سیاستمضامین

ریاستِ دہلی میں مسلمانوں کی شادیوں کا انڈین میریج ایکٹ کے تحت رجسٹریشن یونیفارم سیول کوڈ کے نفاذ کی جانب پہلا قدماروند کجریوال نے مسلمانوں کو کہا ہے کہ وہ اپنی شادیوں کا رجسٹریشن کروائیں

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ انڈین میریج ایکٹ کے تحت مسلمانوں کی شادیوں کے رجسٹریشن میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
٭ حکومتِ دہلی کا یہ اقدام یونیفارم سیول کوڈ کی جانب پیشقدمی ہے۔
٭ مرکزی حکومت اس سمت میں تیزی سے کام کررہی ہے۔
٭ مسلمانوں کو حفاظتی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومتِ دہلی نے اس سمت میں پہلا قدم بڑھایا ہے۔ مسلمانوں سے کجریوال نے کہا ہے کہ وہ اپنی شادیوں کو انڈین میریج ایکٹ کے تحت رجسٹر کروائیں ورنہ وراثت کے مسائل پیدا ہوں گے۔ طلاق کے لئے عدالتوں سے رجوع ہونا پڑے گا اور اس کے حصول میں کئی سال لگ جائیں گے۔ جائیداد کی تقسیم میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ ہر بیٹی ‘ بھائی کے مساوی حق طلب کرے گی۔ اس ضمن میں سابق میں شائع شدہ ایک مضمون کی دوبارہ اشاعت وقت کا تقاضہ بن گئی ہے۔
یونیفارم سیول کوڈ کی مجوزہ قانون سازی اس دستوری تحفظات کی خلاف ورزی میں ہوگی جس میں کہا گیا ہے کہ ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دین۔ مذہب اور دھرم کے مطابق اپنے مذہبی رسومات ادا کرے۔ اپنے مذہبی احکامات پر عمل کرے۔ یہ تحفظات جو بنیادی حقوق میں سے ایک ہیں‘ انہیں (Violate) نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں دستور کا آرٹیکل25 بالکل صاف اور واضح ہے۔ یہ آرٹیکل شہریوں کو حق عطا کرتا ہے کہ وہ اپنے دینی احکامات پر عمل کریں۔ گویا ہندوستان کی پارلیمان کوئی ایسا قانون منظور نہیں کرسکتی جو دستور کے عطا کردہ تحفظات کی خلاف ورزی میں ہوں۔
ایک موقع پر اس موضوع پر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے بابائے دستور بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا کہ اس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں اور وہ اپنے مذہبی معاملات ‘ اپنے معاشرتی معاملات ‘ اپنے قانون کے مطابق کرتے ہیں اور ان افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کوئی حکومت اگر ایک مذہبی گروپ پر یونیفارم سیول کوڈ تھوپ دے تو یہ سمجھا جائے گا کہ ایسی حکومت پاگلوں اور دیوانوں کی ہے جن میں ذرا بھی سیاسی شعور نہیں ۔ بابا صاحب نے مزید کہا کہ شادی بیاہ کے مسائل میں کروڑوں افراد پر یونیفارم سیول کوڈ تھوپ دینا بہت ہی تباہ کن ثابت ہوگااور کوئی بھی Sensible حکومت ایسی احمقانہ قانون سازی نہیں کرسکتی۔ گویا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بابائے دستور ہند یونیفارم سیول کوڈ کو ہندوستانی عوام کے سر پر تھوپ دینے کے سخت خلاف تھے۔
لیکن حکمران زعفرانی ٹولہ اس قانون کو لاگو کرنے کے لئے بالکل تیار ہے اور موقع کی تلاش میں ہے کہ اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے۔ زعفرانی ٹولہ کو اس قانون سازی کی جرأت اس لئے ہوئی کہ ہماری سپریم کورٹ نے اس ضمن میں احکامات جاری کئے ہیں۔ دستور کی خلاف ورزی کسی قانون سازی کے ذریعہ ہو سپریم کورٹ مداخلت کرسکتی ہے لیکن جب سپریم کورٹ نے از خود ایسی ہدایات جاری کی ہیں تو کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ مجوزہ قانون سازی میں سپریم کورٹ مداخلت کرے گی۔ ملک کے علمائے دین کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت بھی مایوس ہوچکی ہے اور اپوزیشن سے گزارش کررہی ہے کہ مجوزہ قانون سازی کی مخالفت کرے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جب دستور کی آرٹیکل 370 کوہی اکھاڑ پھینک دیا گیا تھا تو کیا اپوزیشن نے ہنگامہ نہیں کیا تھا؟ نتیجہ کیا نکلا۔ ووٹنگ تک نہیں ہوئی اور ندائی ووٹ سے قانون پاس کروالیا گیا اور بقولِ حکمران ٹولہ ایک قدیم کینسر کو جڑ سے نکال پھینک دیا گیا ۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف دائرکردہ رٹ درخواستیں سپریم کورٹ میں ابھی تک معرضِ التواء میں پڑی ہوئی ہیں اور ان کی سماعت کی امیدیں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس یو۔یو۔للت نے کہا تھا کہ ان درخواستوں کی سماعت اکتوبر میں ہوگی لیکن اکتوبر کو گزرے دو ماہ ہوئے۔ گزشتہ برس یعنی14 دسمبر 2022ء کو کچھ امید پیدا ہوئی کہ ان درخواستوں کی سماعت جلد ہوگی ۔ چیف جسٹس چندراچوڑ نے وعدہ تو کیا ہے پھر بھی دیکھنا ہوگا یہ وعدہ کب پورا ہوتا ہے۔
قانون نظریہ کی ایک اختتامی شکل ہے۔ اگر کسی کا نظریہ شاہوں یا آمروں کی مرضی کے منافی ہو تو ایسے فلسفی کو یا تو قتل کردیا جاتا ہے یا جلا وطن ۔ تو کسی ارسطو کو زہر ہلاہل (Hemlock) پینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے آج صورتحال کچھ ایسی ہے کہ ہر مسلمان کے ہاتھ میں ایک زہرِ ہلال کا پیالہ دیا جارہا ہے جو کہ مجوزہ قانون کی شکل میں‘ احکاماتِ الٰہی کا پابند مومن کیا اس قانون کو قبول کرے گا جو ایک زہر کے پیالے کی شکل میں ہوگا جو اس کے لئے موت سے کسی قدر کم نہ ہوگا یا اس قانون کو تسلیم کرکے اور اس پر عمل کرکے معتوبِ الٰہی بن جائے گا؟
ذیل میں وہ چھ بنیادی حقوق بتائے گئے ہیں جو کسی بھی حالت اور کسی بھی صورت میں زائل نہیں کئے جاسکتے جو آرٹیکل (12-35)میں صراحت کے ساتھ بتائے گئے ہیں۔

  1. Right to Equality.
  2. Right to Freedom.
  3. Right Against Exploitation.
  4. Right to Freedom of Religion.
  5. Cultural And Educational Rights.
  6. Right to Constitutional Remedies.
    مذہبی معاملات میں آزادی کا حق آرٹیکلس (25-28) میں عطا کیا گیا ہے۔
    اسلام مسلمانوں کا دین (Religion) ہے اور قرآن کریم میں دیا ہوا حکم مذہبی احکامات کے اجزاء ہیں۔ معاملات شادی و طلاق‘ وراثت وغیرہ دینی احکامات کا جزو ہیں اور ان پر مسلمانوں کی جانب سے عمل آوری کی راہ میں کوئی بھی قانون لاگو نہیں ہوسکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ وراثت و وصیت ‘ نکاح۔ طلاق۔ تنبیت ‘ وقف اور دیگر مسائل جن کا سرچشمہ کلام اللہ ہے اور قرآن مجید مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے تو قرآن میں واضح تمام احکامات پر عمل آوری دستور کے آرٹیکلس (25-28) کے تحت (Freedom of Religion) کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں۔ کم سے کم عقل رکھنے والا شخص جس کا تعلق کسی بھی دین دھرم سے ہو‘ یقینی طور پر کہے گا کہ یہ معاملات بنیادی حقوق سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں کسی بھی قسم کی مداخلت چاہے قانون سازی کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو‘ خلافِ دستور ہوگی لیکن کیا اتنی سی معمولی بات سپریم کورٹ کے ججس کے ذہن میں آئے گی یا وہ بابری مسجد والے فیصلے کی راہ پر اپنا فیصلہ صادر کریں گے؟
    وراثت ۔ طلاق۔ خلع ۔ وصیّت اور ہبہ کے معاملات کی یکسوئی وقت کی ضرورت ہے
    اگر خدانخواستہ زیرِ بحث قانون منطور کرلیا جاتا ہے تو ہندوستان میں امتِ مسلمہ کے لئے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ان میں سرِ فہرست مسئلہ وراثت ہوگا۔ اسلامی قانون کے مطابق عورت کا حق مرد کی نسبت نصف ہے ۔ جبکہ یونیفارم سیول کوڈ کے مطابق یہ حق مرد کے مساوی ہوگا۔ صورتِ حال تو یہ ہے کہ بیٹی کو بیٹا ‘باپ کے انتقال کے بعد وراثت سے یکسر محروم کردیتا ہے اور اس دقیانوسی اصول پر کابند ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ ہمارے پاس یہ دستور نہیں ہے۔ گویا ان احمقوں کا دستور ماورائے شرع شریف ہے۔ آج بھی شہر کی سیول کورٹس اور اضلاع کی ضلع کورٹ میں تقسیم ترکہ کے مقدمات کی بھر مار ہے اور حصولِ انصاف کے لئے کئی دہوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ قبل اس کے کہ یہ تلوار سروں پر گرے اپنے بیٹے بیٹیوں کو ازروئے شریعت ان کا حصہ بذریعہ ہبہ میمورنڈم دے دیا جائے تاکہ آئندہ یہ مسائل پیدا نہ ہوں۔ طلاق کے معاملات بہت پیچیدہ ہونے جارہے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں نہیں دی جاسکتیں۔ تین ماہ کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر ایک وقت میں تین طلاقیں دیدی جائیں تو گرفتاری ہوگی اور مقدمات دائر کئے جائیں گے جن میں سزائے قید ہوگی۔ لہٰذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ طلاق کے معاملات کی بہت بہتر انداز میں یکسوئی کرلی جائے اور آپسی رضامندی کے ساتھ علاحدگی اختیار کرلی جائے۔ ورنہ طلاق کے لئے تڑپنا پڑے گا۔ مرد دوسری شادی نہ کرسکے گا کیوں کہ اس پر (BIGAMY) کا کیس دائر ہوگا۔ دوسری جانب طلاق کے حصول کے لئے عورت تڑپتی رہے گی اور طلاق کے ذریعہ علاحدگی صرف عدالت کے صوابدید پر منحصر ہوگی۔ عدالت نہیں چاہے گی کہ طلاق ہو لہٰذا ایک دو سال (Cooling Period) میں ڈال دیا جائے گا تاکہ مرد و عورت کے جذبات ٹھنڈے ہوجائیں۔
    ایک دوسری مصیبت یہ ہوگی کہ عورت مرد کے مقابلہ برابر حق کے حصول کے لئے عدالت سے رجوع ہوگی۔ یہ معاملہ ایک عرصۂ دراز تک معرضِ التواء میں پڑا رہے گا ۔ کرایوں کی آمدنی عدالت میں جمع ہوگی۔
    اگر بیوی طلاق کا مطالبہ کررہی ہے تو فوری طور پر تسلیم کرلینا چاہیے
    طلاق دینا گو کہ جائز عمل ہے پھر بھی جائز امور میں یہ بہت ہی ناپسندیدہ عمل ہے جس سے خاندان کے تانے بانے بکھر جاتے ہیں لیکن بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ طلاق دونوں میاں بیوی کے لئے ایک نعمت بن جاتی ہے ۔ اگر یہ محسوس کیا جائے کہ ساتھ مل کر رہنا ایک دشوار عمل ثابت ہوگا تو سب سے بہتر بات یہ ہوگی کہ دونوں خاندان کے بزرگوں کی ایک میٹنگ کے بعد اس معاملہ کی یکسوئی کرلی جائے۔
    دوسری جانب اگر قانون سازی ہوجائے تو سب سے زیادہ نقصان مرد ذات اور اس کے افرادِ خاندان کا ہوگا ۔ ایک طرف دفعہ498-A تعزیرات ہند کی کارروائی تو دوسری جانب DVC کیس جس میں کئی لاکھ روپیوں کا معاوضہ یا حرجانہ طلب کیا جائے گا۔
    بیٹوں اور بیٹیوں میں جائیداد منصفانہ طریقہ سے بذریعہ ہبہ میمورنڈم تقسیم کردیں
    قانون سازی سے پہلے یہ عمل وقت کی شدید ترین صورت ہوگا۔ صاحبِ جائیداد کے انتقال کے بعد بہنیں بھائیوں کی زندگی دوبھر کردیں گی۔ اگر بیٹوں کی بدقسمتی سے بیٹی کسی اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایڈوکیٹ سے رجوع ہو تو تقسیم ترکہ کا مقدمہ دائر کیا جائے گا اور بھائی کے مساوی حق طلب کیا جائے گا اور حق مل بھی جائے گا ۔ انکار کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ لہٰذا مرحوم صاحبِ جائیداد کے بیٹے اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ ’’ جب کا جب دیکھا جائے گا‘‘۔
    ایسی سوچ خطرناک ثابت ہوگی۔ جائیداد فروخت نہ ہوسکے گی اور اگر کرایہ یا دیگر آمدنی کے ذرائع ہوں تو ساری کی ساری رقم عدالت میں مقدمہ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوگی۔
    لہٰذا تمام صاحبِ جائیداد حضرات جلد از جلد اس عمل کی تکمیل کرلیں اور منصفانہ طرز پر اپنی جائیدادیں اپنے ورثاء میں تقسیم کردیں۔
    مرحوم بیٹے کے ورثاء کے حق میں وصیت کریں
    صاحبِ جائیداد کا کوئی بیٹا فوت ہوگیا ہو اور اسے اولاد ہو‘ تو ایسی یتیم اولاد محروم ہوجائے گی۔
    لہٰذا بذریعہ وصیت ان یتیموں کے حق کا تحفظ کیا جائے کیوں کہ دورِ حاضر میں یتیموں کا مال ہڑپ کرلینا ایک عام بات ہے۔
    عامۃ المسلمین اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیں اور اپنے اولین فرصت میں مندرجہ بالا اقدام کریں کیوں کہ عنقریب قانون سازی ہونے والی ہے جس کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔
    ۰۰۰٭٭٭۰۰۰