سیاستمضامین

نوٹری دستاویزات کی اساس پر گفٹ رجسٹری اور غیر مجاز تعمیرات کی رجسٹری پر مکمل امتناع ہےشہر میں اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل اراضیات پر مکانات کی رجسٹری پر بھی امتناع عائد کیا جائے گا

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ گورنمنٹ آرڈر84 کو ریاستی ہائیکورٹ نے کالعدم قراردیا۔
٭ قبل ازیں اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل اراضیات پر قبضہ کو باقاعدہ بنانیوالے گورنمنٹ آرڈر کا بھی یہی انجام ہوا۔
٭ فیصلہ کے دور رس اثرات۔ ایسی اراضیات کو حکومت گورنمنٹ اراضیات میں شامل کرسکتی ہے۔
٭ جائیدادوں کی فروخت میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
حیدرآباد کے شہری حدود میں واقع اربن لینڈ سیلنگ میں قرارشدہ اراضیات کا رقبہ زائد از ڈھائی ہزار ایکر ہے۔ یہ وہ اراضیات ہیں جو 1976ء اور 1981ء کے درمیانی وقفہ میں فاضل قراردی گئی تھیں اور حکومتی اراضی قراردی گئی تھیں۔ تاہم ان اراضیات کی فروخت ہوئی اور ان پر مکانات تعمیر کرلئے گئے اور بعد ازاں ان کی رجسٹری بھی ہونے لگی۔ لیکن2002ء میں اس وقت کی حکومتِ آندھرا پردیش نے ایک گورنمنٹ آرڈر 455 جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ایسی مقبوضہ اراضیات پر قیمت حاصل کرکے قبضہ کو باقاعدہ بنادیاجائے گا لیکن اس آرڈر پر کم توجہ دی گئی پھر بھی ہزاروں افراد نے رقومات جمع کرواکر فاضل اراضیات پر اپنے قبضہ کو باقاعدہ بنالیا تھا ۔ لیکن پھر بھی زائد از80 فیصد فاضل اراضیات پر قابض افراد نے ایسی کوئی درخواست پیش نہیں کی۔
لیکن دو سال قبل گورنمنٹ نے ایک نیا گورنمنٹ آرڈر جاری کیا جس کے تحت قبضہ کی اساس پر قیمت مقرر کی گئی جو 25تا صد فیصد تھی اور وہ بھی آج اس تاریخ کی مقررکردہ قیمت کے مطابق ۔
ہائیکورٹ کی مداخلت کے بعد اب اس اسکیم میں کوئی اثر نہیں رہ سکا اور ساری کی ساری اراضیات سرکار کی ملکیت رہیں۔
گورنمنٹ آرڈر کے مطابق اگر فاضل قرارشدہ اراضیات پر قابض افراد نے گورنمنٹ آرڈر کے مطابق درخواست اور رقومات داخل نہیں کی تو ان کی جائیدادوں ‘ مکانات ‘ اپارٹمنٹس کی رجسٹری پر دفعہ22-A رجسٹریشن ایکٹ کے مطابق امتناع عائد کردیاجائے گا یعنی ان کی جائیدادوں کی رجسٹری نہیں ہوسکے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو جائیدادیں اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قراردی گئی ہیں ان کی حقیقی مالک حکومت ہے یا دوسرے معنوں میں قابض صرف قابض ہے‘ حقیقی مالک نہیں۔
ایسے گورنمنٹ آرڈر جاری کرنے سے قبل حکومت ایک قانونی حقیقت کو فراموش کئے ہوئے تھی کہ اربن لینڈ سیلنگ قانون 1999ء میں منسوخ ہوچکا ہے کیوں کہ یہ قانون اپنے مقاصد کی تکمیل میں ناکام رہا۔1976ء میں یہ قانون منظور ہوا تھا جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ شہری حدود میں کوئی بھی شخص اپنے قبضہ میں ایک ہزار مربع میٹر سے زائد حد کی اراضی نہیں رکھ سکتا اور مابقی تمام اراضی کو فاضل اراضی قراردے کر بے زمین لوگوں میں تقسیم کردینا تھا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور ایک انچ اراضی بھی کسی بے زمین شخص کو نہیں دی گئی۔ خیر یہ قانون منسوخ ہوگیا ۔ لیکن حکومتِ آندھرا پردیش نے1999ء میں منسوخ قانون کو2008ء میں اپنایا یعنی(ADOPT) کیا اور وہ تاریخ27؍مارچ 2008ء تھی ۔ اس کے بعد بھی حکومت فاضل قرارشدہ اراضی کو اپنی اراضی سمجھتی رہی اور قابض افراد لاکھوں روپے ادا کرکے اپنے نام پر اراضیات اور ان پر تعمیر مکانات کو باقاعدہ بناتے رہے۔
1976ء اور1981ء کے درمیان ریوینیو اور اربن لینڈ سیلنگ ڈپارٹمنٹ نے فرضی پنچنامہ آفس میں بیٹھ کر تیار کئے اور ہر سروے نمبر میں زیادہ سے زیادہ اراضی یعنی ایک ہزار مربع میٹر کو چھوڑ کر فاضل قراردیدیا اور مالکینِ اراضی یا قابضین اس غلط فہمی میں رہے کہ ہم ہی مالک ہیں۔
لیکن2012ء میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ نے اس معاملہ کو الٹ دیا۔ سپریم کورٹ نے27مارچ 2008ء کو (Cut-Off Date) مقرر کیا جس دن ریاستی حکومت نے اس قانون کو منسوخ کردیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق 27-03-2008 کی تاریخ پر اگر کسی شخص یا حکومت کا فاضل اراضی پر مسلمہ قبضہ ہو تو وہی مالک قراردیاجائے گا یعنی (Actual And Physical Possession)
اگر کوئی فرد ایسی فاضل اراضی پر 27مارچ 2008ء یا اس سے پہلے کی کسی تاریخ سے مستقل طور پر قابض ہو اور اس کے پاس اس بات کا دستاویزی ثبوت ہو تو وہی اس اراضی کا مالک قراردیاجائے گا اور حکومت کو اس اراضی سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ دوسری جانب اگر حکومت ایسی اراضی پر قابض ہو اور اس اراضی پر کسی دوسرے شخص کا قبضہ نہ ہو تو حکومت اس اراضی کی مالک قراردی جائے گی۔
قابضین اراضی کو یاد ہوگا کہ حکومت نے ایسی اراضیات حتی کہ مکانات کے سامنے تک سائن بورڈ آویزاں کردیئے تھے کہ یہ اراضی حکومتی ملکیت ہے اور مداخلت کاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ایسی اراضیات پر تعمیری منظوری نہیں دی جارہی ہے۔ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ فاضل اراضیات پر تعمیر مکانات کی رجسٹری نہیں ہورہی ہے۔ لیکن حکومت کا یہ اقدام غیر قانونی ہے۔ حکومت ایسی اراضیات کو جو اس کی ملکیت نہیں رہی اور اس کا حقیقی مالک اس پر قابض ہے تو سپریم کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی میں کس طرح ممنوعہ یعنی (Prohibited) قراردے سکتی ہے۔ ایسا اقدام یقینی طور پر غیر قانونی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں ایسی فاضل اراضیات کو ممنوعہ لسٹ سے خارج کرنے رجسٹری کرنے کے احکامات ریاستی ہائیکورٹ سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
اگر مالکینِ فاضل قرارشدہ اراضیات کو رجسٹری میں مشکلات کا سامنا پیش آرہا ہے اور ان کی اراضی کو ممنوعہ لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہو تو ہائیکورٹ سے احکامات حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ کسی بھی فکر و تردد کی ضرورت نہیں۔
زبانی ہبہ میمورنڈم ۔ ایک سوال
سوال:- السلام علیکم ۔ میری عمر78 سال ہوگئی ہے۔ وظیفہ پر ملازمت سے علاحدہ ہوا۔ دورانِ ملازمت ہی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی ۔ بیٹی کی شادی ہوگئی لیکن داماد بہت لالچی اور ظالم انسان ہے‘ اس کے دو بیٹے ہیں۔ دونوں بیٹے بزنس کرتے ہیں اور بہت خوشحال ہیں لیکن بہن کے لئے ان کے دل میں نہ تو محبت ہے اورنہ انصاف ہے۔ میں اپنا وظیفہ جو فی الوقت ایک لاکھ روپیہ کے قریب ہے‘ خود پر اور اپنی بیٹی پر صرف کرتا ہوں۔ ملازمت سے علاحدگی سے دو سال پہلے بیوی داغ مفارقت دے گئی ۔ اس کی یاد کی خوشبوؤں کے سہارے زندہ ہوں۔ اس کے بعد میں نے دوسری شادی نہیں کی۔ دورانِ ملازمت جو کچھ بھی کمائی ہوئی اور والد صاحب سے ورثہ میں جو گھر ملا‘ اسے فروخت کرکے پانچ سو مربع گز اراضی خریدی اور اس پر اجازت حاصل کرکے G+1 بلڈنگ تعمیر کی۔ بہت اچھا کرایہ آرہا ہے جو دونوں بیٹوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دو سو مربع گز کا ایک مکان ہے جس کا کرایہ بیٹی کو دیدیتا ہوں۔ میرے وظیفہ کی بڑی رقم اور کرایہ کی رقم پر بیٹی کے شوہر یعنی داماد کی بری نظر رہتی ہے اور وہ اسے تنگ کرتا رہتا ہے کہ وہ مجھ سے جائیداد میں حصہ طلب کرے۔ دونوں بیٹے یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ دونوں مکانوں کے وہ ہی مالک ہیں اور میرے بعد وہ ہی اس کے مالک ہوں گے۔ دونوں بھائی بہن کو کچھ بھی دینا نہیں چاہتے اور ان کو میرے گھر آنے پر بھی اعتراض ہے جبکہ وہ دونوں بھائیوں کے لئے دعائیں کرتی رہتی ہے۔ دونوں بیٹے اپنی بیویوں کے غلام ہیں اوران کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ بیٹوں پر سسرال کا بہت گہرا اثر ہے۔ کسی بھی بات میں میری کوئی رائے نہیں لیتے اور جو بھی بیوی اور سسر صاحب کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ تجارت میں بہت مالدار ہوگئے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروباری ہیں۔
بیٹوں کا اصرار بڑھنے لگا کہ میں دونوں مکانوں کو ان کے نام پر گفٹ رجسٹری کردوں اور رجسٹری کے اخراجات بھی خود ہی برداشت کروں۔ ساری زندگی میں نے بیٹوں کے پیسوں سے ایک پیالی چائے نہیں پی۔ وہ لوگ میری ضرورت کو پوچھتے نہیں۔ انہیں یہ احساس ستارہا ہے کہ اگر میں دنیا سے چلاجاؤں تو کہیں ان کی بہن تقسیم ترکہ کا دعویٰ نہ کردے۔ ایک دن مجھے مجبوراً رجسٹریشن آفس لے گئے اور رجسٹریشن فیس دریافت کئے تو پتہ چلا کہ اٹھارہ لاکھ روپیہ رقم ادا کرنا پڑے گا۔ اتنی بڑی رقم کا ادا کرنا میرے بس میں نہیں۔ میری خواہش ہے کہ چھوٹا مکان بیٹی کے نام گفٹ رجسٹری کردوں اور بڑے مکان کی رجسٹری دونوں بیٹوں کے نام پر ہو اور اس کے اخراجات وہ برداشت کریں لیکن وہ اس پر راضی نہیں۔ کہتے ہیں آپ کا اتنا بڑا پنشن ہے وہ کس دن کام آئے گا۔
میں آپ کے کالم کا مسلسل مطالعہ کرتا آیا ہوں۔ شائد زائد از پچیس سال سے ۔ آپ کے کالم میں بار بار پڑھا کہ اگر زبانی ہبہ میمورنڈم کے ذریعہ جائیداد دی جائے اور قبضہ دیدیا جائے تو رجسٹریشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس ضمن میں آپ کی رائے کی اشاعت درکار ہے۔ براہِ کرم میرے نام کی اشاعت نہ کریں۔ اسی طریقہ سے میں دوسرا مکان بیٹی کے نام کردینا چاہتا ہوں۔ خدا حافظ۔
X-Y-Z ۔ حیدرآباد
جواب:- آپ کو یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو اپنے بیٹوں کے دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی نیت غاصبانہ ہے اور وہ اپنی بہن کو محروم کردینا چاہتے ہیں۔ آپ اطمینان سے زندگی گزاریئے ۔ کچھ بھی کرنے کی اور کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔ گو کہ ہبہ کے ذریعہ آپ کی جائیداد بیٹوں کو دی جاسکتی ہے لیکن اس بات کا امکان ہے کہ وہ کہیں آپ کو ہی گھر سے بے دخل نہ کردیں۔
اپنا وظیفہ کھاتے رہیئے ۔ بیٹی کی ضروریات پوری کرتی رہیئے ۔
آپ کے دونوں بیٹے نالائق اور نافرمان ہیں۔ آپ اعلان کردیجئے کہ اپنا بڑا مکان یتیموں اور بیواؤں کی فلاح و بہبود اور دینی تعلیمی کاموں کے لئے وقف کردوں گا اور اس طرح آخرت میں ثواب پاؤں گا پھر اس کے بعد دیکھئے آپ کے بیٹے کس قدر فرماں بردار بن جاتے ہیں۔ کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔
سسرال یا لڑکی کیلئے قید خانہ
جواب:- آپ کے سوال کی اشاعت نہیں کی جاسکتی کیوں کہ اس میں بعض باتیں ناقابل اشاعت ہیں۔ افسوس کہ لوگ اس قدر بھی گرسکتے ہیں۔ آپ کی بیٹی دراصل اپنے سسرال میں ایک قیدی کی حیثیت سے زندگی گزاررہی ہے ۔ ایسی صورت کو قیدِ بامشقت کہتے ہیں۔ آپ نے لاکھوں روپیہ خرچ کرکے اپنی بیٹی کی شادی کی ۔ سسرال میں اس پر ظلم ہورہا ہے۔ شوہر باہر ملک میں رہتا ہے اور اس سے بات تک نہیں کرتا۔ وہ ہر راز ساس اور نندوں کی گندی گندی باتیں سنتی ہے ۔ ان کے گھر میں تہذیب نام کی کوئی چیز نہیں ۔ وہ لوگ نیلور ضلع کے رہنے والے ہیں۔ لوگ بدزبان ہیں۔ سونے کے لئے اپنی جان تک دیدیں۔ لڑکی صبح سے شام تک خادماؤں کی طرح کام کرتی ہے۔ آپ نے اس کی شادی صرف اس لئے کی کہ لڑکے کی تعلیم ایم۔ٹیک ہے اور وہ ایک سافٹ ویر انجینئر ہے اور تنخواہ لاکھوں میں ہے ۔ وہ لوگ صرف سونا خریدتے ہیں۔ گھر میں کھانے کا تک سلیقہ نہیں۔ موٹی موٹی بھدی گالیاں دیتے ہیں۔ عورتیں کچھ ایسی ہیں کہ مرد بھی ان سے پناہ مانگیں۔ آپ اب تک اس امید پر تھے کہ کبھی نہ کبھی حالات درست ہوجائیں گے۔ ہماری رائے میں حالات کبھی اچھے نہیںہوسکتے۔ فوری طور پر گھر جاکر بیٹی کو گھر واپس لائیے پھر ان ظالموں کے خلاف تمام قوانین مثلاً125, DVC, 498-A کی کارروائی کیجئے ۔ ظلم سہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ حیدرآبادی مروت کی یہ انوکھی مثال ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w