سیاستمضامین

مسلم لڑکیاں کیوں کر رہی ہیںغیر مسلموں سے شادی

محمد مصطفی علی سروری

میرا نام فردوس بانو ہے۔ چار برس پہلے میں نے ایک ہندو لڑکے کے ساتھ لو میرج کرلی تھی۔ میری ہندو لڑکے سے شادی کے تین سال تک تو میرے گھر والوں کو بھی نہیں معلوم ہوسکا لیکن بعد میں میرا شوہر مجھے مارنے لگا اور ٹارچر کرنے لگا۔ میرے ساتھ گندی گندی حرکات کرنے شروع کردیا اور مجھے یہ کہہ کر مار تھا کہ میں اپنے ساتھ جہیز لے کر نہیں آئی ہوں اور مجھ سے کہتا تھا کہ میں اس کو چھوڑ دوں۔ وہ کہتا تھا تمہارے ہاں تو تین مرتبہ بولنے سے طلاق ہوجاتا ہے تو میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔ جب میری ایک لڑکی پیدا ہوئی تو کہنے لگا مجھے لڑکی نہیں چاہیے۔ تونے لڑکی کیوں پیدا کی۔
قارئین یہ اس ویڈیو کا اقتباس ہے جو حالیہ عرصے میں سوشیل میڈیا کے ذریعہ خوب وائرل ہوا۔ اس ویڈیو میں ایسی مسلمان لڑکیوں کی پریشانیوں کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے گھر والوں، اپنے رشتہ داروں اور اپنے والدین سے بغاوت کر کے، مذہب اسلام کو ترک کردیا اور سب کی مرضی کے خلاف شادیاں کرلی۔
مذکورہ ویڈیو میں ایک اور برقعہ پوش لڑکی کا بھی انٹرویو شامل ہے۔ اس لڑکی کا تعلق مظفر پور، بہار سے ہے۔ لڑکی بتلاتی ہے کہ میرے والد اور بھائی نہیں ہیں۔ ملازمت کی تلاش میں میری ایک ہندو لڑکے سے ملاقات ہوئی۔ وہ لڑکا نیٹ ورکنگ کے شعبہ میں ملازمت دلانے کا وعدہ کر کے مجھے اپنے ساتھ لے کر گیا جب ہم لوگ ساتھ تھے تو ہمارے درمیان تعلقات پیدا ہوگئے۔ تب اس نے میری مانگ میں سندور بھردیا۔ میں نے شادی کرلینے کو کہا تو وہ اپنے وعدہ سے مکر گیا۔ میں نے مقامی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ میں ایک سال تک اس لڑکے ساتھ رہی ۔ جب میں حمل سے تھی وہ اور اس کی ماں نے مل کر میرا حمل ساقط کروادیا۔
سماج کے بڑے لوگوں نے اس مسئلے کو حل کرنے پنچایت بلائی تو اس نے بیان دیا کہ لڑکی مسلمان ہے اور میں ہندو ہوں اور میں نے لڑکی کو استعمال کرنے کے لیے سارا ڈھونگ کیا تھا۔
قارئین کس کی کس بات کا رونا روئیں۔ اب تو ہماری بے حسی اس قدر بڑھ گئی کہ پہلے جن باتوں کو سن کر ہم روتے تھے اب ایسے واقعات کو بھی پڑھ کر اور دیکھ کر بھی ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ آخر یہ بے حسی کیا رنگ لائے گی۔
آیئے اب ایک اور لڑکی کے بیان کو پڑھیں۔ اپنے ویڈیو بیان میں لڑکی کیمرے پر آکر کہتی ہے کہ میرے شوہر کا نام ونئے رمشا ہے۔ میں سال 2009ء سے اس کے ساتھ ہوں۔ لیکن ونئے میرے ساتھ شادی کرنے کے لیے بہت ٹال مٹول سے کام لیا۔ 2010ء میں جب میرا حمل ٹھہر گیا تھا تو میرے شوہر نے حمل ساقط کروادیا۔ میرے ساتھ مارپیٹ کی گئی اور ذہنی اذیت دی گئی۔
ونئے مجھ سے غیر فطری تعلقات بنانے کے لیے زبردستی کرتا تھا۔ میرا شوہر آب کاری محکمے میں ایک گزیٹیڈ عہدہ پر فائز ہے ۔ اس کی عمر 36 برس ہے۔ اس سے شادی کرنے سے پہلے میں مسلمان تھی۔ شادی کے بعد میں نے سناتن دھرم قبول کیا۔ لیکن میرا شوہر مجھے چھوڑ دینا چاہتا ہے۔ مجھے دھمکی دے رہا ہے کہ میرے گھر والوں اور میرے بھائی کو فرضی کیس میں پھنسادے گا اورکہتا ہے میں اس کو چھوڑ کر چلی جائوں ورنہ وہ میرا بیانڈ بجا دے گا اور جان سے مار دے گا۔ کہتا ہے کہ اب میں اپنا منہ اللہ کو ہی دکھاپائوں گی۔
قارئین یہ کوئی فرضی کہانیاں نہیں بلکہ ان لڑکیوں کی آپ بیتی ہیں جنہوں نے محبت کے چکر میں پھنس کر ہندو لڑکوں سے شادی کر کے اپنا چین و سکون، اپنا مذہب اور اپنے گھر والوں کو کھودیا۔ لیکن کچھ عرصے استعمال کرنے کے بعد ان کے غیر مسلم شوہر ان کو زندگی کے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر ان کو تماشۂ عبرت بنادیتے ہیں۔
فتویٰ صادر کردینا بڑا آسان ہے۔ تبصرہ کرنا اس سے بھی آسان ہے۔ لڑکی کو برا بولنے ،اس کے والدین کو جی بھر کر گالیاں دے ڈالنے سے بھی مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔
میں نے تقریباً بیس (20)برس قبل متحدہ آندھرا پردیش میں باضابطہ طور پر قانونِ حق معلومات کے تحت ریاست کے سبھی اضلاع سے ایسی بین مذہبی شادیوں کے متعلق میارج رجسٹرار آفس سے مصدقہ تفصیلات حاصل کر کے اس موضوع پر میں نے باضابطہ ایک کتاب شائع کی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ مسلم سماج کے علمائے کرام، دانشور حضرات اور قائدین کو اس سنگین مسئلے کے متعلق حساس بنایا جائے۔
لیکن آج بیس برس بعد پڑھنے ، سننے اور دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہم نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کچھ بھی تو نہیں کیا۔نتیجہ آج بین مذہبی شادیاں ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔
آگے کچھ لکھوں ذرا اس سے قبل اس مسلم لڑکی کا بیان بھی پڑھ لیجئے جس کا نام سمیرا حنیف تھا۔ جی ہاں تھا کیوں کہ اس لڑکی نے ایک ہندو لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوکر کورٹ میاریج کرلی اور اسلام سے ترک تعلق کرتے ہوئے اپنا نام انجلی سنگھ رکھ لیا۔ لیکن انجلی سنگھ کو اپنا مذہب، اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑنے کے بعد بھی کچھ بھی نہیں ملا۔ وہ آج میڈیا کے سامنے روتے ہوئے انصاف کی مانگ کر رہی ہے اور کہتی ہے میں ایک مسلم لڑکی تھی۔ میں نے ایک غیر مسلم سے شادی کرنے کے لیے اپنے مذہب کو چھوڑ دیا۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ لیکن میرے شوہر نے مجھے ٹھکرادیا۔
بات جذبات میں آکر کسی کو برا بھلا بولنے کی نہیں ہے۔ خدارا ٹھنڈے دماغ سے سونچیں۔ کیا مسلمان لڑکیاں اگر غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں تو یہ ان کی اور ان کے والدین کی ہی غلطی ہے۔ کیا ہم نے اپنے سماج میں لڑکیوں کی شادی کو سہل بناکر رکھا ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے ضرورت رشتہ کے اشتہارات کو ہی ملاحظہ کرلیں۔ ذرا غور کریں، رشتہ عقد ثانی کے اشتہارات کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے اور عقد اولیٰ کے لیے کیا کیا مطالبات اور توقعات ظاہر کی جارہی ہیں۔
ذرا غور کریں کیسے کیسے غیر معتبر اور بے روزگار افراد رشتے طئے کرانے کے نام پر ہزاروں کمانے لگے ہیں اور اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں مناسب رشتوں کے انتظار میں ہماری لڑکیوں کی عمریں بڑھ رہی ہیں؟ شادی کی تقریبات میں پندرہ تا بیس ڈشز معمول کی بات نہیں بنادی گئی ہے۔ غریب سے غریب گھر میں بھی لڑکیوں کو بہترین سے بہترین تعلیم دلوانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لوگوں سے غریب اور ہونہار لڑکیوں کی تعلیمی کفالت کی اپیلیں کی جاتی ہیں مگر غریب ماں باپ بھی اپنی لڑکیوں کو پڑھا لکھا کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔کیوں کہ معلوم نہیں شوہر کیسا ملے گا؟
گھروں میں ہوں یا خاندانوں میں ذرا جائزہ لیں۔ دینی تعلیم اور دینی تربیت کے لیے کہاں وقت بچا ہے۔
کوئی رشتہ دار یا جاننے والا کم بجٹ میں ایک کھانے، ایک میٹھے کے ساتھ ولیمہ کر بھی دے تو اس تقریب کی منفی تشہیر کون کرتا ہے۔ کوئی ہمیں اپنے گھر کی دعوت شادی اور ولیمے کی تقریب میں کم بجٹ کے سبب مدعو نہ کرے تو کیا ہم اس کے متعلق اچھے تاثرات رکھتے ہیں۔ کیا ہم یہ طعنہ دیتے نہیں پھرتے کہ گھر میں بچی کی شادی کرے اور ہم جاننے والوں کو ہی دعوت نہیں دیئے۔
کیا ہم اخلاقی حق اور جواز بھی رکھتے ہیں کہ ان لڑکیوں اور ان کے والدین کو گالیاں دیں جن کی لڑکیاں غیروں کے ساتھ بھاگ کر کورٹ اور مندر میں شادیاں کر رہی ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں کہ ہم اپنے گھر میں اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے لڑکی کا ویری سلم ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ کیا ہم لڑکی کی تلاش کرتے وقت ویری ویری فیئر رنگ نہیں ڈھونڈتے۔ کیا ہم اپنی بہو کو اچھے گھر سے لانا نہیں چاہتے ہیں اور اچھے گھر سے مراد ذاتی گھر، اچھا جہیز اور شادی میں اچھا کھانا دینے والا نہیں ہوتا۔
قارئین یہ تو بحیثیت عام مسلمان ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں۔ لڑکے والے نہ ہوں تو لڑکی والے دونوں بھی نہ ہوں تو بحیثیت دعوتی ہمارا رول ضرور ہے۔
اور ہاں سب سے اہم بات یہ کہ ان سب وجوہات کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادیوں کو صحیح ٹھہرایا جائے۔ جس طرح روزِ محشر لڑکے ، لڑکیوں سے ان کے والدین سے سوال ہوگا کہ انہوں نے کیوں مذہب اسلام کو ترک کر کے غیر مسلموں سے شادیاں کیں۔ اس طرح مجھ سے بھی اور آپ سبھی سے بھی سوال ہوگا کہ شادیاں جب ہمارے سماج میں مشکل بنادی گئی ہیں تو ہم نے بطور رشتہ دار، بطور دعوتی سماج اور کے ایک فرد کس طرح کا رول ادا کیا۔ اس کے حوالے سے ہمیں تیار ہونا ہوگا۔
غیر مسلم لڑکوں سے مسلم لڑکیوں کی شادیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات واقعی ایک حقیقت ہے۔ دشمنوں کی سازشیں اپنی جگہ، لڑنے والے احباب اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔ مگر جب کوتاہیاں خود مسلم کمیونٹی کی ہیں اور خود مسلمانوں کو اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے تو یہ کام بھی ہونا چاہیے۔
جو لڑکیاں غیروں سے شادیاں کر رہی ہیں ان کے بدترین تجربات بھی اب ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ یہ تجربات اور ان لڑکیوں کے خیالات سبھی تک پہنچائے جانے چاہئیں کہ جو غیر قوم کے لوگ مسلم لڑکیوں سے دوستیاں اور شادیاں کرنے کی بات کر رہے ہیں وہ نہ تو مسلم قوم کے ہمدرد ہیں اور نہ ہی مسلم لڑکیوں کی زندگیوں میں خوشیاں بکھیرنے کا کام کر رہے ہیں۔
جو لوگ اور حلقے مسلم لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی صرف اس وجہ سے مخالفت کر رہے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم لڑکیاں غیر لڑکوںسے تعلقات بناتی ہیں اور غیروں سے شادیاں کر رہی ہیں۔ ان کو یہ جان لینا چاہیے کہ جب مسلمان والدین اپنے لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا رہے ہیں تو اس کا مقصد بھی جان لیں اور خود والدین اس بات کو بخوبی جانتے بھی ہیں کہ لڑکیوں کو والدین اس لیے اعلیٰ تعلیم اور پروفیشنل کورسز کرواتے ہیں کہ آگے لڑکیوں کی زندگی میں حالات خراب ہوں، شوہر نکمہ نکلے یا خدا نخواستہ کچھ حالات خراب ہوجائیں تو لڑکیاں اتنی تعلیم یافتہ تو ہوں کہ کم سے کم اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں۔ اپنی مدد آپ کریں۔ اس چکر، اس فکر اور اس طرح کی منصوبہ بندی میں کہیں بھی دینی تعلیم، دینی تربیت اور اسلامی ماحول کے لیے وقت ہی نہیں بچ رہتا ہے اور سب سے اہم سوال جولوگ غیر مسلم لڑکوں سے مسلم لڑکیوں کی شادی پر فتویٰ صادر کر رہے ہیں کیا وہ اپنے گھر اور اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت پوری طرح سے اسلامی ماحول میں کرنے کو یقینی بنارہے ہیں۔
غور کریں، سوچیں، میری تجاویز، میرا تجزیہ آپ کو پسند نہیں آیا اور سمجھ میں نہیں آیا تو ٹھیک ہے۔ آپ سونچیں، یہ جو آگ لگ رہی ہے یہ جو گھر اور خاندان جل رہے ہیں۔ کیا یہ آگ پھیلنے والی نہیں۔ کیا کریں؟ اور ہم اپنے گھر ، اپنے خاندان اور اپنے بچوں کو ناگہانی حالات سے کیسے محفوظ رکھ سکیں۔کم سے کم اسی کی فکر کریں۔
اللہ رب العزت سے دعاء ہے کہ وہ ہم سبھی کو اس حوالے سے فکر کرنے، حفاظتی اقدامات کرنے والا بنائے اور محشر کی رسوائی سے محفوظ رکھے۔ ہمارے لڑکیوں، ہمارے لڑکوں کی تربیت آسان فرمائے۔ (آمین ۔ یا رب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔sarwari829@yahoo.com
۰۰۰٭٭٭۰۰۰