محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
الیکٹورل بانڈز اسکیم کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے ذریعے غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد یہ بحث تیز ہو گئی تھی کہ کیا اس فیصلے کا سیاسی پارٹیوں پر بالخصوص حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اپوزیشن کانگریس پارٹی کی 2024 لوک سبھا انتخابی مہم پر کتنا اثر پڑے گا؟ تو آئیے پہلے سمجھتے ہیں کہ الکٹرول بانڈز کیا ہے۔ دراصل الیکشن کے وقت ہر سیاسی پارٹیوں کا کروڑوں کا خرچ ہوتا ہے۔ پارٹیوں کو عوام تک اپنی باتیں پہنچانے کے لئے بڑی بڑی ریلیاں، جلسے جلوس، بینر پوسٹر وغیرہ کے لئے کافی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پیسہ ملک اور بیرون ملک کے بڑے بڑے کارپوریٹ اور بزنس مین چندہ کے نام پر سیاسی پارٹیوں کو جو پیسے دیتے ہیں اسی کو الیکٹورل بانڈ کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ جسے الیکٹورل بانڈز اسکیم کہا جاتا ہے، اس پر پابندی لگانے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ فوری اور طویل مدتی نقطہ نظر سے کافی اہم مانا جا رہا ہے۔ اس فیصلے کا نہ صرف سیاسی جماعتوں کو ملنے والے چندے اور اس کے طریقوں پر فوری اثر پڑے گا بلکہ اس کے ذریعہ سیاست میں شفافیت اور جمہوریت میں عوام کے حق معلومات کی اہمیت کو بھی واضح کر دیا ہے۔ یہ اسکیم 2 جنوری 2018 کو بی جے پی قیادت والی مرکزی حکومت لائی تھی جس پر شروع سے ہی اعتراض کیا جا رہا تھا اور کئی بار اس کی خامیوں کی طرف بھی نشاندہی بھی کی گئی تھی مگر مودی حکومت معترضین کو خاطر میں لانے کو ہرگز تیار نہیں تھی اور ہمیشہ اس اسکیم کا دفاع کرتی رہی ہے کیونکہ اس اسکیم کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہی ہو رہا تھا۔حالانکہ اس اسکیم میں سیاسی جماعتوں کو فنڈ دینے کے عمل میں غیر شفافیت کا عنصر صاف طور پر جھلک رہا تھا۔ اس میں کارپوریشنوں اور افراد کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) سے الیکٹورل بانڈ خرید کر سیاسی پارٹیوں کو گمنام طریقے سے رقم چندہ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ مودی حکومت نے اس اسکیم کی راہ ہموار کرنے کے لئے مختلف قوانین جیسے عوامی نمائندہ ایکٹ 1951، کمپنی ایکٹ 2013، انکم ٹیکس ایکٹ 1961 اور ایف سی آر اے 2010 میں ترمیم کی تھی ۔ ترمیم سے قبل کسی بھی کمپنی کو اپنے منافع کی زیادہ سے زیادہ حد 7.5 فیصد ہی بطور بانڈز چندہ دینے کی اجازت تھی مگر اس میں ترمیم کر کے اس کی حد بڑھا کر منافع کا 100 فیصد چندہ دینے کی اجازت دی گئی تھی ۔ حکومت کے اس اقدام سے غیر قانونی چندہ اکٹھا کرنے کی حوصلہ افزائی اور کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے فرضی کمپنیوں کے وجود میں آنے کی راہیں کھلنے کے امکانات بڑھ گئے تھے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو حاصل ہو رہی تھی اور شاید یہی واحد وجہ بنی کہ بی جے پی سب سے زیادہ چندہ حاصل کرنے والی پارٹی بن گئی۔ مگر اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انتخابی بانڈز کو بینک نہ فروخت کر سکیں گے اور نہ ہی جمع کر سکیں گے۔ جن بینکوں میں کسی کا اکاونٹ ہے وہ اب پارٹیوں کے کھاتوں میں انتخابی چندہ جمع نہیں کر سکیں گے۔ ایس بی آئی کو سیاسی جماعتوں کے ذریعے کیش کیے گئے انتخابی بانڈز کی تفصیلات پیش کرنا ہوں گی۔ وہیں کیش نہیں کرائے گئے انتخابی بانڈز کی تفصیلات بھی جمع کرانا ہوگا۔
لوک سبھا انتخابات 2024 سے عین قبل آئے اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے انتخابی بانڈ متعارف کرانے کے لیے قوانین میں کی گئی تبدیلیوں کو نہ صرف غیر آئینی قرار دیا ہے بلکہ ان الزامات کے اثر کو کم کرنے والے اقدامات کے ساتھ وقت کی حد بھی مقرر کر دی تھی۔ فیصلے کے مطابق 12 اپریل 2019 کے بعد الیکٹورل بانڈز کے ذریعے موصول ہونے والے چندہ سے متعلق تمام تفصیلات 13 مارچ 2024 تک الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر عام ہوجانا چاہئے۔ اس طرح بانڈز جاری کرنے والے ایس بی آئی کو اپریل 2019 سے اب تک کتنے لوگوں نے کتنے روپے کے انتخابی بانڈ خریدے ہیں، اس کی معلومات تین ہفتوں میں دینا ہوگی۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن اس معلومات کو عوام تک پہنچائے گا۔
انتخابی بانڈز جمع کرنے کے لیے ملک بھر میں ایس بی آئی کی کل 29 مجاز شاخیں تھیں ۔ جہاں کوئی بھی الیکٹورل بانڈ خرید سکتا تھا اور سیاسی جماعتوں کو فنڈ دے سکتا تھا ۔ تاہم عدالت نے جاری کرنے والے بینک (ایس بی آئی) کو فوری طور پر انتخابی بانڈ جاری کرنے سے روک دیا ہے۔ یعنی اب مودی حکومت کی اس اسکیم پر بریک لگ گیا ہے۔ اس سے جہاں دیگر سیاسی جماعتوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا وہیں بی جے پی کو زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے چونکہ عام انتخابات قریب ہیں اور پارٹیوں کو انتخابی چندہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس فیصلے کا اپریل مئی میں ہونے والے ممکنہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کے انداز پر براہ راست یا بالواسطہ اثر پڑ سکتا ہے۔ دراصل حکومت کی جانب سے انتخابی بانڈز کو آر ٹی آئی کے دائرے سے باہر رکھنے پر لوگوں کو زیادہ اعتراض تھا۔ حکومت کے فیصلے عام لوگ آر ٹی آئی کے تحت الیکٹورل بانڈز سے متعلق معلومات نہیں مانگ سکتے تھے جبکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ رائے دہندگان کو پارٹیوں کے فنڈز کے بارے میں جاننے کا حق حاصل ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھی انتخابی بانڈز سے متعلق معلومات اپنی ویب سائٹ پر عام کرنا ہو گی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی زیادہ اہمیت اس حقیقت میں ہے کہ اس نے ایک بار پھر انتخابی اصلاحات کے رہنما اصولوں کو واضح کر دیا ہے۔ الکٹرول بانڈ اسکیم کے حق میں حکومت کی دلیل تھی کہ کالے دھن اور سیاسی فنڈنگ میں بے ضابطگیوں کو روکا جاسکے گا۔ وہیں عدالت کا کہنا تھا کہ کالے دھن کو روکنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چندہ دہندہ کو الکٹرول بانڈ میں اپنا نام نہیں لکھنا پڑتا تھا۔ یہ الیکٹورل بانڈ ایس بی آئی کی 29 شاخوں میں دستیاب تھے اور سال میں چار مرتبہ یعنی جنوری، اپریل، جولائی اور اکتوبر میں جاری کیے جاتے تھے۔ صارف اسے بینک کی برانچ یا اس کی ویب سائٹ پر آن لائن خرید سکتا تھا، انتخابی بانڈ کو ہندوستان کا کوئی بھی شہری، کمپنی یا تنظیم خرید نے کا حق حاصل تھا ۔ یہ بانڈ ایک ہزار، دس ہزار، ایک لاکھ اور ایک کروڑ روپئے تک کے ہوتے تھے ۔ سیاسی پارٹیوں کو چندہ ملنے کے 15 دن کے اندر انہیں بھنانا ہوتا تھا ۔ بانڈ کے ذریعہ صرف وہی سیاسی پارٹی چندہ حاصل کرسکتی تھی جو عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 29 اے کے تحت رجسٹرڈ تھے اور جنہوں نے گزشتہ پارلیمانی یا اسمبلی انتخابات میں کم ازکم ایک فیصد ووٹ حاصل کئے تھے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ہی عام لوگ بھی کافی خوش نظر آ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ الکٹرول بانڈ اسکیم فنڈز کے بہاؤ کو حکمراں اپنی پارٹی کی طرف موڑنے اور دوسری پارٹیوں کے ذرائع کو بند کرنے کے مقصد سے نافذ کی گئی تھی۔ اسی وجہ سے حکومت نے ریزرو بینک اور الیکشن کمیشن کی رائے کو نظر انداز کیا۔ جبکہ 2017 میں ریزرو بینک نے خبردار کیا تھا کہ شیل کمپنیاں منی لانڈرنگ کے لیے انتخابی بانڈز کا غلط استعمال کر سکتی ہیں۔ 2019 میں الیکشن کمیشن نے بھی اس اسکیم کو چندہ اکٹھا کرنے کے لئے شفافیت کے معاملے میں پیچھے دھکیلنے والا قدم قرار دیا تھا مگر مخالف سیاسی پارٹیوں کی راہیں مسدود کرنے کی کوششوں میں مصروف مودی حکومت نے کسی بھی آئینی ادارے کے تحفظات کو ماننے سے انکار کردیا تھا ۔اب جبکہ سپریم کورٹ نے انتخابی بانڈز کو ختم کردیا ہے، سیاسی جماعتوں کو مل کر ایسا قانون بنانا چاہئے جو انتخابات میں پیسوں کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے نمٹنے اور منصفانہ و شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے میں معاون ہو۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کو چاہئے کہ سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کے تعلق سے شفافیت کو حتمی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے اور سیاسی پارٹیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے بینک کھاتوں کو عام کریں۔ لہٰذا اپنی جمہوریت کو بچائے رکھنے کے لئے تمام انتخابی سرگرمیوں کو پیسے اور طاقت کے بے جا استعمال سے پاک رکھنا تمام شہریوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے.
اب اسٹیٹ بینک آف انڈیا یعنی ایس بی آئی نے الیکٹورل بانڈز سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی دے کر 30 جون تک کا وقت مانگا ہے کیونکہ وہ الیکٹورل بانڈ کا ڈیٹا فراہم کرنے سے قاصر ہے. رپورٹ کے مطابق ایس بی آئی نے اپنی درخواست میں عدالت کو بتایا کہ 12 اپریل 2019 سے 15 فروری 2024 تک مختلف جماعتوں کو چندہ کے لیے 22217 انتخابی بانڈ جاری کیے گئے ہیں۔ وہ بانڈ جنہیں کیش کرا لیا گیا تھا وہ مجاز برانچوں کے ذریعے ممبئی کی مرکزی برانچ میں سیل بند لفافوں میں مرحلہ وار جمع کرائے گئے تھے۔ ایس بی آئی نے کہا کہ معلومات جمع کرنا پیچیدہ عمل ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ 3 ہفتوں کا وقت اس کے لیے کافی نہیں ہے۔کانگریس کی سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی چیئرپرسن سپریہ شرینت نے منگل (5 مارچ) کو یہاں پارٹی کے صدر دفتر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سچائی پر پردہ ڈالنے کی سازش کی جا رہی ہے اور یہ بات کسی سے ہضم نہیں ہوپارہی ہے کیونکہ ایک کلک میں سارا ڈیٹا دستیاب ہوسکتا ہے۔ مگر سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کو ملتوی کرنے اور طول دینے کے لیے ایس بی آئی کو مہرہ بناکر انتخابات کے مکمل ہونے تک ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے وقت مانگا جا رہا ہے۔
سپریہ شرینت نے مزید کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے 15 فروری کو الیکٹورل بانڈ پر پابندی لگاتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت میں کس نے، کس پارٹی کو، کتنا پیسہ دیا ہے یہ عوام کو جاننے کا حق ہے۔ سپریم کورٹ نے ایس بی آئی کو حکم دیا تھا کہ 6 مارچ تک انتخابی بانڈز ڈونر کے نام سامنے لائے جائیں اور الیکشن کمیشن کے ساتھ اس کا اشتراک کیا جائے لیکن اب ایس بی آئی نے عدالت سے 30جون تک کا وقت مانگا ہے کیونکہ وہ الیکٹورل بانڈ کا ڈیٹا فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
کانگریس کی ترجمان نے کہا کہ ’’ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈیجیٹل بینکنگ کے اس دور میں کمپیوٹر کے ایک کلک سے 22217 الیکٹورل بانڈز کا ڈیٹا نکالنے کے لیے ایس بی آئی کو 5 مہینے چاہئے۔ یہ وہی ایس بی آئی ہے جس کے 48کروڑ بینک اکاؤنٹس ہیں، تقریباً 66000 اے ٹی ایم اور 23000 شاخیں ہیں۔ سپریہ شرینت نے کہا کہ "گزشتہ مالی سال کے اختتام تک تقریباً 12ہزار کروڑ روپے الیکٹورل بانڈز کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کو ملے، جس میں سے صرف بی جے پی کو تقریباً 6500 کروڑ روپے ملے ہیں۔ بی جے پی پریشان ہے کہ اگر چندہ دینے والوں کے نام سامنے آگئے تو پتہ چل جائے گا کہ ان کا کون سا دوست کتنا پیسہ دے رہا تھا اور کیوں دے رہا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 30 کمپنیوں نے بی جے پی کو تقریباً 335 کروڑ روپے کا عطیہ دیا تھا، جن کے خلاف 2018 اور 2023 کے درمیان ایجنسیوں کی کارروائی ہوئی تھی۔ ان میں سے 23 کمپنیاں ایسی تھیں جنہوں نے پہلے کبھی کسی سیاسی جماعت کو چندہ نہیں دیا تھا۔ سپریہ شرینت نے حکومت سے پوچھا ہے کہ ’’ ملک کے سب سے بڑے بینک ایس بی آئی کو صرف 22217 انتخابی بانڈز کے بارے میں معلومات دینے کے لیے 5 ماہ کا وقت کیوں درکار ہے؟ ایس بی آئی الیکٹورل بانڈز کے بارے میں معلومات دینے کے لیے آخری تاریخ سے پہلے ہی اچانک کیوں جاگ گیا؟” ایس بی آئی پرکون دباؤ ڈال رہا ہے؟ کون ہے جو مالی بے ضابطگیوں اور بلیک منی کے اس گورکھ دھندے کو فروغ دے رہا ہے۔ کیا جمہوریت میں لوگوں کو یہ حق نہیں ہے کہ کس نے، کس پارٹی کو کتنا پیسہ دیا ہے، اسے جان سکیں؟کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے منگل کو کہا کہ انتخابی بانڈ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی ایک بدعنوان اسکیم تھی، جسے سپریم کورٹ نے منسوخ کر کے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے لیکن حکومت اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو ناکام بنانے کے لئے اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کا استعمال کررہی ہے مسٹر کھڑگے نے آج کہا، "مودی حکومت انتخابی بانڈز کے ذریعے اپنے مشکوک لین دین کو چھپانے کے لیے ملک کے سب سے بڑے بینک کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ راہل گاندھی نے ایکس پر لکھا، ’’نریندر مودی نے” چندے کے دھندے” کو چھپانے کے لیے پوری طاقت جھونک دی ہے‘‘۔ جب سپریم کورٹ نے کہا کہ ہے کہ الیکٹورل بانڈ کی حقیقت جاننا ملک کے باشندگان کا حق ہے، تب ایس بی آئی کیوں چاہتا ہے کہ انتخابات سے قبل یہ معلومات عوامی نہ ہو پائے؟ انہوں نے مزید کہا، "ایک کلک پر نکالی جا سکنے والی معلومات کے لیے 20جون تک کا وقت مانگنا بتاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہی نہیں، پوری دال ہی کالی ہے۔ ملک کا ہر آزاد ادارہ” موڈانی خاندان” بن کر ان کی بدعنوانی پر پردہ ڈالنے میں لگا ہے۔ انتخابات سے قبل مودی کے” اصلی چہرے” کو چھپانے کی یہ "آخری کوشش” ہے۔ راہل گاندھی کی پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے جے رام رمیش نے بھی اس معاملہ پر تبصرہ کیا ہے۔ جے رام رمیش نے لکھا ’’آپ کرونولوجی سمجھیں، پہلے انتخابات ہوں گے، پھر الیکٹورل بانڈ کی معلومات منظر عام پر آئے گی۔ برسراقتدار جماعت آخر سیاسی فنڈنگ سے حاصل اپنی اتھاہ دولت کے ذرائع کے انکشاف سے اتنا کیوں گھبرا رہی ہے؟ جے رام رمیش نے مزید کہا، ’’یاد رہے کہ سیاسی جماعتوں کو حاصل ہونے والے چندے اور الیکٹورل ٹرسٹ کی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ جن 30 سے زائد کمپنیوں پر ای ڈی/آئی ٹی/سی بی آئی نے چھاپے مارے تھے، انہوں نے چھاپے کے بعد بی جے پی کو 335 کروڑ روپے تک کا چندہ دیا ہے۔ بی جے پی کو اپنی سیاسی فنڈنگ کا بڑا حصہ (60+ فیصد) الیکٹورل بانڈز سے ملا ہے۔ الیکٹورل بانڈ کے فنڈز کے انکشاف سے مودی حکومت کے کون سے غلط کام سامنے آنے والے ہیں؟‘‘ سپریم کورٹ کا مایہ ناز وکیل کپل سبل نے اسے مودی حکومت کا سب سے بڑا گھوٹالہ کہا ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس کو الیکشن میں بڑا مدعا بنائیں، بے باک سینئر صحافی روش کمار نے اپنے چینل میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے وہ کہتے ہیں ” 6 مارچ کو بھارتیہ اسٹیٹ بینک الکٹرول باؤنڈ کی جانکاری نہیں دے گا، اسے چار مہینے کا وقت چاہئے تاکہ 2024 لوک سبھا کا پورا الیکشن نکل جائے اور عوام کو پتہ ہی نہ چلے کہ 16 ہزار کروڑ کا چندہ بی جے پی کو کس نے دیا اور اس کے بدلے میں اسے کتنے اربوں کا فائدہ ہوا، یہ چندہ نہیں تھا فراڈ تھا گھوٹالہ تھا، عام لوگوں کی تمام جانکاری بینک کے پاس ہے اور جانکاری مل جائے اس کے لئے بنک طرح طرح جانکاریاں مانگ رہا ہے، الکٹرول بانڈز بہت بڑا گھوٹالہ ہے اس گھوٹالے کو منظر عام پر لانے کے لئے نہ معلوم کتنی جان توڑ محنت کی گئی ہے، سالوں انتظار کیا گیا ہے اب ان کی محنت پر پانی پھرتا جیسا محسوس ہو رہا ہے، اس معاملے کو عوام کے درمیان لے جانے کا ایک ہی راستہ بچا تھا اور وہ تھا چناؤ چونکہ اخبارات اور گودی چینلوں نے تو اسے روٹین خبروں کی طرح نمٹا دیا ہے، اس وقت سب کی نگاہیں سپریم کورٹ کی طرف ہیں کہ کیا عدالت سے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو راحت مل جائے گی؟ یاد رکھئے گا یہ راحت بینک کو نہیں ملے گی بلکہ راحت انہیں ملے گی جس نے ان بانڈز کے ذریعے سولہ ہزار کروڑ کا کھیل کھیلا ہے، ہزاروں کروڑ کا چندہ حاصل کیا ہے”۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰