ناقص الخلقت بچہ کا اسقاط
اگر حمل پر ایک سو بیس دن نہیں گذرے ہوں تو عذر کی بناپر اسقاط کی گنجائش ہے ، اور جو صورت آپ نے لکھی ہے ، اس میں زیر حمل بچہ کے حق میں بھی عذر ہے کہ جب دماغ ہی مکمل نہ ہوگا تو وہ پیدا ہونے کے بعد ہر طرح معذور ہوگا۔

سوال:- میری اہلیہ کو حمل ہے ، ابھی حمل پر تین ماہ گذرا ہے ، ڈاکٹروں کا بیان ہے کہ اس کا دماغ نہیں بن پارہا ہے اور ناقص ہے ،
اگر یہ بچہ اپنے وقت پر پیدا ہوتو بالکل معذور ہوگا اور کچھ دنوں میں ہی اس کی موت ہوجائے گی ، کیا ایسی صورت میں حمل ساقط کردینا جائز ہوگا ؟ (محمد سکندر، بیگم پیٹ)
جواب :- بلا عذر تو حمل کا ساقط کردینا کسی بھی حال میں جائز نہیں ، چاہے ایک ہی ماہ کا حمل ہو :
’’ قال ابن وھبان : فإباحۃ الإسقاط محمولۃ علی حالۃ العذر ، أو أنھا لا تأثم إثم القتل ‘‘ (ردالمحتار : ۳؍۱۷۶)
اور جب حمل پر ایک سو بیس دن گذر جائے تو پھر کسی بھی صورت میں حمل کا اسقاط جائز نہیں ہوگا :
’’ نعم ، یباح مالم یتخلق منہ شییٔ ولم یکن ذلک إلا بعد مائۃ وعشرین یوما‘‘ ( النہر الفائق : ۲؍۲۷۷)
کیوںکہ چار ماہ میں روح پھونک دی جاتی ہے ؛ اس لئے اگر حمل پر چار ماہ گذر گئے ہوں تو چاہے بچہ ناقص الخلقت ہو ، اس کا اسقاط جائز نہیں ؛
البتہ اگر حمل پر ایک سو بیس دن نہیں گذرے ہوں تو عذر کی بناپر اسقاط کی گنجائش ہے ، اور جو صورت آپ نے لکھی ہے ، اس میں زیر حمل بچہ کے حق میں بھی عذر ہے کہ جب دماغ ہی مکمل نہ ہوگا تو وہ پیدا ہونے کے بعد ہر طرح معذور ہوگا ،
اور ماں باپ کے حق میں بھی عذر ہے کہ ایسے بچہ کی پرورش بے حد دشوار ہوگی ؛ اس لئے جو صورت آپ نے لکھی ہے ، اس میں اسقاط کی گنجائش ہے ،
آپ کو جلد فیصلہ کرلینا چاہئے ، کسی اورمعتبر مسلمان ڈاکٹر سے مشورہ بھی کرنا چاہئے ، اگر چار ماہ گذر گئے تو پھر اسقاط کی اجازت نہیں ہوگی ؛ اگرچہ بچہ ناقص الخلقت ہو ۔