سیاستمضامین

میں نکاح کرنا چاہتا ہوں گناہ نہیں

بچوں کو ان کی روزمرہ میں دین اسلام جب تک نہ سماجائے اس وقت تک انہیں خدائے تعالیٰ کے احکام، نبی کریمﷺ کی سنت اور مشورہ کرنے کی حکمت سمجھ میں نہیں آئے گی۔ روزانہ کی زندگی میں چوبیس گھنٹے کے دوران خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی جب تک تربیت نہیں کی جائے گی تب تک 24 سال کی عمر میں والدین کی جانب سے پسند کیے جانے والے رشتوں کو اپنے حق میں بہتر مان کر تسلیم کرنے کا جذبہ بھی پیدا نہیں ہوگا۔

محمد مصطفی علی سروری

میری عمر 25 سال کی تھی جب میں سعودی عرب سے اپنے آبائی مقام یعنی شہر حیدرآباد آیا تھا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ سعودی عرب میں ہی پلا اور بڑھا ہوں جب سال 2007ء کی چھٹیوں میں میں حیدرآباد آیا تھا تو اس وقت شادی کی ایک دعوت میں میری ملاقات فہمیدہ بیگم سے ہوئی تھی۔ ہم نے ایک دوسرے سے بات کی اور پھر آن لائن ہمارے درمیان رابطہ رہا۔ لڑکی حیدرآباد کی ہی رہنے والی تھی۔ میں نے سعودی عرب میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ ہر مسلمان اپنی پسند سے شادی کرسکتا ہے۔ تو میں نے بھی فہمیدہ بیگم سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار اپنے والدین سے کردیا۔
لیکن میرے والدین نے صاف طور پر منع کردیا کہ پہلے تو وہ میری شادی اتنی جلد نہیں کرنا چاہتے ہیں دوسرے شادی میری پسند سے نہیں بلکہ وہ اپنی پسند سے کریں گے۔ میں نے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جدہ میں ہی جاب تلاش کرلی۔ دوسری جانب میرے والدین میری بہنوں کو لے کر واپس انڈیا آگئے حالانکہ میری بہنیں مجھ سے چھوٹی تھیں لیکن والدین کا اصرار تھا کہ گھر میں پہلے تو شادی چھوٹی بہنوں کی ہوگی۔ اس کے بعد ہی میرا نمبر آئے گا۔
میرے دل میں بہت سی خواہشات تھیں لیکن میں ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رہنا چاہتا تھا۔ دوسری طرف میرے والدین میری شادی کو مسلسل ٹال رہے تھے۔
دو برس گذر گئے ان دو برسوں کے دوران الحمد للہ میری دو بہنوں کی شادیاں ہوگئیں۔ والد صاحب کہتے تھے کہ میری چھوٹی بہن کی بھی شادی ہوجائے۔ اس کے بعد ہی میری شادی ہوگی لیکن تیسرے برس میں نے بہت اصرار کیا۔ ضد کی تب کہیں جاکر میری شادی فہمیدہ سے کرنے پر وہ لوگ تیار ہوئے۔ مگر میرے والدین نے شادی سے پہلے فہمیدہ کے والد یعنی میرے خسر سے باضابطہ بانڈ پیپر لکھوایا۔
اس بانڈ پیپر پر کیا لکھا تھا وہ بھی جان لیجئے کہ مہر صرف دو ہزار ایکسو روپئے ہوگا۔ (حالانکہ میری تنخواہ آٹھ ہزار ریال تھی)فہمیدہ ساس، سسر کی ہمیشہ عزت کرے گی اور نندوں کا احترام کرے گی۔ کبھی کسی کو تکلیف نہیں دے گی۔
اس کے علاوہ بانڈ پیپر پر یہ عہد بھی لکھایا گیا کہ فہمیدہ کے والدین مجھ سے ایک روپئے کی بھی مدد نہیں مانگیں گے اور فہمیدہ کے والدین کبھی بھی اپنے داماد یعنی مجھے اپنے گھر نہیں بلائیں گے ۔ ہاں فہمیدہ اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے جاسکتی ہے۔ اس کے والد فون کر کے آسکتے ہیں اور باہر کا باہر اپنی بچی کو ایک دن کے لیے لے کر جاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے گھر میں نہ تو فہمیدہ کے والدین آسکتے ہیں اور نہ کوئی دوسرا رشتہ دار آسکتا ہے۔
اس بانڈ پیپر کی شرائط کے ساتھ نکاح ہوا اور پھر سات سال تک بانڈ پیپر کی باتوں پر عمل آوری ہوتی رہی۔ ایک مرتبہ ایسے ہوا کہ میرے والد صاحب نے مجھے یہ کہہ کر گھر سے بے دخل کردیا کہ میں اور میری بیوی بانڈ پیپر کی شرائط کو توڑنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس لیے اب میرے والدین اور ان کی جائیداد سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔
قارئین کرام مندرجہ بالا واقعہ جب مجھے سنایا گیا تو واقعہ میں ناموں کو مخفی رکھنے کی گذارش کی گئی تھی اس لیے میں نے لڑکے کے نام کو مخفی رکھا اور لڑکی کے لیے فرضی نام استعمال کیا گیا ہے۔
کیا لڑکا لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرسکتے ہیں جب کہ وہ دونوں بالغ ہیں۔ دارالافتاء دیوبند ڈاٹ کام پر سوال نمبر (30495) کے جواب فتویٰ (م) 3/142 – 385 = 385 دیا گیا کہ ’’جو شادی والدین کی اجازت و رضا مندی کے بغیر کی جاتی ہے عموماً اس میں خیر و برکت اور پائیداری نہیں ہوتی۔ لڑکا لڑکی اگرچہ بالغ ہونے کے بعد خود مختار ہوجاتے ہیں۔ باپ دادا کی وکالت اجبار ختم ہوجاتی ہے اور وہ اپنی مرضی سے شادی کرسکتے ہیں۔ لیکن اولاد کو اخلاقی طور پر چاہیے کہ والدین کی مرضی کو اپنی مرضی بنائیں۔ ان کو ناراض کر کے کوئی قدم نہ اٹھائے۔ باپ کو بھی کو چاہیے کہ جب اولاد بالغ ہوجائے اور مناسب رشتہ مل جائے تو نکاح میں تاخیر نہ کرے۔ ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا وبال باپ کو بھی ہوگا۔ دنیاوی رسم و رواج کی تقلید میں تاخیر کرنا درست نہیں…‘‘
قارئین ذرا غور کریں شریعت نے جہاں مسلم بالغ لڑکے لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے وہیں والدین کو بھی ذمہ دار بنایا ہے کہ نکاح میں تاخیر نہ کرو۔ اگر اولاد گناہ میں مبتلا ہو تو وبال سرپرست کو بھی ہوگا۔
آیئے ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے
سید عبدالجبار نے اپنے بڑے لڑکے کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی۔ انہوں نے تو اگرچہ مناسب تعلیم حاصل نہیں کی لیکن خود کاروبار کر کے اپنے بچے کو پوسٹ گریجویشن کی تعلیم دلوائی اور عبدالجبار صاحب کا لڑکا بیرون ملک جاکر اچھی ملازمت حاصل کرلیا۔
ماشاء اللہ جبار صاحب نے اپنے لڑکے کے لیے جب شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو بہت ساری تلاش کے بعد ایک اچھے گھرانے کی لڑکی سے شادی طئے کروادی۔لڑکے نے اندرون ایک سال اپنی بیوی کو باہر بلا لینے کا منصوبہ بنایا۔ دھوم دھام سے لڑکے کی شادی ہوئی۔ شادی ہی نہیں بلکہ گھر کی عورتوں کے اصرار پر شادی سے پہلے اور بعد کی بہت ساری رسومات بھی منعقد کی گئیں اور شادی کے تین مہینے بعد لڑکا واپس بیرون ملک چلا گیا۔ وعدہ تھا کہ ایک سال بلکہ اس سے پہلے ہی بیوی کو باہر بلا لے گا۔
ادھر جبار صاحب کا لڑکا باہر گیا ادھر ان کی بہو کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ خود جبار صاحب نے بہو کو اس کے گھر بھجوادیا کہ شوہر کے جانے کا غم ہے۔ ماں باپ کے پاس جانے سے غم دور ہوجائے گا۔
اب اکثر جبار صاحب کی بہو اپنے مائیکے جاتی اور جب بھی سسرال آتی تو اس کی طبیعت خراب ہوجاتی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔
ایک مرتبہ ان کی بہو نے اپنے مائیکے میں کسی عزیز کی شادی کی اطلاع دی اور تیار ہوکر شادی میں جانے کے لیے نکلی۔ رات میں جب پتہ چلا کہ جبار صاحب کی بہو دعوت میں نہیں پہنچی تو ان کے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ سمدھی کے گھر گئے تو وہاں سب موجود تھے اور سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ بلکہ چند لوگوں نے خود جبار صاحب پر الزام لگانے کی کوشش کی کہ انہوں نے اپنی بہو کو اتنا ستایا کہ وہ گھر چھوڑ کر فرار ہوگئی۔ لیکن جلد ہی بہو کے والد نے اپنی غلطی مان لی۔
اب تفصیلات کا پتہ چلا کہ پورے آٹھ دن بعد۔ کیونکہ جبار صاحب کو بہو کے والد نے پہلے تو پولیس اسٹیشن میں بھی شکایت کرنے سے منع کردیا کہ گھر کا معاملہ ہے۔ عزت بدنام ہوگی۔ گھر میں اور بھی بچیاں ہیں۔
لیکن بعد میں پتہ چلا کہ جبار صاحب کی بہو اپنے والدین کی پسند کی شادی کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔ وہ اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن لڑکا سیلس مین تھا اور لڑکی گریجویٹ تو لڑکی کے والد نے رشتے سے منع کردیا تھا۔
پتہ یہ چلا کہ جبار صاحب کی بہو اپنے اسی شناسا لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی اور 10 دن بعد ایک وکیل سے خلع لینے کی نوٹس بھی موصول ہوئی۔ لڑکی کے والد کی طبیعت خرا ب ہونے پر انہیں شریک دواخانہ کروادیا گیا اور جبار صاحب نے اپنے لڑکے سے خلع کے کاغذات پر دستخط کرواکر لڑکی کے وکیل تک پہنچادیئے۔
جبار صاحب کی شکایت ہے کہ ان کے سمدھی بھی کو اپنی بچی کی شادی کرتے وقت ہی اس حوالے سے سونچ لینا چاہیے تھا۔
اب جبار صاحب کا لڑکا کہہ رہا ہے کہ مجھے فوری طور پر دوسری شادی نہیں کرنی ہے۔ (نوٹ اس واقعہ میں نام فرضی استعمال کیا گیا ہے)
قارئین مسلمانوں میں صرف شادیوں کا نہ ہونا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ شادی ہونے کے بعد علیحدگی ہونے کے واقعات اور خود شادی کرنے کے لیے کئی ایک مسائل بہت ہی سنگین شکل میں موجود ہیں۔ مگر ہم اس حوالے سے بات بالکل بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ جیساکہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ سچ ہے جب کسی مسئلہ کو تسلیم کیا جاتا ہے تب ہی اس کے حل کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں یا اس ضمن میں کوشش کی جاتی ہے۔ مسلم نوجوان اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتا ہے تو والدین اس کے لیے مہر کی رقم دو ہزار ایک سو رکھ کر لڑکی پر کیا جتلانا چاہتے ہیں؟
شادی کے بعد لڑکی کے گھر والوں سے تعلقات پر، آنے جانے پر پابندی لگاکر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
لڑکی اپنی پسند کا اظہار کرتی ہے تو کہ میں فلاں لڑکے کو چاہتی ہوں او راس سے شادی کرنا چاہتی ہوں تو اس کی چاہت کو برا مان کر زبردستی اور دبائو میں اس کی دوسری جگہ شادی کروادی جاتی ہے اور پھر موقع ملتے ہی لڑکی اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر کے اپنے شناسا نوجوان سے شادی کے لیے گھر سے بھاگ رہی ہے۔ اس ساری صورت حال پر کوئی تبصرہ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم مسلمان تسلیم کریں کہ شریعت نے نکاح کے لیے کیا پیمانے مقرر کر رکھے ہیں۔ شریعت نے اگر اجازت دی ہے کہ نکاح کے سلسلے میں لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے کو پسند کرنے کا اختیار ہے تو اس کو چھین لینا کہاں تک صحیح ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا لڑکا لڑکی خود جب ایک دوسرے کو نکاح کے لیے پسند کریں گے تو کیا یہ شادیاں دیر پا اور ان کے مستقبل کے لیے بہتر ہوں گی تو یہ بات سمجھانی ہوگی کہ بچوں کو اگر وہ اپنے والدین اور سرپرستوں کے مشوروں کو تسلیم کرتے ہیں تو خدائے تعالیٰ اس میں کتنی برکت عطا کرتا ہے۔
اور لاکھ تجزیوں، مشوروں کی ایک ہی بات ہے وہ یہ کہ جب تک ہم مسلمان اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کا سامان فراہم نہیں کریں گے ان سے کچھ بھی توقع رکھنا فضول ہے۔
بچوں کو ان کی روزمرہ میں دین اسلام جب تک نہ سماجائے اس وقت تک انہیں خدائے تعالیٰ کے احکام، نبی کریمﷺ کی سنت اور مشورہ کرنے کی حکمت سمجھ میں نہیں آئے گی۔ روزانہ کی زندگی میں چوبیس گھنٹے کے دوران خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی جب تک تربیت نہیں کی جائے گی تب تک 24 سال کی عمر میں والدین کی جانب سے پسند کیے جانے والے رشتوں کو اپنے حق میں بہتر مان کر تسلیم کرنے کا جذبہ بھی پیدا نہیں ہوگا۔
آر ایس ایس اور مسلم دشمن جماعتوں سے لڑائی تو لڑنے کے لیے سبھی کو فکر ہے لیکن خود اپنی صفوں میں پھیلی سماجی بے چینی اور دین اسلام کو من چاہے انداز عمل کرنے جیسی سنگین غلطیوں کا احساس کون دلائے گا۔
محفل نکاح کو اللہ کے گھر میں سر انجام دینے سے ہماری زندگیوں میں برکت آئے گی یا ہماری زندگیوں کو جب ہم اللہ اور اس کے رسول کی سنت کے مطابق ڈھالیں گے اس وقت کامیابی ہمارا مقدر بنے گی۔ ذرا غور کیجئے گا۔
جتنا اہم کام مساجد میں نکاح کرنا ہے اتنا ہی اہم کام مساجد کے باہر کے معاملوں میں بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو مساجد کے باہر اپنی زندگیوں کے ہر عمل میں اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کی پاسداری کرنے والا بنادے۔ (آمین۔ یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)- sarwari829@yahoo.com
۰۰۰٭٭٭۰۰۰