ڈاکٹر شجاعت علی صوفی
رحمت ‘مغفرت ‘دوزخ سے چھٹکارہ دلانے والا اور عذاب الٰہی سے بچانے والا مقدس ماہ رمضان ہم سے وداعی لے چکا ہے‘ اس مہینے کے دوران جو عبادتیں ہم نے کیں ‘جس ایثار اور قربانی کا ہم نے مظاہرہ کیا، جس تذکیہ نفس کو ہم نے اپنے سینے سے لگائے رکھا اگر ہم اسی جذبہ کو اگلے رمضان تک قائم رکھیں تو دعویٰ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا گہوارئہ جنت بن جائے گی ۔ غربت ، افلاس، تنگدستی، غصہ ، کینہ کپٹ، جلن، حسد اور اس طرح کی بے شمار بیماریاں ماضی کا حصہ بن جائینگی۔ رمضان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آقائے دو جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ انسان کے ہر عمل کا بدلہ ہے ، مگر روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں اور روزہ بلاشبہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو نہ تو شور مچائے اور نہ فحش باتیں کریں اور کوئی شخص اس سے جھگڑا کرے یہ گالی گلوچ کریں تو کہہ دیں کہ میں روزہ دار آدمی ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے) اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے یہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ بہتر ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ، جب وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزہ کے سبب سے بہت خوش ہوگا‘‘۔ (صحیح بخاری)۔ یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ ایک بارحضور پاک ؐ نے تین مرتبہ آمین فرمایا ۔ یعنی منبر شریف سے ایک ایک زینہ پر آپ بلند ہوتے رہے اور آمین فرماتے رہے ۔ بعد میں صحابہ ؓ نے معروضہ کیا حضور ؐ آج ہم نے غیر معمولی چیز دیکھی اس کی حکمت ہماری سمجھ میں نہیں آئی، تو آپ ؐنے ارشاد فرمایا۔ میرے پاس جبرئیل ؑ آئے اور کہا کہ وہ شخص ہلاک ہو جو ضعیف ماں باپ کو پائے اور اپنے لئے جنت کا سامان نہ کرے اس پر میں نے آمین کہا۔ دوسری بار جبرئیل ؑ نے یہ بات کہی کہ وہ شخص ہلاک ہو جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے، اس پر بھی میں نے آمین کہا۔ تیسری بار جبرئیل ؑ نے یہ دعا کی کہ وہ شخص ہلاک ہو جو رمضان جیسا مہینہ پائے اور اپنے لئے مغفرت کا سامان نہ کرلے اس پر بھی میں نے آمین کہا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رصول اکرم صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں۔ شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ تذکیہ نفس کے اس مہینہ میں شیطان کی بے انتہاء شرارتوں کے باوجود مسلمان اس کے بہکاوے میں نہیں آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے بس اور بے کس محسوس کرتا ہے۔ رمضان کے اس عظیم جذبہ کو ہم اپنی زندگی میں جاری و ساری کرلیں تو کس کی مجال ہے کہ ہمارے معاشرے کو کوئی پراگندہ کرسکے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا یا فساد کبھی برپا نہیں ہوسکتا اگر ہم ایثار اورقربانی کی سونچ کو برقرار رکھیں تو کامیابی اور کامرانی کی منزلوں کو پھلانگتے چلے جائینگے۔ ایک مہینہ جب ہم پوری شدومد کے ساتھ اللہ اس کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی میں لگے ہوئے رہتے ہیں اور بندگانِ خدا کی خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ہیں اور بے انتہاء روحانی اور دلی سکون محسوس کرتے ہیں تو کیا مشکل ہے کہ ہم اس جذبہ کو تاحیات اپنے سینے سے لگائے نہ رکھیں۔ شیطان کی یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرسکے، ہمیں گناہ کی طرف اکساتا رہے ، ہمیں تباہی وبربادی کی طرف لے جانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے شیطان کو دیکھا اس نے کہا مردود تو بڑا ہی ملعون ہے تو ہر طرف فساد مچاتا رہتا ہے کاش اگر تو ان شرارتوں سے باز آجاتا ہے تو اس دنیا میں امن و سکون پیدا ہوجائے گا، لوگ گناہوں سے بچ جائینگے۔ شیطان مردود کہنے لگا میں تو کچھ نہیں کرتا ہاں کبھی کبھی اپنی انگلی کا استعمال کرلیتا ہوں، بس اس کے بعد دوسری ساری کارروائیاں حضرت انسان ہی کرتے ہیں۔ اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے شیطان ایک حلوائی کی دوکان کے پاس گیا وہاں کسی برتن میں شیرہ تھا، شیطان نے اپنی انگلی شیرہ میں ڈبوئی اور دیوار پر پوچھ دیا، بس کیا تھا ایک مکھی آکر شیرہ پر بیٹھ گئی اس مکھی کو کھانے ایک چھپکلی آگئی ، دوکان میں موجود بلی چھپکلی پر جھپٹ پڑی اس بلی کو دیکھ کر گاہک کے کتے نے اس پر حملہ کردیا،حلوائی اپنی بلی کو بے بس دیکھ کر کتے کو مار ڈالا، جواباً کتے کے مالک نے آئو دیکھا نا تائو چھرا نکالا اور حلوائی کو پھونک دیا۔ بس کیا تھا اس محلہ میں کہرام مچ گیا اور حلوائی کے ہمدردوں نے کتے کے مالک کو ہلاک کرڈالا۔ اس طرح شیطان کی انگلی کی اس حرکت کا یہ چھوٹا واقعہ بہت بڑی غارت گری میں تبدیل ہوگیا۔ اب شیطان اس آدمی سے کہنے لگا دیکھو میاں میں نے تو کچھ نہیں کیا صرف شیرہ میں انگلی ڈبوئی اور دیوار پر پونچھ دیا۔ اب تم ہی دیکھو کہ میری اس چھوٹی سی چال کے جال میں کس طرح لوگ الجھ گئے اور آپس میں قتل اور غارت کا بازار گرم ہوگیا۔ اس واقعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی مشتعل کرنے والی باتوں کو اگر ہم نظر انداز کردیں تو کسی بھی بڑی سی بڑی مصیبت کو ٹالا جاسکتا ہے۔ بہر حال مقدس ماہ رمضان نے ہمیں بہت ساری باتوں کا درس دیا ہے لیکن سب سے اہم درس تقویٰ ہی رہا، یعنی تمام لغویات اور آسائشوں سے دوری۔ ابی بن کعب ؓ سے حضرت عمر ؓ نے ایک دن تقویٰ صراحت کی چاہی، تو کعب ؓ نے فرمایا ’’عمرؓ جب کسی خار دار جھاڑیوں سے گزریں تو جس طرح تم اپنے دامن کو اُن سے سمیٹ کر آگے بڑھتے ہو ، دراصل وہی تقویٰ ہے‘‘ یعنی دنیا کی آلودگیوں اور آسائشوںسے دامن بچاکر چلنا ہی صراطِ مستقیم ہے۔ ہم نے سود کے خلاف بہت ساری مہمات چلائیں اس لعنت کے خلاف بہت ساری تقریریں کی گئیں لیکن پرانے شہر کے کئی محلوں سے یہ اطلاعات ملی ہیں کہ مجبور اور لاچار لوگوں نے سود کے قرض پر اپنی عید منائی اور ٹھیلے بنڈے کا کاروبار بھی کیا۔ شہر کے امرا نے بہت سارے نیک کام کئے، بہت ساری زکوٰۃ دی، بہت سارے عطیات دئے لیکن اجتماعی طور پر ملت کو سود کی لعنت سے بچانے کے لئے کوئی ٹھوس کام نہیں کئے گئے ۔ اللہ رب العزت کے حضور میں ہم سب گڑگڑاکر دعا کریں کے اس سال نہیں تو کم سے کم اگلے سال ہماری ملت کے غریبوں کی عید سود کی لعنت کے بغیر ہوسکے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم اِس سمت میں کچھ کر گزرنے کی ٹھان لیں تو یقینا ان کوششوں کے اچھے نتائج برآمد ہونگے۔ کہا جاتا ہے کہ نصیب سے زیادہ قیمتی دعا ہوتی ہے کیونکہ جب زندگی میں سب کچھ بدل جائے تب انسان کے پاس دعا ہی بچتی ہے جو نصیب بدل دیتی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ صبر ، فکر اور شکر کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ بقول کسی شاعر کہ
کہاں آکے رکنے تھے راستے ‘ کہاں موڑ تھا ‘ اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ جو نہیں ملا اُسے بھول جا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰