنت کا حق دار ہو ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد) آپؐ نے عورتوں کے بڑی تعداد میں جہنم میں جانے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ وہ کثرت سے لعنت کرتی ہیں۔

عیب جوئی کرنا: عیب جوئی کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے عیب بیان کرنا، ان کی خامیوں کو بیان کرنا، نقص نکالنا، نکتہ چینی کرنا، بلاجواز تنقید کرنا یا یا زبردستی ان میں کوئی مفروضہ کمی کو بیان کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ چوں کہ عیب جوئی کا منطقی نتیجہ ایذا رسانی ہے، جس کی قرآن میں ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے، مفہوم: ’’بے شک! جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذاب جہنّم ہے اور ان کے لیے آگ میں جلنے کا عذاب ہے۔‘‘ (البروج)

رسول اکرمؐ کے فرمان کا مفہوم: ’’مسلمان کو اذیت نہ دو، انہیں عار نہ دلاؤ، اور ان میں عیوب مت تلاش کرو، کیوں کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا اور جس کی عیب گیری اﷲ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (جامع ترمذی)

الزام تراشی کرنا: اس کا مطلب تہمت، بہتان، اتہام یا کسی کو قصور وار ٹھہرانا ہے۔ یہاں الزام سے مراد کسی پر جھوٹا الزام لگانا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ بہتان ایک کبیرہ گناہ ہے۔ خاص طور پر اگر یہ تہمت پاک دامن عورتوں پر لگائی جائی تو لائق تعزیر ہے اور ایسے شخص کو اسّی کوڑوں کی سزا ہے اور ساتھ ہی ان کی گواہی آئندہ کے لیے ناقابل قبول ہے۔

الزام لگانے کی اس کے علاوہ بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ جیسے کسی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگانا، رشوت خوری کی تہمت دھرنا، کفر کے فتوے لگانا وغیرہ۔ الزام تراشی بھی بَدگوئی کی ایک قسم ہے جس سے اجتناب لازم ہے۔ الزام لگانے کی ایک صورت یہ ہے کہ لگایا گیا الزام درست ہو۔ اس صورت میں اگر نیّت اصلاح کی ہے تو یہ بَدگوئی نہیں۔ اگر نیّت تحقیر و ایذا رسانی کی ہے تو یہ بَدگوئی ہے۔ یوں بھی کسی کے منہ پر اس کی خامی کو بہت حکمت سے بیان کرنا چاہیے ورنہ فساد کا اندیشہ ہوتا ہے۔

مختلف طبقات میں بدگوئی کی نوعیت: یوں تو بدگوئی ایک

مفسدہ ہے لیکن اس کے نتیجے میں انسان کی ہر دل آزاری کی گئی ہے۔ آج کل یہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ہی دکھائی دیتا ہے، خاص طور پر خواتین میں یہ عیب بڑھتا جا رہا ہے۔ مدارس کے طلباء اور اساتذہ میں بھی یہ بات عام ہے کہ کسی دوسرے گروہ کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس کے طرز زندگی، اس کے عقائد، اس کے طریق کار وغیرہ سب ناپسندیدہ ہیں، جو کہ اساتذہ کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔ مہذّب لوگوں کے لیے تو یہ مہلک مرض ہے۔ یہ نہایت ناپسندیدہ بات ہے کہ ایک شخص دوسرے کی خامیوں کا ذکر کرے یا اس کے خلاف زبان درازی کرے۔ اس کا انجام یہی ہوگا کہ مومن کے گناہ اس پر منتقل ہو جائیں گے۔

نتیجہ: خلاصہ یہ ہے کہ بدگوئی نہ صرف ایک روحانی مرض ہے بلکہ یہ معاشرتی زندگی میں بھی تباہ کن اثرات چھوڑتی ہے۔ اس سے معاشرہ بدظن ہوتا ہے اور روابط ٹوٹتے ہیں۔ بدگوئی سے بچنے کے لئے ہر انسان کو اپنی زبان اور خیالات کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور ان کو دوسروں کی عزت و احترام کے حوالے سے درست سمت میں استعمال کرنا چاہیے۔