
ڈاکٹر شجاعت علی صوفی۔پی ایچ ڈی
رفاعیہ نے کہا تھا کہ ’’ اگر علماء خدا کے دوست نہیں تو پھر دنیا بھر میں کوئی خدا کا دوست نہیں‘‘۔ سارے ملک میں چناؤ کے دوران سیاسی جماعتوں کی تائید یا مخالفت کے سلسلے میں مختلف تنظیموں کے موقف سامنے آتے ہیں۔ تائید اور مخالفت کی بنیاد سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ تنظیمیں کسی کو چاہنے یا نہ چاہنے کی وجوہات بتانے سے قاصر ہوتی ہیں۔ کچھ جماعتیں یا تنظیمیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف انتخابات کے دوران ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں ہندو تنظیمیں بھی ہیں اور مسلم بھی۔
آج ہم ملک کی بدلتی ہوئی تصویر پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ایک بات بڑے ہی واضح طورپر نظر آتی ہے کہ لوگوں میں مذہبی دیوانگی یا منفی جنون لگ بھگ ختم ہونے کو ہے۔ خاص طورپر چناؤ کے دوران عوام عام مسائل کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ لوگ درگاہوں کی زیارت یا پھر مندر کے درشن والی پیشکشیوں کو قبول نہیں کرتے۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے خرچ پر مذہبی سیاحت کرسکتے ہیں انہیں کسی ریاستی حکومت یا کسی سیاسی جماعت کی طرف سے اس طرح کی پیشکش قابل قبول نہیں ہے۔
چناؤ کے دوران یہ بات بھی دیکھنے میں آرہی ہے کہ جنتا چاہے وہ ہندو ہو کہ مسلم سکھ ہو کہ عیسائی عام عوامی فائدوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ عوام کھلے عام یہ کہنے لگے ہیں کہ انہیں Lollypops نہیں چاہئے بلکہ وہ اچھی سڑک، بہتر پینے کا پانی ، سستی اور اچھی بجلی ، اچھے ہاسپٹلس اور معیاری اسکولس چاہتے ہیں۔ جو بھی پارٹی عملی طورپر یہ کر دکھاتی ہے اس کو عوام نہ صرف عزت کی نظرسے دیکھتے ہیں بلکہ اس کے حق میں ووٹ ڈالتے ہوئے مسرت بھی محسوس کرتے ہیں۔ انتخابی مہمات کے دوران سیاستدانوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ کر بے حد افسوس ہوتا ہے۔
ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے راجستھان میں یہ کہہ کر حد ہی کردی کہ کانگریس میڈیا کو خرید کر اپنے حق میں جیت کی لہر دکھلا رہی ہے۔ کیا ہندوستان کا کوئی باشندہ ان کی اس بات پر یقین کرسکتا ہے؟ حالانکہ آج پورے ہندوستان میں نام نہاد قومی میڈیا کو گودی میڈیا کے نام سے پکارا جارہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نیوز چینلس مودی کے زیر اثر بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی ملکیت ہیں۔
سیاسی ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ مودی کے اس طرح کے بیان دراصل پانچوں ریاستوں یعنی میزورم، راجستھان، چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں بی جے پی کی شکست کی علامت ہے۔ لوگ آج یہ چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں معاشی اور سماجی پروگرامس لے کر عوام کے سامنے آئیں نہ کہ مذہبی ایجنڈے لے کر۔ جس طرح ہندو طبقہ مذہبی سیاست سے بیزار ہے تو وہیں مسلمان بھی نہیں چاہتے کہ سیاست کو مذہب سے جوڑا جائے۔ اس وقت تلنگانہ میں کچھ عجیب باتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ چچا کی قیادت والی ایک جماعت کانگریس کی مکمل تائید کررہی ہیں تو بھتیجہ کی جماعت بی آر ایس کو اپنا سپورٹ دے رہی ہے۔ ایک جماعت نے تو اپنے فیصلے سے لوگوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کردیا کہ وہ 40 نشستوں پر بی آر ایس کی ‘7 نشستوں پر مجلس کی‘ ایک نشست پر بی ایس پی کی اور ایک نشست پر سی پی آئی کی تائید کرے گی جبکہ 69 نشستوں پر وہ کانگریس کی حمایت کرے گی۔ خیریت آباد میں پہلے بی آر ایس کی تائید کرنے کا اعلان کیا تھا بعد میں انہوں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور کانگریس کی امیدوار کی تائید کرنے کا مژدہ سنایا۔ اس طرح کانگریس کی تائیدی نشستیں 70 ہوگئیں۔
سیاسی جماعتیں اور خاص طورپر مسلم تنظیمیںمسلمانوں کو بے وقوف سمجھنے کی حماقت نہ کریں۔ آج کا مسلمان سیاسی اعتبار سے انتہائی باشعور ہوگیا ہے۔ دیگر ابنائے وطن کی طرح جب سے ان کے ہاتھ میں اسمارٹ فون آگیا ہے وہ روز روز کے سیاسی واقعات اور سیاسی چالوں سے پوری طرح واقف رہنے لگے ہیں۔ وہ اپنے ہم وطنوں کے خیالات سے خیالات ملاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ اپنے لئے ایک علحدہ سوچ کو مناسب نہیں سمجھتے۔ وہ قومی دھارے کی سیاست کو ہی اصل سیاست سمجھتے ہیں اور ایرے غیرے نتھو خیرے کے چنگل میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ تلنگانہ کے چناوی نتیجے یقینا قومی سیاست کا منظر بدل دیں گے اور ایک نئی روشنی ملک میں پھیلے گی۔ جہاں خوشحالی کے دیپک جلیں گے۔
تلگو کے اکثر نیوز چینلس نے کانگریس کی کامیابی کے اشارے کئے ہیں اکا دکا چینلس ہی معلق اسمبلی کی بات کررہے ہیں۔ اگر کوئی تنظیم ایک جماعت کی کچھ نشستوں پر اور دوسری جماعتوں کی کچھ نشستوں پر تائید کا اعلان کرتی ہے تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ شاید وہ ہوا کے رخ کے مطابق اپنے فیصلے کررہی ہیں۔ جس سے ان نام نہاد تنظیموں کو دوہرا فائدہ ہوگا۔ دھوکہ اور فریب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہر تائید اور مخالفت کو بھی مبینہ طورپر پیسوں ہی میں تولا جائے گا۔ علماء اگر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں تو اس سے ملت میں ان کی عزت و توقیر گھٹ سکتی ہے۔ بہتر یہی ہوتا کہ یہ تنظیمیں کھلے عام تائید و مخالفت کرنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ کام کرتیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ جماعتیں اپنی ہی صفوں میں دراڑیں پیدا کرچکی ہیں۔ ان میں اتحاد کا نہ ہونا خود ان کی ناکامی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ایسی تنظیمیں دوسروں کی کامیابی میں کیا رول ادا کرسکینگی؟ ایسی ہی صورتحال میں راز الہ آبادی کا یہ شعر ذہن کے گوشوں میں گونجنے لگتا ہے کہ
میں آپ اپنی تلاش میں ہوں‘ میرا کوئی رہنما نہیں ہے
وہ کیا دکھائیں گے راہ مجھ کو جنہیں خود اپنا پتہ نہیں ہے
بہرحال ذہنی طورپر غلام قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں ، شریف کو بے وقوف، مکار کو چالاک، قاتل کو بہادر اور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے ۔ ماحول بدل رہا ہے۔ ایک نیا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ امن و شانتی ہماری زندگی کا حصہ بن رہی ہے اور ملک معاشی انقلاب کی طرف گامزن ہوگا۔ ملک کے علماء کو چاہئے کہ وہ اگر اپنے آپ کو خدا کا دوست سمجھتے ہیں تو انھیں ایک خاص قسم کے معیار کو اپنانا ہوگا تاکہ لوگ ان کو اپنا حقیقی بزرگ سمجھیں اور ان کی ہدایت پر من و عن عمل کریں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰